صوبہ پنجاب کے سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے گورنر کا آرمی چیف کو خط
لاہور: مسلح افواج کے مسلسل انکار کے باوجود گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے کئی مہینوں سے صوبے کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے فوج سے مداخلت کی درخواست کی ہے، انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک ریفرنس بھی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اس وقت کے نو منتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سے حلف لینے کے ’غیر قانونی فیصلے‘ کا کہا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو گورنر نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک خط لکھا جس میں ان سے موجودہ افراتفری کے ماحول میں میں اہم کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی کیونکہ ان کی رائے تھی کہ آئینی بحران کا شکار صوبہ پنجاب یرغمال بنا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: گورنر پنجاب کا عید پر سیاسی قیادت کو انوکھا تحفہ
خط کے ساتھ گورنر نے صدر اور وزیر اعظم کو لکھے گئے الگ الگ خطوط بھی منسلک کیے جو انہوں نے جنرل باجوہ کو لکھنے سے ٹھیک پہلے بھیجے تھے، انہوں نے لکھا کہ یہ دونوں خطوط اس ملک خصوصاً صوبہ پنجاب کو درپیش آئینی بحران پر میری حقیقی پریشانی اور مخمصے کا احاطہ کرتے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں گورنر پنجاب نے حمزہ پر وزیر اعظم کے بیٹے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو وزیر اعلیٰ منتخب کروانے کا الزام لگایا، انہوں نے پنجاب کی بیوروکریسی پر الزام لگایا کہ وہ 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران حمزہ کے انتخاب کو یقینی بنانے کے لیے مکمل حمایت کر رہی ہے اور ساتھ ہی ایک ’غیر آئینی مشق‘ کے ذریعے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے پر وزیر اعلیٰ کی سرزنش کی۔
عمر سرفراز چیمہ نے آرمی چیف پر زور دیا کہ وہ ان لوگوں پر اعتماد کرتے ہوئے آئینی ڈھانچے کی بحالی میں مدد کریں، جو ایماندار، منصفانہ اور پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی صورت میں قابل بھروسہ تصور کیے جانے کے حقدار ہیں۔
گورنر پہلے ہی اپنے بیان کردہ مؤقف پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ حمزہ شہباز سے بطور وزیر اعلیٰ لیا گیا حلف غیر قانونی تھا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حمزہ نے اپنے والد شہباز شریف کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے 30 اپریل کو حلف برداری کی تقریب منعقد کرنے کے لیے گورنر ہاؤس کو یرغمال بنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریب حلف برداری بھی جعلی ہے، گورنر پنجاب
عمر سرفراز چیمہ نے متعدد ٹوئٹس میں قانون اور آئین کی مبینہ بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر چیف آف آرمی اسٹاف مجھے ایک صوبیدار اور چار فوجی جوان فراہم کرتے ہیں، تو میں ذاتی طور پر غیر آئینی، غیر قانونی اور جعلی وزیر اعلیٰ (حمزہ شہباز) کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دو۔
اس سے قبل کی ٹوئٹس میں انہوں نے اپنے بیان میں واضح کیا تھا کہ اپنے بیان سے واضع کردیا ہے کہ اس صورتحال میں وہ کیسی مداخلت کے توقع رکھتے ہیں اور اس کی کیا ضرورت ہے، گورنر نہ ہوتا عوام سے مدد کا مطالبہ کرتا۔
تاہم، عمر سرفراز چیمہ نے مزید کہا کہ ماضی میں سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ فوج کی 111 بریگیڈ کی مداخلت کا مطالبہ کیا تھا، میں نے تو ابھی چار جوان اور ایک صوبیدار مانگا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئینی اور قانونی بحران کا سامنا کرنے والے صوبے کو طاقت کے ذریعے یرغمال بنایا گیا اور سیاسی جماعتوں کی خاموشی کو انتہائی تشویشناک قرار دیا، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان سب نے وزیر اعلیٰ بننے کے لیے حمزہ شہباز کے فارمولے کو مان لیا ہے تو دوسرے صوبوں کو اپنی فکر کرنی چاہیے۔
مزید پڑھیں: گورنر پنجاب کی برطرفی تک صوبائی کابینہ کی تشکیل روکنے کا فیصلہ
