خزاں تو چلی گئی، مگر بہار اب بھی نہ آئی!
’خزاں جائے بہار آئے نہ آئے‘، مولانا صاحب کا یہ جملا موجودہ حالات دیکھ کر لمحہ بہ لمحہ یاد آتا ہے۔ مولانا کے نزدیک اگر خزاں عمران تھے تو حقیقت یہ ہے کہ وہ جاتے جاتے اقتدار کی بہار بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں، اور حکومتی اتحادیوں پر پت جھڑ کا موسم ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
جب ساری توجہ عدم اعتماد پر ہوگی، اور ’جب وقت آئے گا تب دیکھا جائے گا‘ کی بنیاد پر حکمتِ عملی کو بنایا جائے تو حالات یہی کروٹ لیں گے جو آج لے رہے ہیں۔
ملک کے معاشی حالات اس وقت بھی اتنے ہی بُرے تھے جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، پیٹرول پر سبسڈی اس وقت بھی جاری تھی جب مریم اور حمزہ مہنگائی مکاؤ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچے اور شہباز شریف نے مہنگائی مارچ کے دھرنے سے پُرجوش خطاب کیا تھا۔
آج نئی حکومت کو آئے 5 ہفتے سے زائد ہوچکے ہیں، لیکن فیصلوں میں کنفیوژن ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ لندن، سعودی عرب اور واشنگٹن کے ہنگامی دورے بھی ہوئے، اتحادیوں سے طویل مشاورتیں بھی ہوئیں، مگر فیصلوں کی پٹاری ہے کہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
پہلے حکومت 2 محاذوں کے درمیان پھنسی ہوئی تھی، ایک محاذ سڑکوں پر عمران خان کی یلغار کی صورت میں تھا اور دوسرا آئی ایم ایف کی 2 دھاری تلوار کی صورت میں، مگر اب ایک تیسرے محاذ نے بھی منہ کھول کر حکومت کے قریب ہونا شروع کردیا ہے۔
اعلی عدلیہ کی طرف سے آرٹیکل 63-اے کی تشریح کے فیصلے نے وفاق اور خاص طور پر پنجاب میں نوزائیدہ حکومت کے لیے بڑی اور فوری مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ شہباز شریف صاحب جو پہلے وفاق میں بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دوڑ دھوپ کر رہے تھے اب ان کو پنجاب میں اپنے برخودار کی کرسی بچانے کی ذمہ داری اٹھانے پڑے گی۔
مزید پڑھیے: ایک بار پھر طبل جنگ بج گیا، اب کیا ہوگا؟
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ حکومتوں کی تبدیلی کے سارے عمل میں تحریک انصاف نے وفاق اور پنجاب میں کئی ایسے اقدامات اٹھائے جو غیر آئینی اور غیر قانونی بھی تھے اور ان غیر آئینی اقدامات کو ہماری عدالتیں غیر موثر کرتی رہیں جس کا براہِ راست فائدہ نئی حکومتوں کو ہوتا رہا، مگر اب منحرف اراکین کے حوالے سے عدالتی فیصلہ مسلم لیگ (ن) کے لیے دردِ سر بن گیا ہے۔
کیا پنجاب میں نمبر گیم پورا کرنے کے لیے ساری تگ و دو کو دوبارہ سے شروع کرنا پڑے گا یہ ایک بڑا سوال ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق وزیرِ اعلی کے چناؤ میں اگر کوئی فریق 186 کی سادہ اکثریت نہیں سکے تو اس انتخاب کا راؤنڈ 2 ہوگا جس میں عددی لحاظ سے برتری لینے والا امیدوار وزیرِ اعلی منتخب ہوجائے گا۔
25 منحرف اراکین کے نکل جانے کے بعد یہ بات تو طے ہے کہ 186 کا ہندسہ وزیرِ اعلی کا کوئی بھی امیدوار حاصل نہیں کرسکے گا، اب اگر راؤنڈ 2 کا فامولا ذہن میں رکھا جائے تو تحریک انصاف اور (ن) لیگ کا مقابلہ بڑا دلچسپ ہونے جارہا ہے کیونکہ دونوں جماعتیں نمبر گیم میں تقریباً قریب قریب ہی ہیں۔
وزیرِ اعلی کے انتخاب کے دوران، گنتی کے دن اگر کوئی بھی فریق دوسرے فریق کے 2، 3 ممبران کو انتخابی مرحلے سے دُور رکھنے میں کامیاب ہوگیا تو اس مہم میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔
پچھلے انتخاب میں جماعتوں کی ساری توجہ حریف جماعت کے اراکین توڑ کر اپنی صفوں میں لانا تھی، جس کے لیے سندھ ہاؤس اور لاہور کے نجی ہوٹلز کو ان اراکین کے لیے بطور سیف ہاؤسز بھی استعمال کیا گیا، مگر اب کی بار اگر وزیرِ اعلی کا انتخاب ہوتا ہے تو عین ممکن ہے کہ مخالف پارٹی کے رکن کو گنتی کے دن لاپتہ کروانے کے فارمولوں پر زیادہ غور کیا جائے۔
پنجاب میں وزیرِ اعلی کا انتخاب کب ہوگا، کون کروائے گا، الیکشن کمیشن منحرف اراکین کے بارے کیا فیصلہ کرے گا، حمزہ شہباز فوری طور پر اپنی کرسی چھوڑنے کے لیے تیار ہوں گے یا نہیں، ان سارے سوالات کے جوابات کے لیے ابھی مزید وضاحت کی ضرورت ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ معاملہ دوبارہ عدالتوں میں جائے اور وہاں سے ہی کوئی وضاحت آئے۔
دوسری جانب عدالتی فیصلے کے بعد وفاق میں تو کھیل حکومت کے ہاتھ میں ہے کیونکہ یہاں منحرف اراکین کا ووٹ حاصل کیے بغیر اتحادیوں کے ووٹ سے ہی مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے گئے تھے، مگر یہاں اس وقت اور بڑے مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔
خبر تو یہ ہے کہ اتحادیوں نے حکومتی مدت پوری کرنے پر اتفاق کیا ہے اور معاشی طور پر سخت فیصلوں میں بھی ساتھ کھڑے ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس یقین دہانی کے باوجود بھی میرے خیال میں مسلم لیگ (ن) کی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔
پہلی مشکل تو یہ ہے کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ جو اتحادی آج مشکل معاشی فیصلوں میں ساتھ دینے کا کہہ رہے ہیں کل ان میں سے کوئی ایک بھی اعتراض لگا کر یا کوئی بہانہ بنا کر حکومت سے الگ نہیں ہوگا۔ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ اگر آج ان کے فیصلوں میں کسی فون کال کا عمل دخل نہیں تو کل بھی نہیں ہوگا، لہٰذا اگر آج ان اتحادیوں کے ساتھ اتفاق رائے سے اس امید پر مشکل معاشی فیصلے کر بھی لیے جاتے ہیں کہ انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے تو اس میں بہت بڑا رسک فیکٹر شامل ہے۔
مزید پڑھیے: اگر آج ایوانِ صدر کو 58 (2) بی کا اختیار حاصل ہوتا تو صورتحال کیا ہوتی؟
اگر کوئی اتحادی چھوڑ گیا اور وقت سے پہلے شہباز شریف نے پارلیمان میں اکثریت کھو دی تو مسلم لیگ (ن) کو اس کی بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے۔
اور دوسری جانب اگر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری کرلیتی ہے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ عام انتخابات کے قریب معاشی حالات اتنے مستحکم ہوجائیں گے کہ اس کا براہِ راست فائدہ (ن) لیگ کو ہوگا۔
ان خطرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ اگر حالات شہباز شریف اینڈ کمپنی کے حق میں نہیں جاتے تو تمام اتحادیوں میں مسلم لیگ (ن) وہ جماعت ہوگی جس کو سیاسی نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور مولانا فضل الرحمٰن کے پاس مزید کھونے کو کچھ نہیں، زیادہ سے زیادہ اسی پوزیشن پر رہیں گے جہاں آج ہیں۔
لیکن، اگر ان مشکل معاشی فیصلوں کے بعد حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے حالات بہتر ہوجاتے ہیں تو اس صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ بھی (ن) لیگ کو ہی ہوگا۔
آج کے دن تک تو صورتحال یہی ہے کہ خزاں بھی چلی گئی ہے اور بہار بھی نہیں آئی۔
تبصرے (4) بند ہیں