• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

وزیر اعلیٰ ولد وزیر اعظم حکومت کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے، فواد چوہدری

شائع May 6, 2022
فواد چوہدری نے کہا کہ جتنا جلدی آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ آئے گا پاکستان میں اتنا جلدی سیاسی استحکام آئے گا — فوٹو: ڈان نیوز
فواد چوہدری نے کہا کہ جتنا جلدی آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ آئے گا پاکستان میں اتنا جلدی سیاسی استحکام آئے گا — فوٹو: ڈان نیوز

سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پنجاب میں اس وقت جو نام نہاد وزیر اعلیٰ ولد وزیر اعظم حکومت چل رہی ہے وہ کچے دھاگے سے بندھی ہوئی حکومت ہے اور اس پر کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ پنجاب میں فصلیں شدید متاثر ہوں گی اور ہمیں اس مسئلے کے حل کے لیے بات کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو لوٹوں کے کیس شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے میں نہیں آرہے، اس میں دیکھیں کہ دو کیسز ہیں، ایک مقدمہ پنجاب اسمبلی کے 25 اراکین کا ہے، پنجاب میں نام نہاد حکومت ہے جسے نہ گورنر پنجاب تسلیم کر رہے ہیں اور نہ ہی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تسلیم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بہرحال عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اسپیکر قومی اسمبلی نے حمزہ شہباز سے حلف لیا لیکن وہاں جو حکومت قائم ہوئی ہے یہ بالکل عارضی سیٹ اَپ کے طور پر کام کر رہی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ جوں ہی الیکشن کمیشن ان 25 اراکین کو نااہل قرار دیتا ہے جو کہ الیکشن کمیشن کا ایک رسمی کردار ہے، کیونکہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پنجاب اور وفاق کیسز میں فرق ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتی کمیشن بدنیتی پر مبنی ہے، مسترد کرتے ہیں، فواد چوہدری

انہوں نے کہا کہ وفاق کے کیس میں تو انہوں نے ایک بے حیائی کی ہے اور سب نے حلف نامے جمع کروائے ہیں کہ ہم پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور ہم عمران خان کی قیادت پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سمجھتے ہیں کہ وہ نااہل ہونے سے بچ جائیں گے حالانکہ وہ بچیں گے نہیں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پنجاب کے 25 اراکین نے باقاعدہ ووٹ دیا ہے تو الیکشن کمیشن کو چاہیے تھا کہ ایک ہی دن میں ان کو بلائے کیونکہ 30 دن تو فیصلے کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے 10 بڑے ممالک سے آبادی کے حساب سے پنجاب کو دیکھا جائے تو وہ اتنا ہی بڑا صوبہ ہے، پورے یورپ میں اتنا بڑا کوئی ملک ہی نہیں ہے، اتنی بڑی آبادی ایک انتظامی بحران شکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف سنتے ہیں کہ عدالتیں 24 گھنٹیں کھلتی ہیں، دوسری طرف الیکشن کمیشن نے اس معاملے کو معمول کے مطابق لیا اور اس میں منگل کی تاریخ دے دی ہے، ان کیسز میں ہفتہ اور اتوار کو دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک بڑا صوبہ انتہائی بڑے بحران کا شکار ہے، وہاں پر کوئی حکومت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف سیکریٹری اور آئی جی اپنی من مانیاں کر رہے ہیں، انہیں بھی سمجھ نہیں آرہا کہ پالیسی کیا لینی ہے، گندم کی خریداری کرنی ہے یا روکنی ہے، فلور ملز کے ساتھ تعلقات کیا ہونے ہیں، پانی کے تنازع پر کیا مؤقف ہونا چاہیے، یہ سارے سیاسی فیصلے ہیں جو حکومتوں نے کرنے ہوتے ہیں لیکن وہاں پر حکومت ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ نے آج نوٹسز دیے ہیں، کل آپ ان کا حاضری اور ووٹ کا ریکارڈ منگوا لیں، ان تمام 25 ارکان نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ووٹ کاسٹ کیے ہیں، بڑی سیدھی بات ہے کہ ان سب کو ڈی نوٹیفائی کرنا ہے، ان سب نے گھر جانا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ جب یہ 25 لوگ گھر چلے جاتے ہیں تو اس کے بعد پنجاب میں کسی بھی جماعت کے بعد 186 اراکین کی تعداد پوری نہیں ہے، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ملا کر 176 کے قریب اراکین رہ جائیں گے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس 170 کے قریب اراکین رہ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جو نام نہاد وزیر اعلیٰ ولد وزیر اعظم حکومت چل رہی ہے وہ کچے دھاگے سے بندھی ہوئی حکومت ہے اور اس پر کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں ہے، لہٰذا پنجاب کے بحران کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن اس کو معمول کی عدالتی کارروائی کے طور پر نہ لے، اس کیس کی سماعت کل ہونی چاہیے اور اس معاملے کو ختم کریں۔

