اگر آج ایوانِ صدر کو 58 (2) بی کا اختیار حاصل ہوتا تو صورتحال کیا ہوتی؟
مملکتِ خداداد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں سیاسی بحران ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بظاہر اس بحران کے پیچھے مکمل سیاسی ہاتھ ہے اور اس کا ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اس لیے قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے وفاقی حکومت کو بچانے کے لیے عثمان بزدار کی قربانی دی اور چوہدری پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر نامزد کردیا۔
لیکن اس سیاسی بحران کا دوسرا بڑا محرک مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہٰی کو مانا جاتا ہے، اور حقیقت میں یہ بحرانی کیفیت اس دن پیدا ہوئی جس دن پرویز الہٰی نے سابق اپوزیشن اتحاد کی طرف سے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی نامزدگی کی پیشکش ٹھکرا کر عمران خان سے وفاداری نبھانے کا فیصلہ کیا۔
ایک لمحے کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ اگر پرویز الہٰی اس وقت کی حزبِ اختلاف کی بات مان لیتے اور عمران خان صاحب کو حمایت دینے اور لینے کا وعدہ نہ کرتے تو اس وقت وہ سب سے بڑے صوبے پر بطور وزیرِ اعلیٰ راج کر رہے ہوتے، اور ان کے بیٹے مونس الہٰی بھی شاید وفاق میں وزارت کے مزے لے رہے ہوتے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سب سے اہم یہ کہ ان کی 5 ممبران کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے بچ جاتی اور گجرات کا چوہدری خاندان اس طرح کے اختلافات کا شکار نہ ہوتا۔
پرویز الہٰی کے ایک فیصلے نے ناصرف ان کی جماعت کو نقصان پہنچایا بلکہ پنجاب کو ایک ایسے بحران میں دھکیل دیا جس سے جان نہیں چھوٹ رہی۔ اب تو پنجاب کے اسی بحران سے صدرِ مملکت بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک طرف صدرِ مملکت پر آئین شکنی کے الزامات لگ رہے ہیں تو دوسری طرف وہ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں، یعنی ایک طرف سے ان پر یہ دباؤ ہے کہ آئین کا ساتھ دیں اور دوسری طرف اپنی جماعت کا دباؤ ہے کہ وہ آئین کو چھوڑیں اور بنی گالا کی ہدایات کا خیال کریں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ صدرِ مملکت عارف علوی کے غیر آئنی اقدامات کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کی گئی ہے۔
اگر مرحلہ وار دیکھا جائے تو پنجاب کی صورتحال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی جارہی ہے اور آخری وار ایوانِ صدر سے اس وقت ہوا جب وزیرِاعظم کی جانب سے گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لیے بھیجی گئی سمری کو ایوانِ صدر نے مسترد کردیا۔
یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدرِ پاکستان وزیرِاعظم کی ایڈوائس کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں، تو اس حوالے سے 2 مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔
اس میں ایک رائے گورنر پنجاب اور ان کے آئینی ماہرین کی ہے۔ یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ گورنر صاحب آئین کی تشریح کے لیے خود کبھی عدالت بن جاتے ہیں تو کبھی آئینی ماہر، اور عدالتی فیصلوں کی تشریح کے لیے بھی آئینی ماہرین کا اجلاس بلا کر بیانات دے دیتے ہیں۔ اسی طرح کبھی وہ آرمی چیف کو خط لکھ دیتے ہیں اور کبھی یہ ٹوئیٹ کردیتے ہیں اگر جنرل باجوہ مجھے ایک صوبیدار اور چار سپاہی بھیج دیں تو حمزہ شہباز کو گرفتار کرسکتا ہوں۔
لیکن دوسری طرف حکومت، وزارتِ قانون، کابینہ اور پارلیمنٹ کی رائے اس سے الگ ہے۔ وہ رائے یہ ہے کہ گورنر آئین کے تابع ہیں اور صدر بھی آئین سے ہٹ کر اقدامات نہیں اٹھا سکتے۔
صدرِ مملکت کی طرف سے گورنر کو ہٹانے کی سمری مسترد ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے گورنر پنجاب عمر سرفراز کو ہٹانے کا نوٹفیکشن جاری کردیا، لیکن وہ اس نوٹیفکیشن کو ماننے کو تیار نہیں ہیں اور وہ اب بھی خود کو گورنر سمجھ رہے ہیں جبکہ ان سے سیکیورٹی اور پروٹوکول تک واپس لے لیا گیا ہے۔
جہاں تک آئین کا تعلق ہے تو آئین کی شق 101 اور 48 کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس پر گورنر کے حامی قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 101 میں واضح لکھا ہے کہ صدر کی رضامندی تک گورنر اپنے عہدے پر کام کرسکتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وزیرِاعظم کی ایڈوائس بے معنیٰ ہے۔
