میڈیکل اسٹور پر ملنے والا وہ 'نشہ' جو اہل سوات کی زندگیاں نگل رہا ہے
'دن کے وقت کرفیو نافذ ہوتا تھا۔ سوات میں آپریشن (2008ء کے آخری مہینے میں) جاری تھا۔ نشہ تو دُور کی بات کھانے کو بھی کچھ نہیں مل رہا تھا۔ نقاہت کی وجہ سے نیم بے ہوشی کے عالم میں مجھے ایک میڈیکل پریکٹیشنر کے پاس لے جایا گیا، جس نے مجھے انجکشن لگایا۔ لمحوں کے حساب سے مجھے ایسا قرار آیا جیسا ہیروئن لینے کے بعد بھی نہ آتا تھا۔ نسوار سے شروع ہونے والا میرا نشہ، تمباکو نوشی اور چرس سے ہوتا ہوا ہیروئن پر آکر رک گیا تھا، مگر مذکورہ انجکشن کی بات ہی کچھ اور تھی۔ٰ
یہ کہنا ہے اکبر علی کا جو گل کدہ نمبر ایک، سیدو شریف سوات کا رہنے والا ہے۔
جب سوات میں پاک فوج کی طرف سے اہلِ سوات کو نقل مکانی کا کہا گیا، تو اکبر علی اپنے دیگر 4 دوستوں کے ساتھ پشاور منتقل ہوا۔ اکبر علی اور اس کے دوست ہیروئن کا نشہ کرتے تھے۔ وہاں اکبر علی نے دوستوں کو اپنے انجکشن والے تجربے کے بارے میں بتایا اور یوں سب اس مہلک نشے کے عادی ہوگئے۔
اکبر علی کہتے ہیں کہ 'ہم 5 دوست ہیروئن چھوڑ کر انجکشن لگوانے لگے۔ اول اول روزانہ ایک انجکشن لگواتے رہے۔پھر بتدرہج 3، 3 اور 4، 4 انجکشن لگوانے لگے۔ جب نوبت روزانہ 8 سے 10 انجکشنوں تک پہنچ گئی تو ایک دوست جان کی بازی ہار گیا، اسی ہفتے جب دوسرا دوست بھی اس مہلک نشے کی نذر ہوا تو ہم ڈر گئے اور واپس ہیروئن پینے لگ گئے۔ اسی اثنا میں امن بحال ہوا اور ہم واپس سوات آگئے'۔
رگوں میں اُترنے والا یہ نشہ کیا ہے؟
سوات کے ایک نجی ری ہیبلی ٹیشن سینٹر 'نوے جوند' (نئی زندگی) کے منیجنگ ڈائریکٹر ریاض احمد کے بقول اس وقت سوات میں سب سے سستا اور خطرناک ترین نشوں میں سے ایک یہ انجکشن کے ذریعے رگوں میں اتارنے والا نشہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ '2 مختلف قسم کی ادویات 'Nalbin' اور 'Gravinate' کو سرنج کے ذریعے مکس کرکے ایک محلول تیار کی جاتی ہے اور اسے نس/ رگ کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ لمحوں کے حساب سے اس کا خواب آور اثر محسوس ہوتا ہے'۔
مینگورہ شہر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبداللہ نے اس نشے کا بغور جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل 'Tramal' یا 'Nalbin' انجکشن لگوانے سے مریض کا جی متلاتا ہے اور اسے شدید قسم کی الٹیاں آتی ہیں، تو 'Gravinate' کو ضمنی اثرات یعنی 'Side Effects' کا راستہ روکنے کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اب اس کا محلول تیار کرکے اسے نشے کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے جس کی زیادہ خوراک جان لیوا ثابت ہوتی ہے'۔
سستے ترین نشوں میں سے ایک
اکبر علی جس وقت اس نشے کے عادی تھے اس وقت اس نشے کی قیمت 30 تا 40 روپے تھی جب کہ اب مارکیٹ میں ایک 'Nalbin' انجکشن کی قیمت 83 روپے، 'Gravinate' کی قیمت 10 روپے اور سرنج کی قیمت بھی 10 روپے ہے۔ کل ملا کر یہ رقم 103 روپے بنتی ہے۔ مگر اکبر علی کہتے ہیں کہ 'جس وقت ہم اس کے عادی تھے، تو کئی بار مختلف میڈیکل اسٹور والوں نے ہم سے 30 کے بجائے 60 روپے بھی لیے۔ ہم مجبور تھے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری مجبوری کا ایک طرح سے غلط فائدہ اٹھایا جا رہا تھا'۔
مینگورہ شہر کے ایک میڈیکل پریکٹیشنر فواد علی کہتے ہیں کہ بظاہر حکومت کی طرف سے 'Nalbin' بغیر کسی ڈاکٹری نسخے کے کسی بھی شہری کو دینے پر پابندی ہے مگر 'بلیک' میں یہ انجکشن مینگورہ شہر یا سیدو شریف میں واقع بیشتر میڈیکل اسٹورز سے باآسانی مل سکتا ہے۔ 'اتنی زیادہ رقم بھی نہیں دینی پڑتی، محض 20 یا 30 روپے زیادہ ادا کریں تو یہ نسخہ کوئی بھی آپ کو تھما دے گا'۔
اس نشے کی لت کیسے پڑتی ہے؟
مینگورہ شہر میں ایک ری ہیبلی ٹیشن سینٹر میں نشے کے عادی افراد پر کام کرنے والی سائیکالوجسٹ حرا حسین کہتی ہیں کہ اس لت میں پڑنے والے بیشتر لوگ معصوم ہوتے ہیں۔ عادی ہونے تک انہیں پتا بھی نہیں چلتا کہ ان کے ساتھ کیا ظلم روا رکھا جا رہا ہے۔ حرا حسین کہتی ہیں کہ 'بیشتر طبی مسائل ہی دراصل اس نشے کی وجہ بنتے ہیں۔ جیسے کسی مریض کے سر میں درد ہوتا ہے، گردے میں درد ہوتا ہے، یا اس کے گردے یا پتے میں پتھری ہوتی ہے، تو اُسے وقتی آرام دینے کی خاطر مذکورہ نسخہ تجویز کیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب مریض اپنے مرض کی تشخیص نہیں کرپاتا اور وقتی آرام کی خاطر انجکشن پر انجکشن لیے جاتا ہے، تو یوں ایک طرح سے اس کی لت پڑجاتی ہے'۔
