• KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm
  • KHI: Maghrib 5:50pm Isha 7:12pm
  • LHR: Maghrib 5:06pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:06pm Isha 6:35pm

وزیراعظم نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ارکان کی تعداد 12 سے 5 کردی

شائع May 18, 2022

وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے ارکان کی تعداد 12 سے کم کرکے 5 کردی۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی سربراہی میں کابینہ کی اہم کمیٹی جو عام طور پر اقتصادی معاملات پر روزانہ فیصلے کرنے کے لیے ہفتہ وار اجلاس کرتی ہے، اب اس کمیٹی میں آزاد اراکین کے سوا 8 جماعتوں پر مشتمل اتحاد میں سے صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے دو، دو ارکان کی نمائندگی ہے۔

کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم نے رولز آف بزنس 1973 کے رول 17(2) کے تحت ای سی سی تشکیل دی۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کی عمران خان کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت

وزیر خزانہ کے علاوہ کمیٹی کے دیگر ارکان میں پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیر تجارت سید نوید قمر اور وزیر صنعت مخدوم مرتضیٰ محمود اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے وزیر ریاض پیرزادہ اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال شامل تھے۔

پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے دوران ای سی سی کے 14 ارکان تھے جن کی قیادت اس وقت کے وزرائے خزانہ اسد عمر اور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کر رہے تھے لیکن پھر شوکت ترین کی قیادت میں اس کی تعداد کم کر کے 12 کر دی گئی، گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران ای سی سی اقتصادی اور سیاسی نمائندگی کا مجموعہ تھا۔

ایک سینئر سرکاری اہلکار نے بتایا کہ یہ شاید 1973 کے آئین کے بعد سے اب تک کی سب سے موزوں ای سی سی تھی، انہوں نے کہا کہ کابینہ ڈویژن کے سینئر حکام نے نئی حکومت کو پچھلے سیٹ اپ کے تجربے کے پیش نظر مختصر ای سی سی تشکیل دینے کا مشورہ دیا تھا۔

ایک اہلکار نے وضاحت کی کہ ’اجتماعی حکمت کے لیے وفاقی کابینہ کو سفارشات دینے کے لیے ای سی سی میں پیشہ ور افراد سے پیشہ ورانہ معلومات حاصل کرنا بہتر ہے۔

نئی ای سی سی میں حکومت کے 18 دیگر اہم عہدیدار خصوصی دعوت پر بھی شریک ہوں گے، جن میں اقتصادی وزارتوں کے 14 وفاقی سیکرٹریز کے علاوہ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین، مرکزی بینک کے گورنر اور بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ سیکیورٹیز کے چیئرمین اور ایکسچینج کمیشن آف پاکستان شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم شہباز شریف نے چینی کی برآمد پر مکمل پابندی لگادی

شوکت ترین کی زیرقیادت ای سی سی 14 سے کم کر کے 12 اراکین پر کر دی گئی تھی کیونکہ بجلی اور پٹرولیم کی وزارتوں کو وزارت توانائی میں ضم کر دیا گیا تھا اور وزارت تجارت اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے ماتحت تھی۔

سابقہ ای سی سی کے دیگر ارکان میں مواصلات، اقتصادی امور، توانائی، صنعت و پیداوار، داخلہ، قانون و انصاف، بحری امور، قومی غذائی تحفظ اور تحقیق، منصوبہ بندی و ترقی، نجکاری، ریلوے اور آبی وسائل کے وزراء شامل تھے۔

کمیٹی میں وزیر مملکت برائے اطلاعات، معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ اور غربت کے خاتمے، مشیر تجارت، پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین، ایس ای سی پی کے چیئرمین اور وفاقی سیکریٹریز سمیت 21 غیر اراکین اور افسران خصوصی دعوت پر شرکت کرتے تھے۔

ای سی سی کے غیر تبدیل شدہ چارٹر میں تمام فوری معاشی معاملات پر غور کرنا اور مختلف ڈویژنوں اور وزارتوں کی طرف سے شروع کی گئی اقتصادی پالیسیوں کا ہم آہنگی، اور فلاحی ریاست کا درجہ بتدریج حاصل کرنے کے لیے اقدامات کی نشاندہی کرنا اور تجویز کرنا شامل ہے۔

ای سی سی زری اور قرض کی صورت حال پر مستعدی برقرار رکھنے اور پیداوار اور برآمدات کو زیادہ سے زیادہ کرنے اور افراط زر کو روکنے، زراعت اور صنعتوں کی ترقی کے مستقبل کے پیٹرن کا تعین کرنے کے لیے قرضوں کے ضابطے کے لیے تجاویز دینے کی بھی ذمہ دار ہے۔

کابینہ کمیٹی کو وقتاً فوقتاً ملک کی درآمد و برآمد کی پالیسیوں اور پیداوار اور سرمایہ کاری پر ان کے اثرات اور برآمدات کے فروغ کے لیے اقدامات کا جائزہ لینے اور عام آدمی کی طرف سے استعمال شدہ اشیا کی قیمتوں کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے قیمتوں کی موجودہ صورت حال پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف رواں ہفتے پہلے غیرملکی دورے پر سعودی عرب جائیں گے

یہ ادارہ وفاقی کابینہ کی طرف سے وقتاً فوقتاً تفویض کردہ کسی بھی دوسرے کام پر عمل درآمد کے لیے بھی ذمہ دار ہے، بشمول معاہدوں کے معاملات اور تیل کے لیے لائسنس، اہم خود مختار اداروں کی کارکردگی کی نگرانی اور صنعتی پابندیوں کے معاملات جہاں اختیارات تفویض نہیں کیے گئے۔

ای سی سی کی ذمہ داریوں میں ٹیرف کے مسائل اور مالیاتی بے ضابطگیوں، بڑے سماجی اور اقتصادی سروے جیسا کہ لیبر فورس سروے، ڈیموگرافک سروے، گھریلو آمدنی اور اخراجات کے سروے، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ صنعتوں کی مردم شماری اور چھوٹے اور درمیانے درجے اداروں کا جائزہ لینا بھی شامل ہے۔

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2024
کارٹون : 24 دسمبر 2024