عمر سرفراز چیمہ کی برطرفی کےخلاف درخواست پر اٹارنی جنرل معاونت کیلئے طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر پنجاب برطرفی کے خلاف درخواست پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کو معاونت کے لیے طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل لارجر بینچ نے عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر پنجاب برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
بابر اعوان ایڈووکیٹ نے مؤقف اپنایا کہ صدر پاکستان نے مارچ 2022 میں عمر سرفراز چیمہ کو گورنر پنجاب منتخب کیا تھا، وزیر اعظم نے یکم مئی کو گورنر پنجاب کو ہٹانے اور آفس سیز کرنے کا حکم دیا، ہر صوبے میں گورنر ہوتا ہے جس کی تعیناتی وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر کرتا ہے، گورنر صدر پاکستان کو جوابدہ ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تقرری میں کوئی مدت کا کچھ کہا گیا؟ بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ گورنر کے تقرر کے لیے مدت کا کوئی ذکر نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمر سرفراز چیمہ اب بھی گورنر پنجاب ہیں، نئے تقرر کا جواز نہیں، صدر علوی
عدالت نے استفسار کیا کیا گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوگا یا صدر کا نمائندہ ہوگا؟ جس پر وکیل نے بتایاکہ گورنر صدر کا نمائندہ ہوتا ہے جو ریاست کو چلاتا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر صوبوں کو چلاتا ہے؟ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو خود مختاری دی گئی ہے۔
بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ گورنر وفاق کا نمائندہ نہیں اور نہ ہی وفاق اسے ہٹا سکتا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ صدر اگر چاہیں تو وفاق کی مرضی کے بغیر بھی کسی کو عہدے پر برقرار رکھ سکتا ہے؟
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: سابق گورنر پنجاب کی برطرفی کےخلاف درخواست اعتراض کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر
بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ گورنر اور اٹارنی جنرل آفس صدر کے ماتحت ہیں، گورنر کو ہٹانے کے 2 طریقے ہیں، پہلا طریقہ استعفیٰ ہے، گورنر اپنا استعفیٰ کابینہ نہیں، صدر کو بھجوا سکتا ہے، اگر صدر سمجھے کہ ہنگامی صورتحال ہے تو کسی ایڈوائس کے بغیر ایمرجنسی لگا سکتا ہے، گورنر کے تمام اخراجات کی منظوری بھی صدر دیتا ہے، وزرائے اعلیٰ اور ان کے دفاتر کی تنخواہیں اور الاؤنسز کی منظوری وفاق دیتا ہے، گورنر کا استعفیٰ کابینہ منظور نہیں کر سکتی، پریذیڈنسی کے لیے کوئی رولز آف بزنس نہیں ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آئین میں ترمیم کا متعلقہ فورم کون سا ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ آئین میں ترمیم کا کام ہی متعلقہ فورم ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ گورنر مجلس شوریٰ کا رکن نہیں ہوتا، کس کی نمائندگی کرتا ہے؟ یہ تو بڑا عجیب ہوگا کہ گورنر کی تعیناتی کے لیے وزیر اعظم صدر کو ایڈوائس دے مگر اسے ہٹانے کا اختیار نہ ہو؟
بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ کیا صدر کا آفس صرف ڈاکخانہ ہے؟ گورنر صدر کا نمائندہ ہوتا ہے جو ہر صوبے میں ایک ایک ہوتا ہے، کل کو اگر کسی ایگزیکٹو کو خیال ہو کہ آرمی چیف فلاں بندہ ہو تو ایسا ہو سکتا ہے، گورنر کو ہٹانے کا صوابدیدی اختیار صدر کے پاس ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق گورنر پنجاب کا اپنی برطرفی کے خلاف 2007 جیسی تحریک کا انتباہ
عدالت نے کہا کہ یہ تو بڑا عجیب ہوجائے گا کہ صدر، وزیر اعظم کے ایڈوائس پر گورنر لگائے، عدالت نے استفسار کیا کہ گورنر لگا کر اگلے دن صدر کو پسند نہ آئے تو گورنر کو ہٹائے گا؟ 58 ٹو بی کے ساتھ صدر کے پاس بہت سارے اختیارات ختم ہوگئے، ہم برطانوی ریاست کو نہیں فالو کر رہے، ہم کوئی عام پاکستانی نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آئینی معاملہ ہے، اس پر اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، عدالت نے عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر برطرفی پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر عہدے سے برطرفی کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے لارجر بینچ تشکیل دیتے ہوئے درخواست رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔
اس سے قبل سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں اپنی برطرفی کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
عمر چیمہ کی برطرفی کا پس منظر
وزیر اعظم شہباز شریف نے 17 اپریل کو عمر چیمہ کی برطرفی کی سمری صدر کو بھجوائی تھی جبکہ عمر چیمہ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعظم کے پاس انہیں برطرف کرنے کا اختیار نہیں اور صرف صدر ہی ایسا کر سکتے ہیں۔
اس سمری میں وزیراعظم شہباز شریف نے گورنر پنجاب کے لیے پیپلز پارٹی کے مخدوم احمد محمود کا نام تجویز کیا تھا، تاہم جب صدر نے اس سمری کو بغیر کسی فیصلے کے 15 دن تک روکے رکھنے کے بعد واپس کر دیا تو وزیراعظم نے یکم مئی کو عمر چیمہ کی برطرفی اور ان کی جگہ بہاولپور سے مسلم لیگ (ن) کے وفادار بلیغ الرحمان کے تقرر کا مطالبہ کرتے ہوئے اس مشورے کی دوبارہ توثیق کی تھی۔
تاہم صدر نے دوسری سمری کو بھی مسترد کر دیا تھا اور وزیر اعظم کو آگاہ کیا تھا کہ گورنر کو ان کی منظوری کے بغیر نہیں ہٹایا جا سکتا اور وہ آئین کے آرٹیکل 101 کی شق 3 کے مطابق صدر کی خوشنودی کے مطابق اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔
انہوں نے لکھا کہ موجودہ گورنر کو ہٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ ان پر نہ تو بدانتظامی کا کوئی الزام ہے اور نہ ہی کسی عدالت کی جانب سے سزا یا ان کی جانب سے آئین پاکستان کے خلاف کسی بھی فعل کا کوئی الزام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر پنجاب کی برطرفی، عمران خان کا سپریم کورٹ سے آئین کی ’خلاف ورزی‘ پر نوٹس لینے کا مطالبہ
ڈان کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ آئین آرٹیکل 48 (2) کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 101 (3) کے لحاظ سے واضح ہے کہ صدر کسی بھی معاملے کے حوالے سے اپنی صوابدید کے مطابق کام کرے گا جس کے لیے وہ آئین کے مطابق بااختیار ہے۔
عمر چیمہ نے آرٹیکل 101 (3) اور 48 (2) پر بھی انحصار کیا جن کا انہوں نے متعدد ٹویٹس میں بھی یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا کہ وزیراعظم کے مشورے کا خود کار طریقے سے عمل درآمد اس مدت کے بعد ہوتا ہے جس دوران صدر کو اس پر عمل کرنا ہوتا ہے لیکن گورنر کو ہٹانے کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔
آئین کے مطابق صدر، وزیراعظم کی جانب سے بھیجی گئی سمری کو 14 دن تک بغیر کسی فیصلے کے روک سکتے ہیں، مدت ختم ہونے پر وزیر اعظم اس سلسلے میں اپنے مشورے کی دوبارہ توثیق کر سکتے ہیں اور صدر اپنا فیصلہ مزید 10 دن تک روک سکتے ہیں، اس مدت کے بعد گورنر کو ہٹا دیا جائے گا اور وزیر اعظم کو نیا گورنر مقرر کرنے کا اختیار ہے۔
معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار تھا تاہم اس دوران عمر چیمہ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، رات گئے کابینہ ڈویژن کے ایک نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ عمر چیمہ نے 17 اپریل کو صدر کو بھیجے گئے وزیر اعظم کے مشورے پر عہدہ چھوڑ دیا ہے جس کی یکم مئی کو توثیق کی گئی۔
مزید پڑھیں: صدر عارف علوی نے گورنر پنجاب کی برطرفی کیلئے وزیراعظم کی ایڈوائس یکسر مسترد کردی
تاہم عمر چیمہ نے نوٹی فکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اسے پنجاب میں آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ پر زور دیا تھا کہ وہ اس کا نوٹس لے۔
نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر آئین کے آرٹیکل 104 کے مطابق موجودہ گورنر کی تقرری تک گورنر کے فرائض سرانجام دیں گے۔
اس پیش رفت سے نہ صرف گورنر ہاؤس بلکہ پنجاب اسمبلی میں بھی صورتحال بدل سکتی تھی کیونکہ اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کو قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے اپنا عہدہ خالی کرنا پڑتا اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی جانب مائل ہیں۔
تاہم بعد میں ہونے والی پیش رفت میں پرویز الٰہی نے قائم مقام گورنر بننے سے انکار کر دیا، پرویز الہٰی کے ترجمان ڈاکٹر زین علی نے اس وقت بتایا تھا کہ گورنر ہاؤس کا عملہ سمری پر ان کے دستخط لینے پنجاب اسمبلی پہنچا تھا لیکن انہیں واپس بھیج دیا گیا، ترجمان نے بتایا تھا کہ جس طرح گورنر ہاؤس کے باہر پولیس کو تعینات کیا گیا ہے ان حالات میں کون وہاں جانا چاہے گا۔