ازخود نوٹس کیس: ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب
مختلف مقدمات کی تحقیقات میں حکومتی شخصیات کی مبینہ مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے بعض کابینہ ارکان کے نام نکالے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ناموں کی تفصیلات طلب کرلیں۔
ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل بینچ نے کی۔
عدالت کی جانب سے یہ نوٹس 18 مئی کو پی ٹی آئی کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کے پیش نظر لیا گیا تھا جن کے مطابق حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد موجودہ مخلوط حکومت نے مبینہ طور پر مختلف کیسز پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا اور تفتیش کاروں یا تفتیشی افسران کے تبادلے کرنا شروع کر دیے جو کہ کرپشن کے الزامات سے متعلق ہیں۔
گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے متعلقہ حکام کو خصوصی جج اور احتساب عدالتوں میں زیر التوا اعلیٰ سرکاری افسران کے خلاف اعلیٰ درجے کے مقدمات کی تفتیش یا پراسیکیوشن میں ملوث افراد کے تبادلوں، تعیناتیوں یا انہیں ہٹانے سے روک دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا حکومتی شخصیات کے کیسز میں 'مداخلت کے تاثر' پر از خودنوٹس
سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، چیئرمین نیب، سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وضاحت کی جائے کہ کرمنل کیسز میں 'مداخلت' کیوں کی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے تفتیشی افسران اور تبدیل/تعینات ہونے والے افسران کے علاوہ تمام صوبوں کے پراسیکیوٹر جنرل اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر لیگل کو بھی نوٹسز جاری کیے تھے۔
آج سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ای سی ایل سے کابینہ ارکان کے نام نکالے جانے پر عدالت کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 22 اپریل 2022 کو ای سی ایل رولز میں تبدیلی کی گئی، کرپشن اور ایک کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کے مقدمات میں ملوث افراد کے نام ای سی ایل سے نکال دیے گئے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کردی
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے رولز تبدیلی کا اطلاق ماضی سے کیسے ہوسکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا رولز تبدیلی کے بارے میں کابینہ سے منظور شدہ نوٹی فکیشن میں یہ لکھا گیا اطلاق ماضی سے ہوگا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ رولز تبدیلی سے کس کس کو فائدہ ہوا؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مقدمات کا سامنا کرنے والے کابینہ میں شامل کسی وزیر کا رولز تبدیلی کی منظوری دینا مفادات کا ٹکراؤ ہے، تفصیلات فراہم کریں کہ کابینہ میں شامل کن اراکین کو فائدہ پہنچا، الزام کا سامنا کرنے والا کابینہ میں شامل وزیر خود کو الگ کر سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ہوا میں فیصلہ نہیں دے سکتے، تمام سیاسی جماعتوں کا احترام ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کا کہنا ہے 174 نکالے گئے ناموں سے قبل ہم سے مشاورت نہیں کی گئی، اٹارنی جنرل صاحب ای سی ایل رول 2010 کا سیکشن 2 پڑھیں، رولز کے مطابق کرپشن، دہشت گردی، ٹیکس نادہندہ اور قرض واپس نہ کرنے والے باہر نہیں جاسکتے، کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی؟ کیا وفاقی کابینہ نے رولز کی منظوری دی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ تبدیلیوں کی منظوری کے لیے کابینہ اجلاس کے منٹس پیش کریں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 120 دن بعد ازخود نام ای سی ایل سے نکل جائے گا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 120 دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے دن سے ہوگا۔
’کابینہ ارکان اپنے ذاتی فائدے کیلئے ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟‘
سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے، کابینہ ارکان اپنے ذاتی فائدے کے لیے ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہ جائے؟
سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب کرلی گئیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ معلوم ہے کہ وفاقی وزرا پر ابھی صرف الزامات ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اپنے فائدے کے لیے ملزم کیسے رولز میں ترمیم کر سکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ملزم وزرا کو تو خود ہی ایسے اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا سرکولیشن سمری کے ذریعے ایسی منظوری لی جاسکتی ہے؟ کابینہ کا کام ہے کہ ہر کیس کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے۔
یہ بھی پڑھیں: منحرف رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، تاحیات نااہلی کا فیصلہ پارلیمان کرے، سپریم کورٹ
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے مطابق ان سے پوچھے بغیر ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے، نیب کے مطابق 174 افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مقدمات کا سامنا کرنے والے کابینہ میں شامل کسی وزیر کا رولز تبدیلی کی منظوری دینا مفادات کا ٹکراؤ ہے، تفصیلات فراہم کریں کابینہ میں شامل اراکین کو فائدہ پہنچا، الزام کا سامنا کرنے والے کابینہ میں شامل وزیر خود کو الگ کر سکتا تھا۔
