• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد تکنیکی بنیادوں پر ختم، اجلاس 6 جون تک ملتوی

شائع May 22, 2022 اپ ڈیٹ May 23, 2022
اسمبلی کے باہر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کا مسلح دستہ موجود ہے — فوٹو: ڈان نیوز
اسمبلی کے باہر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کا مسلح دستہ موجود ہے — فوٹو: ڈان نیوز

اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہ ہوسکی جس کے باعث اسے تکنیکی بنیادوں پر ختم کردیا گیا اور صوبائی اسمبلی کا اجلاس 6 جون تک ملتوی ہوگیا۔

جس کے بعد صوبے کی حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اسپیکر کے خلاف دوبارہ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے پر مجبور ہوگئی۔

اسپیکرپنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کی صدارت میں اجلاس مقررہ وقت سے دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا تو (ن) لیگ کا کوئی رکن اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہ کر سکا، جس کے باعث تحریک کو تکنیکی بنیادوں پر ختم کرتے ہوئے اجلاس 6 جون تک ملتوی کردیا گیا۔

اجلاس ملتوی ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ اجلاس ’غیر قانونی‘ طور پر ملتوی کیا گیا ہے اور ہم اسپیکر کے خلاف دوبارہ آج ہی تحریک پیش کرنے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تحریک تیار ہے اور قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ ایک بار تحریک مسترد ہو جائے تو دوبارہ پیش نہیں ہو سکتی۔

اجلاس سے قبل صوبائی اسمبلی کے باہر سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے، تاہم اراکین صوبائی اسمبلی کو بھی ایوان میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطااللہ تارڑ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ پرویز الہٰی کے احکامات پر اسمبلی کے دروازے بند کیے گئے ہیں، کسی صحافی یا رکن صوبائی اسمبلی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، یہ کوئی گجرات کا ضلعی کونسل نہیں ہے، یہ 12 کروڑ افراد کا مرکز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایوان کا تقدس پامال کرنے کے ’عادی‘ ہوگئے ہیں، آپ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے اور آئین کے تحت عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد 7 روز کے دوران اجلاس بلانا لازم ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنما سید حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ صرف پی ٹی آئی کے اراکین کو اسمبلی میں داخل ہونے کی اجازت دی جارہی ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایسا طریقہ کار استعمال کیا جارہا ہے کہ کوئی ’حادثہ‘ رونما ہوسکے اور قانون سازوں کو نااہل قرار دیا جائے۔

باپ، بیٹے کے کہنے پر اسمبلی میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی، پرویز الہٰی

—  فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ اس وقت کسی کی حکومت نہیں ہے، اسمبلی باپ بیٹے کے کہنے پر بند کی گئی ہے۔

اپنے مخالفین کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کیفر کردار تک پہنچنے کے بہت قریب ہیں، ہمارے لوگوں نے ان کو ایک دھکا دینا ہے اور یہ اقتدار سے باہر ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس بھی ہوتے رہیں گے اور قانون سازی بھی ہوتی رہے گی۔

پرویز الہٰی کا مزید کہنا تھا کہ آج نئے ارکان آرہے ہیں ان کا حلف بھی ہوگا اور نوٹی فکیشن بھی ہوگا، پولیس ہو یا کوئی بھی جو اس آئینی اقدام کو روکے گا اس پر آرٹیکل 6 لگے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سارے لوگ آئیں گے اور کارروائی میں حصہ لیں گے۔

قبل ازیں صوبائی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں اجلاس کا ایجنڈا بتایا گیا تھا، جس کے مطابق آج ہونے والے اجلاس میں اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جانی تھی۔

پارلیمانی امور کے ڈائریکٹر جنرل گرفتار

چوہدری پرویز الہٰی نے پولیس کی کارروائی کی مذمت ہے— فائل فوٹو: عمر فاروق
چوہدری پرویز الہٰی نے پولیس کی کارروائی کی مذمت ہے— فائل فوٹو: عمر فاروق

دن کے آغاز پر پنجاب اسمبلی کا غیر متوقع اجلاس شروع ہونے سے قبل پولیس نے صوبائی اسمبلی کے پارلیمانی امور کے عہدیدار کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

ترجمان پنجاب اسمبلی نے ڈائریکٹر جنرل پارلیمانی امور رائے ممتاز کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس اہلکار دیواریں پھلانگ کر رائے ممتاز کے گھر میں داخل ہوئے۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کوآرڈینیشن محمد خان بھٹی عنایت اللہ لَک کے گھر پر بھی چھاپہ مارا مگر انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔

دریں اثنا اسپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب وزیر اعظم شہباز شریف کے حکم پر کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کا غیرمتوقع اجلاس آج طلب

پرویز الہٰی کی جانب سے حکومت کے مبینہ اقدام کو ’فاشسٹ‘ قرار دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایوان کا تقدس پامال کرنے کے بعد حکومت نئے طریقوں کا استعمال کر رہی ہے‘۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے عہدیداران کے خلاف کارروائی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکومت ’خوفزدہ‘ ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ غیر آئینی اور جعلی حکومت آئین و قانون کے خلاف اقدامات اٹھا رہی ہے، شریفوں کا ’حقیقی چہرہ‘ عوام کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔