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر زبردستی آئین اور قانون کی توہین کرنے والوں کو تحفظ دیا گیا تو مستقبل میں کوئی بھی آئینی عہدہ سنبھال سکتا ہے، میں نے اپنے 26 سالہ طویل سیاسی کیرئیر میں ہمیشہ ایک ’غیر جانبدار امپائر‘ کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ایک ’غیر جانبدار امپائر‘ تمام فریقوں کے لیے برابری کا مقابلہ یقینی بناتا ہے بصورت دیگر وہ ’غیر جانبدار‘ نہیں کہلا سکتے اور کھیل منصفانہ نہیں ہو گا۔
وزیراعظم کو خط
آرمی چیف کو خط لکھنے سے پہلے اسی دن گورنر چیمہ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو پنجاب میں ’آئینی اور سیاسی بحران‘ پر اپنے دو صفحات پر مشتمل خط میں کہا کہ حمزہ نے اس ’غیر آئینی جدوجہد‘ میں وزیراعظم کا بیٹا ہونے کا فائدہ اٹھایا۔
اس سارے معاملے میں گورنر نے افسوس کا اظہار کیا کہ سیاسی جماعتیں اور سرکاری ملازمین اس بات کی تعریف کرنے میں ناکام رہے کہ آئین مکمل طور پر خاموش ہے کہ ایسی صورت حال میں عہدے کے دعویدار کو حلف کیسے دلایا جائے۔
درحقیقت انہوں نے لکھا کہ چیف سیکریٹری کامران علی افضل کی زیر قیادت پنجاب کی بیوروکریسی اور انسپکٹر جنرل آف پولیس نے گھناؤنا کردار ادا کیا ہے، افسران نے گورنر کے دفتر سے تمام اختیارات واپس لے لیے ہیں اور گورنر ہاؤس کے احاطے کو ہر طرح کی سیکیورٹی اور مدد سے محروم کر دیا ہے، انہوں نے الزام لگایا کہ چیف سیکرٹری نے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور ’متنازع انتخابات کے حالات‘ سے اچھی طرح واقفیت کے باوجود گورنر کے دفتر پر دباؤ ڈالا کہ وہ حمزہ کا حلف لینے کی اجازت دیں۔
انہوں نے چیف سیکریٹری اور آئی جی پی پر یہ بھی الزام لگایا کہ انہوں نے 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے دوران حمزہ کا انتخاب یقینی بنانے کے لیے مکمل تعاون کیا، عمر چیمہ نے وزیر اعلیٰ پر الزام لگایا کہ وہ اعلیٰ ترین عہدے پر قبضہ کرنے کے لیے غیر آئینی مشق میں ملوث ہیں اور پاکستان کو بے پناہ سیاسی بحران اور انتشار سے دوچار کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کی حلف برداری کا فیصلہ سنانے والے جج کےخلاف ریفرنس بھیج رہا ہوں، گورنر پنجاب
اس سے قبل 23 اپریل کو صدر مملکت کو لکھے گئے چھ صفحات پر مشتمل خط میں گورنر نے ڈاکٹر عارف علوی سے پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے متنازع انتخاب اور سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ کے استعفے کے معاملے کو حل کرنے کے لیے مشورہ طلب کیا تھا۔
گورنر نے بعد میں بزدار کے استعفیٰ کو پنجاب میں آئینی بحران کے پیچھے اصل ’فتنہ‘ قرار دیا تھا، خط میں گورنر نے حمزہ شہباز سے وزارت اعلیٰ کا حلف نہ لینے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ صوبے میں سیاسی بحران عثمان بزدار کے متنازع استعفے کے بعد وزیراعلیٰ کے لیے انتخاب کے باعث شروع ہوا۔
'گورنر کی نا اہلی'
فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ایک گورنر کا آرمی چیف کو خط لکھنا مناسب نہیں ہے کیونکہ آئینی دفاتر میں بنیادی طور پر تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گورنر نہ تو اپیلیٹ اتھارٹی ہیں اور نہ ہی وہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور انہیں ان چیزوں میں ملوث ہونے سے گریز کرنا چاہیے، وہ اپنے خلاف سنگین غداری کے مقدمات کو دعوت دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی پنجاب کے صدر شفقت محمود نے صرف یہ کہہ کر اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ گورنر نے صرف صدر، وزیر اعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف کو پنجاب میں قانونی اور آئینی مسائل سے آگاہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: عمر چیمہ کا وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر عارف علوی کو خط
دریں اثنا، پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے جنرل باجوہ کے ساتھ گورنر عمر چیمہ کی بات چیت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
کمیشن کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے ہمیشہ تمام غیرآئینی قوتوں کو سیاسی عمل میں مداخلت کی دعوت دینے کی مخالفت کی ہے، انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایجنڈا ہے جس پر پچھلے کچھ سالوں سے عمل کیا جا رہا ہے، شروع میں وہ یہ سب کچھ احتیاط سے کر رہے تھے، لیکن اب کھل کر کوشش کر رہے ہیں، ورنہ ایک اعلیٰ آئینی عہدے پر فائز آدمی ماورائے آئین مداخلت کو کیسے دعوت دے سکتا ہے؟ کیا اسے ادارے کے اندر سے کوئی اشارہ ملا ہے۔