نیب وکیل عدالت میں پیش
ای سی ایل کے معاملے پر سماعت کے دوران نیب کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ 174 افراد ایسے ہیں جن کے نام نیب کی سفارش پر ڈالے گئے، یہ نام نکالتے وقت نیب سے پوچھا نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ای سی ایل میں نام شامل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ نیب وکیل نے جواب دیا کہ ہمارے ایس او پیز ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے ای سی ایل میں نام شامل کیے جاتے ہیں، تبادلوں کے لیے ڈی جی ایچ ار سفارش کرتا ہے اور چیئرمین اس پر احکامات جاری کرتا ہے۔
افسران کے تبادلوں سے متعلق رپورٹ جمع
سماعت کے دوران نیب نے اپنے افسران کے تبادلے کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے بعد ریویو کا طریقہ کار ہی ختم ہوگیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کابینہ اراکین کا نام ای سی ایل میں ہونا اور ای سی ایل رولز میں کابینہ کی ترمیم کیا مفادات کا ٹکراؤ نہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دیکھ لیتے ہیں کہ کیا وہ ارکان جن کے نام ای سی ایل میں تھے وہ ترمیم والے کمیٹی اجلاس میں موجود تھے یا نہیں؟ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ای سی ایل رولز میں ترمیم تجویز کی، اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ جس شخص کے وکیل تھے اسی کو فائدہ پہنچایا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم، صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہونگے، سپریم کورٹ
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا طریقہ کار اپنا کر ای سی ایل رولز میں ترمیم کی گئی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں، فی الحال حکومت کے ای سی ایل رولز سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، قانون پر عمل کے کچھ ضوابط ضروری ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے، لیکن ریاست کے خلاف کارروائیوں پر سپریم کورٹ کارروائی کرے گی۔
افسران کے تبادلے سے متعلق ایف آئی اے رپورٹ پر بحث
سماعت کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے کیس میں ایف آئی اے افسران کے تبادلے سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ پر بحث ہوئی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ بہت سے معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے کور کیا گیا، وزارت قانون نے 13 مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو معطل کیا، بظاہر ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا جن سماعتوں پر پیش نہ ہونے پر پراسکیوٹرز کو معطل کیا گیا وہ نئی حکومت کے قیام کے بعد کی تھیں؟
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت ختم ہوگئی ہے، پی ٹی آئی رہنما
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پراسیکیوٹرز کو یہ کہا کہ آپ پیش ہوں یا نہ ہوں آپ فارغ ہیں؟ پراسکیوٹرز کو تبدیل کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، تفتیشی افسر کو بھی بیماری کی وجہ سے تبدیل کیا گیا، تفتیشی افسر تبدیل ہونے کے مہینہ بعد بیمار ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے پراسیکیوشن ٹیم بظاہر مقدمے کی کارروائی رکوانے کے لیے تبدیل کی گئی، آرٹیکل 248 وزرا کو فوجداری کارروائی سے استثنیٰ نہیں دیتا، وفاقی وزرا کے خلاف فوجداری کارروائی چلتی رہنی چاہیے، فوجداری نظام سب کے لیے یکساں ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے ذاتی حیثیت میں ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لا آپریشنز ایف آئی اے عثمان گوندل کو بھی ریکارڈ سمیت آئندہ سماعت پر طلب کر لیا، بعد ازاں سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔
پس منظر
خیال رہے کہ 18 مئی کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی شخصیات کی جانب سے زیر التوا مقدمات کی تحقیقات میں مداخلت پر اثر انداز ہونے کے تاثر پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ‘موجودہ حکومت میں موجود افراد سے متعلق زیر التوا کرمنل معاملات کی پرaسیکیوشن اور تفتیش کے لیے پرaسیکیوشن برانچ کے اختیارات اور فرائض کی ادائیگی میں مداخلت کا خدشہ ہے’۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی بحران کے دوران سپریم کورٹ کی مداخلت کی مختصر تاریخ
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘خدشہ ہے کہ اس طرح کی مداخلت سے مقدمات کی تفتیش، عدالتوں میں شہادتوں میں ردوبدل یا غائب کرنے یا تفتیشی اداروں کے قبضے میں اور اہم عہدوں پر تبادلے اور تعیناتیوں میں اثر انداز ہو سکتے ہیں’۔
ازخود نوٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ‘احتساب کے قوانین میں تبدیلی کی اس طرح کی کارروائیوں، میڈیا رپورٹس کے ساتھ ملک میں نظام انصاف کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے’۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ‘یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے جو معاشرے پر بطور مجموعی اثر انداز ہو رہا ہے اور ملک میں عوام کا قانون اور آئین کی بالادستی پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے’۔
19 مئی کو عدالت عظمیٰ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کردی تھی اور قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روک دیا تھا۔