لیکن اگر گورنر کے تقرر کا اختیار وزیرِاعظم کی ایڈوائس کی بنیاد پر ہوسکتا ہے تو اس کو ہٹانے کے لیے صدر اسی ایڈوائس کو کس طرح مسترد کرسکتے ہیں؟ پھر آئین کے آرٹیکل 48 میں بھی واضح لکھا ہے کہ صدرِ مملکت وزیرِاعظم کی ایڈوائس پر عملدرآمد کے پابند ہوں گے۔
یہ جو بحرانی کیفیت ہے اس کا حل عدالت ہی نکال سکتی ہے مگر حیران کن طور پر عدالت میں ابھی تک ایسی کوئی درخواست نہیں گئی۔
گورنر کے تقرر اور اس کو ہٹانے یا صدر کے اختیارات کے حوالے سے عدالتی فیصلوں کا ذکر ہوتا ہے اور اٹارنی جنرل اشتر علی اوصاف نے اس صورتحال میں پارلیمنٹ میں اہم پالیسی بیان بھی دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر کے اختیارات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 3 فیصلے موجود ہیں جس میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں صدر کے پاس اختیارات علامتی ہیں اور وہ ایسے اختیارات ہیں جیسے برطانوی جمہوری نظام مین رانی کے پاس ہیں۔
اسی طرح دوسرے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے فرمایا کہ گورنر اور اٹارنی جنرل کے تقرر کا طریقہ ایک ہی ہے، یعنی دونوں کے تقرر اور ہٹانے کا اختیار وزیرِاعظم کے پاس ہے، جبکہ وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کا خیال ہے کہ ہمارا نظامِ حکومت پارلیمانی نظام پر مشتمل ہے جس میں حکومتی سربراہ وزیرِاعظم ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی اختیارات صدر کو دے کر صدارتی نظام لانا چاہتا ہے تو الگ بات ہے، ورنہ چوہدری سرور کو ہٹانے کے لیے سمری بھی اسی صدر کے پاس گئی جس کے پاس عمر سرفراز کے لیے گئی ہے۔ چوہدری سرور کو ہٹانے کے لیے بھیجی گئی سمری کو تو صدرِ مملکت نے 2 منٹ میں منظور کرلیا لیکن عمر سرفراز چیمہ کو ہٹانے سے متعلق سمری پر کئی انتظار کرنے کے بعد اسے مسترد کردیا۔
عمران خان حکومت کو ہٹانے کے لیے لائی گئی عدم اعتماد تحریک کے بعد اس ملک میں صرف نئے تجربے نہیں ہوئے بلکہ نئی مثالیں بھی قائم ہوئیں اور اقتدار کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے نئی داستانیں بھی رقم ہوئی ہیں۔
ایوانِ صدر اور گورنر ہاؤسز جن کو ہمیشہ غیر سیاسی مانا جاتا رہا ہے لیکن ان ایوانوں کو پارٹی پالیسی اور پارٹی سربراہ کی ہدایات پر چلتے دیکھا گیا۔ شہباز شریف سے صدر نے وزیرِاعظم کا حلف لینے سے انکار کردیا، کابینہ ممبران سے حلف لینے کا وقت آیا تو اس وقت بھی صدر بیمار تھے لیکن شاید پھر انہیں کسی نے سمجھایا کہ آپ صدرِ مملکت ہیں اور آپ کا کام آئین کے مطابق فیصلے کرنا ہیں۔
صدرِ مملکت بظاہر ریاست کے سربراہ اور فوج کے سپریم کمانڈر ہیں، لیکن ان کے اختیارات میں کمی کا ایک پس منظر ہے۔ 1977ء میں جنرل ضیاالحق نے 8ویں ترمیم کے ذریعے ملک میں پارلیمانی نظام کو کمزور کرکے تمام اختیارات کا مرکز ایوانِ صدر کو بنا دیا اور پارلیمنٹ کو ختم کرنے کا اختیار صدر اور صوبوں میں وفاق کے مقرر کردہ نمائندوں یعنی گورنرز کو دے دیا گیا۔
صدر جنرل ضیاالحق نے یہ کام تب کیا جب اپنے منتخب وزیرِاعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو گھر بھیج کر قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا اور صوبوں میں گورنرز نے بھی اپنے باس کے کہنے پر وہی کام کیا۔ بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ ایوانِ صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے آئین کی شق 58 (2) بی میں دیے گئے اختیارات کو اس کے بعد آنے والی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا۔
جنرل ضیاالحق کے بعد ان کے نمائندے مرحوم صدر غلام اسحٰق خان نے یہی اختیار استعمال کرتے ہوئے 6 اگست 1990ء کو پیپلز پارٹی کی اس حکومت کو گھر کا راستہ دکھایا جو 3 دسمبر 1988ء کے انتخابات میں کامیاب ہوکر قائم ہوئی تھی۔
پھر 60 دن بعد جب عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) نے جیت اپنے نام کی اور میاں نواز شریف ملک کے وزیرِاعظم بنے لیکن صدر غلام اسحٰق خان ہی رہے اور انہوں نے ایک بار پھر 58 (2) بی کا اختیار استعمال کیا اور 16 اپریل 1993ء کو اسمبلی کو توڑ دی۔