مزید پڑھیں: فواد چوہدری کا عدلیہ کو اپنی ساکھ بہتر بنانے کا مشورہ

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کے کیس میں سپریم کورٹ 9 مئی سے دوبارہ سماعت شروع کرے گی، یہ ایک بہت مثبت قدم ہے اور اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ آنا چاہیے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ جتنا جلدی آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ آئے گا پاکستان میں اتنا جلدی سیاسی استحکام آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان آج میانوالی سے جلسوں کی دوسری مہم کا آغاز کر رہے ہیں، یہ جلسے 6 سے 20 مئی تک ہوں گے، اسی دوران لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا بھی اعلان کردیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کا جم غفیر اسلام آباد کی طرف آئے گا، اتنا بڑا ریلا تاریخ میں کسی نے نہیں دیکھا ہوگا جتنا بڑا ریلا اسلام آباد کی طرف آئے گا اور جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھتے ہیں کہ تپتی دھوپ میں یہ لوگ کتنی دیر بیٹھتے ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ تپتی دھوپ میں بیٹھتے ہیں یا پھر ایوانوں میں موجود لوگوں کو تپتی دھوپ میں بیٹھنا پڑتا ہے، اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ بھی عوام نے کرنا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے کل کمیشن کی بات کی تھی، پہلے بتایا جارہا تھا کہ مراسلہ ہے ہی نہیں لیکن کل جو مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس کی اس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ مراسلہ موجود ہے اور ہم اپنی مرضی کا کمیشن بنائیں گے، ہم نے اسے مسترد کر دیا ہے اور ہم اس پر جوڈیشل کمیشن بنوانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان معاملات کو اسی طرح ڈیل کرنا چاہیے جس طرح اسپیکر کی رولنگ کو ڈیل کیا گیا، اگر ان معاملات پر تاریخ پر تاریخ ہوگی تو اس کے نتیجے میں انتظامی بحران بڑھ جائے گا۔

ان ہم اعلیٰ عدلیہ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ وہاں پر ووٹ نہیں کر سکتے۔ اس وقت ’کرائم منسٹر‘ کی حکومت ہے ان کو 173 لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔

سابق وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیر اعظم رہنے کے لیے مسلسل 172 ووٹوں کی ضرورت ہے، 173 میں سے اس وقت ان کے پاس موجود 3 اراکین شہباز شریف کا مزید ساتھ دینے سے انکاری ہیں، اس طرح حمایت 168 یا 168 اراکین کی حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا معاملہ ختم ہوتے ہی انہیں اعتماد کا ووٹ لینا ہے، اس کے لیے حکومت کے پاس 172 اراکین موجود نہیں ہیں، 20 مئی سے قبل عمران خان نے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، مجھے پوری امید ہے کہ پنجاب اور وفاقی حکومتیں اس سے پہلے فارغ ہو جائیں گی اور پاکستان پر عوام کا راج بحال ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024