اس نشے کے عادی افراد کی نشانیاں کیا کیا ہیں؟
یوں تو اس قسم کے مریضوں کو پہچاننے کے کئی طریقے ہیں مگر سائیکالوجسٹ حرا حسین کہتی ہیں کہ مذکورہ نشے کے عادی کو پہچاننے کے لیے سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ مریض کے وجود میں رگیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔ اس کے علاوہ حرا حسین کہتی ہیں کہ 'آپ انجکٹ ایبل مریض کو یوں پہچان سکتے ہیں کہ اس کے بازوؤں میں انجکشن سپاٹس واضح اور زیادہ ہوں گے۔ نفسیاتی طور پر یہ مریض ’موڈ ڈس آرڈر‘ کا شکار رہتے ہیں، یعنی کبھی مریض حد سے زیادہ خوش گوار رہتا ہے اور کبھی اس پر بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے'۔
اس کے ساتھ اور کیا بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں؟
یوں تو اکبر علی بظاہر بالکل صحت مند دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ اب وہ ’نوے جوند ری ہیبیلی ٹیشن سینٹر‘ میں باعزت روزگار کے ساتھ زندگی کے شب و روز گزار رہا ہے، مگر بدقسمتی سے وہ ایڈز کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوچکا ہے۔ ریاض احمد کہتے ہیں کہ اکبر علی کا علاج پشاور سے جاری ہے اور وہ ہر ماہ باقاعدگی سے ڈاکٹر سے چیک اَپ بھی کروا رہے ہیں۔
حرا حسین انجکٹ ایبل مریضوں کے بارے میں کہتی ہیں کہ ایسے مریض خونی بیماریوں میں بہت جلد مبتلا ہوجایا کرتے ہیں۔ 'انجیکٹ ایبل مریضوں کو مختلف بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں 'Hepatitis C virus (HCV)' بہت عام ہے۔ اس طرح 'Hepatitis B Virus (HBV)' اور 'Human Immunodeficiency Virus (HIV)' بیماریاں بھی عام ہیں۔'
اس نشے کے عادی افراد کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
عام طور پر سرکاری یا نجی اسپتالوں میں مریضوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ زیادہ سخت مریضوں کو باندھ کر بھی رکھا جاتا ہے، کیونکہ وہ بروقت نشہ نہ ملنے کی وجہ سے خود کو کسی بھی دھاری دار آلے، بلیڈ یا چاقو وغیرہ سے نقصان پہنچا سکتے ہیں، چھت سے چھلانگ لگا سکتے ہیں اور خود کو آگ تک بھی لگانے سے نہیں کتراتے۔ علاج کے حوالے سے حرا حسین کہتی ہیں کہ 'ہم ایسے مریضوں کو کاگنیٹو بیہیویرل تھراپی (Cognitive Behavioral Therapy) کے عمل سے گزارتے ہیں۔ اس کی بدولت ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ان کے خیالات تبدیل کردیے جائیں۔ ان مریضوں کو مذکورہ انجکشن کے نقصانات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان تمام بیماریوں کا تفصیل سے بتاتے ہیں جو اس عمل کے ساتھ نتھی ہوتے ہیں'۔
اس نشے کا راستہ کیسے روکا جائے؟
حکومت کی طرف سے بازار میں اس پر بغیر ڈاکٹری نسخے کے دینے پر پابندی ہے مگر اکبر علی اور فواد علی دونوں اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ محض 20 یا 30 روپے زیادہ ادا کرنے کے عوض یہ نشہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ریاض احمد کا ماننا ہے کہ قانون پر سختی سے عمل درآمد ہی اس نشے سے نجات دلا سکتا ہے۔
'اگر حکومت اور ضلعی انتظامیہ چاہتی ہے کہ ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر نوجوان نسل کو اس لت سے بچایا جائے، تو انہیں سخت اقدامات لینے ہوں گے۔ جو میڈیکل اسٹور مالکان یا میڈیکل پرٹیکشنر صاحبان تھوڑے سے مالی فائدے کے لیے نوجوان نسل کو اس لت میں مبتلا کرتے ہیں، اور ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیلتے ہیں، ان کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹنا چاہیے۔ دوسری بات، نوجوان نسل میں اس نشہ کے نقصانات کے بارے میں آگاہی مہمات چلانی چاہئیں۔ اس کے علاوہ اس نشے کا راستہ روکنا ممکن نہیں۔'
تبصرے (3) بند ہیں