اس بار صوبائی اسمبلیوں کو نہیں توڑا گیا اور صدر نے اپنے اختیارات کے تحت نگراں حکومت قائم کردی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا اور عدالتِ عظمیٰ نے قومی اسمبلی کو بحال کردیا۔ نواز شریف ایک بار پھر وزیرِاعظم بن تو گئے لیکن تنازعہ چونکہ ایوانِ صدر اور وزیرِاعظم ہاؤس کے بیچ تھا، اس لیے مجبوراً نواز شریف کو پیچھے ہٹنا پڑا اور 18 جولائی 1993ء کو وزیرِاعظم کی ایڈوائس پر پارلیمنٹ تحلیل کردی گئی۔
ایک بار پھر سیاسی جماعتیں عوام کے پاس گئیں تو پھر اقتدار کا قرعہ پیپلز پارٹی کے نام نکلا۔ 1993ء کے انتخابات کے بعد بینظیر بھٹو کو دوبارہ وزیرِاعظم کے منصب تک رسائی حاصل ہوئی، اور اب کی بار پیپلز پارٹی نے اپنی پارٹی کے پرانے جیالے فاروق لغاری کو ایوانِ صدر میں بٹھا کر یہ سمجھا کہ ایوانِ صدر کے ذریعے منتخب اسمبلی کو توڑنے والی سازشوں کا سدِباب کیا جاسکتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کا یہ خیال اس وقت چکنا چور ہوگیا جب ان کے اپنے صدر نے اپنی قائد سے سیاسی بے وفائی کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت 5 نومبر 1996ء کو واپس پویلین کا راستہ دکھا دیا۔
ایوانِ صدر میں ہونے والی ایسی منصوبہ بندی کا راستہ روکنے کے لیے 1997ء کو آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپریل 1997ء کو 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر سے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات چھین لیے۔ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن میں ہونے کے باوجود اس ترمیم کی حمایت کی کہ وہ خود 2 مرتبہ اس شق کا شکار ہوچکی تھی۔
مگر محض 2 سال بعد جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو آئین معطل کرکے وہی کچھ کیا جو جنرل ضیاالحق نے 1977ء میں کیا تھا۔ اس بار منتخب وزیرِاعظم پھانسی کی سزا سے تو بچ گئے لیکن عمر قید اور اس کے بعد جلاوطن کردیے گئے۔ پھر اس کے بعد پرویز مشرف نے اپنی پسند کے آئینی ماہرین شریف الدین پیرزادہ اور جنرل ایوب کے دیرینہ ساتھی ایس ایم ظفر کو ساتھ بٹھا کر ایل ایف او بنوایا اور اسے 17ویں ترمیم کی شکل دے کر 2003 ء میں منظور کروا لیا۔
17ویں ترمیم میں اختیارات کا مرکز ایک بار پھر ایوانِ صدر بن گیا اور جنرل پرویز مشرف کی زبان سے نکلا ہر لفظ قانون بن گیا۔ ظفر علی شاہ بنام وفاق کیس میں سپریم کورٹ کی اجازت سے جنرل مشرف ایک کے پیچھے ایک چیف ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے رہے اور ان تمام غیر آئنی احکامات کو آئینی تحفظ دیا جاتا رہا۔ اسی طرح صدرِ مملکت کو پھر سے اسمبلی توڑنے کے اختیارات مل گئے لیکن چونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں پرویز مشرف کی اپنی لگائی ہوئی تھیں اس لیے پرویز مشرف کو یہ اختیارات استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
ایوانِ صدر کو اپنے مقاصد کے لیے یا تو فوجی آمروں نے استعمال کیا یا ان کی باقیات اور چاہنے والوں نے اس پر عمل کیا، لیکن پھر 18ویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے سمیت تمام تر اختیارات محدود کرکے صدر کو وزیرِاعظم کی ایڈوائس منظور کرنے کا پابند بنا دیا گیا۔
اب ایک لمحے کے لیے فرض کریں کہ اگر 18ویں ترمیم منظور نہیں ہوتی، اور صدر اور گورنرز کے اختیارات وہی ہوتے جو جنرل ضیاالحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں تھے تو اس وقت سیاسی طور پر ہم کہاں کھڑے ہوتے یا تحریک انصاف اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے کیا کچھ کر رہی ہوتی۔
پنجاب میں اس طرح کی صورتحال طوالت کیوں پکڑ رہی ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ تحریک انصاف الیکشن کمیشن میں اپنے منحرف اراکین کے خلاف فیصلہ آنے کی خواہشمند ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ جب پنجاب اسمبلی کے وہ ممبران ڈی سیٹ ہوجائیں گے تو حمزہ شہباز کو ملی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی۔
گورنر عمر سرفراز کو رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) کے پاس اکثریت نہیں رہے گی تو وہ حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے اور یوں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوجائے گی۔ لیکن بحران یہاں ختم نہیں ہوگا، بلکہ ایک نیا بحران پیدا ہوسکتا ہے، اور آنے والے دنوں میں صورتحال کیا اختیار کرے گی، اس بارے میں کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