پنجاب اسمبلی کے عہدیدار کی گرفتاری پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کارروائی کو آئین کی پامالی قرار دیاتھا۔

قبل ازیں رکن صوبائی اسمبلی اشرف رسول نے سیکریٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی سیکریٹری کوآرڈینیشن عنایت اللہ اور ڈی جی پارلیمانی امور رائے ممتاز کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا تھا۔

مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ گزشتہ روز صبح 10 بجے گھر پر موجود تھا کہ 5 افراد نامعلوم ایک گاڑی پر میرے گھر آئے، باہر آکر دیکھا تو عنایت اللہ اور رائے ممتاز اسلحہ کے ساتھ میرے گھر کے باہر موجود تھے۔

شکایت کنندہ نے مزید کہا تھا کہ محمد خان عنایت اللہ اور رائے ممتاز نے مجھ پر بندوق تان دی اور محمد خان بھٹی نے کہا کہ آپ میرا پیچھا چھوڑ دیں،اگر میری مخالفت سے باز نہ آئے تو جان سے مار دوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دیگر چاروں ساتھیوں نے بھی مجھے سنگین نتائج کی دھمکی دی اور واپس چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ محمد خان بھٹی نے پنجاب اسمبلی میں ضلع منڈی بہائو الدین اور دیگر علاقوں سے من پسند لوگوں کی بھرتیاں کیں جس پر پنجاب اسمبلی میں آواز بلند کررکھی ہے۔

ایم پی اے اشرف رسول نے سیکریٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی سیکریٹری کوآرڈینیشن عنایت اللہ اور ڈی جی پارلیمانی امور رائے ممتاز کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔

مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ گذشتہ روز صبح دس بجے گھر پر موجود تھا کہ 5 افراد نامعلوم ایک گاڑی پر میرے گھر آئے، باہر آکر دیکھا تو عنایت اللہ اور رائے ممتاز اسلحہ کے ساتھ میرے گھر کے باہر موجود تھے۔

شکایت کنندہ نے مزید کہا تھا کہ محمد خان عنایت اللہ اور رائے ممتاز نے مجھ پر بندوق تان دی محمد خان نے کہاکہ آپ میرا پیچھا چھوڑ دیں،اگر میری مخالفت سے باز نہ آئے تو جان سے مار دوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دیگر چاروں ساتھیوں نے بھی مجھے سنگین نتائج کی دھمکی دی اور واپس چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ محمد خان بھٹی نے پنجاب اسمبلی میں ضلع منڈی بہائو الدین اور دیگر علاقوں سے من پسند لوگوں کی بھرتیاں کیں جس پر پنجاب اسمبلی میں آواز بلند کررکھی ہے۔

انہوں نے ٹوئٹر پر جاری کردہ پیغام میں کہا کہ ’پنجاب اسمبلی کا اجلاس پولیس کی یلغار سے روکنا آئین کی پامالی ہے‘۔

انہوں نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عدلیہ سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے بھی اقدام پر تنقید کی، انہوں نے کہا کہ ’آج پھر سسیلین مافیا پنجاب اسمبلی میں غنڈہ گردی اور آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے‘۔

انہوں نے ٹوئٹر پیغام میں موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں جاری آئینی و قانونی بحران کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کے بیٹے ہیں۔

عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ دونوں باپ بیٹا خانہ جنگی کروا کر سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں، جمہوریت کو نقصان ہوا تو پی ڈی ایم ذمہ دار ہوگی۔

شیڈول سے قبل اجلاس

گزشتہ روز پرویز الہٰی نے صوبائی اسمبلی کا اجلاس 30 مئی کے بجائے آج (اتوار) کو بلانے کا اعلان کیا تھا، یہ اعلان اپنی پارٹی کی ہدایت کے خلاف حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے 25 منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا تھا۔

ہفتے کی شام تک کوئی باضابطہ ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا تھا، تاہم اسپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے فوری کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ نمبرز گیم اب ان کے بطور وزیر اعلیٰ انتخاب کے لیے موزوں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی، نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کل ہوگا

25 منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے بعد صوبائی اسمبلی کے اراکین موجودہ تعداد 346 ہے، جس میں 165 مسلم لیگ (ن) کے اراکین ہیں، جن میں 5 اراکین کا تعلق شرقپوری گروپ سے جنہوں نے حال میں مسلم لیگ (ن) کے اپنی حمایت ختم کی ہے۔

علاوہ ازیں حمایت ختم کرنے کے اعلان کے بعد مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنے اراکین کی تعداد 160 ہے، صوبائی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 7 اراکین موجود ہیں جبکہ آزاد اراکین کی تعداد 4 ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے مسلم لیگ (ن) کے پاس ووٹوں کی تعداد 172 ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ق) چوہدری پرویز الہٰی اور ان کے اتحادی پی ٹی آئی کی مجموعی تعداد 168 ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کا ماننا ہے کہ وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ 2 مخصوص نشستیں ان کے حصے میں آئیں گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024