احساس راشن پروگرام سے ٹارگٹڈ طبقے کو ریلیف ملنا ناممکن
کراچی: احساس راشن پروگرام کے تحت فوڈ سبسڈی آبادی کے ٹارگٹڈ حصے تک پہنچنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں رسائی اور کنکٹیوٹی کے مسائل درپیش ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی جاری کردہ تازہ ترین تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ احساس راشن پروگرام سے مستیفد ہونے والے 2 کروڑ گھرانے آٹا، دالیں، گھی یا تیل کی خریداری کے لیے وہ ایک ہزار روپے ماہانہ رقم وصول نہیں کرسکیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: احساس راشن پروگرام میں شمولیت سے انکار پر وزیراعظم حکومت سندھ پر برہم
ہاؤس ہولڈ انٹیگریٹڈ اکنامک سروے میں ظاہر کردہ اشیائے خورونوش کے تین آئٹمز کی کھپت کو استعمال کرتے ہوئے تحقیق میں بتایا گیا کہ سب سے کم آمدنی والے گروپ کے لیے سبسڈی کی اوسط ضرورت ماہانہ 2 ہزار 48 روپے، دوسرے درجے کے آمدنی کے گروپ کے لیے 2 ہزار 37 روپے، تیسرے درجے کی آمدنی والے گروپ کے لیے 1 ہزار 8 سو 96 روپے ہے۔
یہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ سبسڈی کی یہ رقم غریب ترین گروپ کو کھپت کے آدھے اخراجات کا احاطہ کرے گی۔
حکومت نے نومبر 2021 میں اعلان کیا تھا کہ رعایتی خوراک احساس سے رجسٹرڈ کریانہ اسٹورز کے ذریعے غریبوں کو امداد فراہم کر کے پروگرام کو لاگو کرے گی۔
اسی طرح احساس راشن پروگرام میں ایجنٹ بننے کے لیے کریانہ مرچنٹ کو اینڈرائڈ فون، شناختی کارڈ، اس کے نام پر رجسٹرڈ سم کارڈ اور بینک اکاؤنٹ کی ضرورت ہو گی۔
نیشنل بینک آف پاکستان سبسڈی کی تقسیم اور عملدرآمد کا انتظام سنبھالے گا، سبسڈی کی رقم کمیشن کے ساتھ مرچنٹس کے بینک اکاؤنٹ میں 24 گھنٹے کے دوران جمع کردی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: احساس راشن پروگرام کیلئے 106 ارب روپے کی سبسڈی منظور
حکومت کریانہ اسٹور کے مالک کو ہر ایک ہزار روپے کی خریداری پر 8 فیصد منافع فراہم کرے گی۔
اس سلسلے میں پاکستان بھر میں انتہائی غریب گھرانوں کو 28 ہزار روپے سالانہ فی گھرانہ ادا کیے جانے والی علیحدہ اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ احساس راشن پروگرام کے نفاذ کی لاگت وفاقی حکومت کے دیگر پروگراموں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، حکومت سبسڈی کی تقسیم کے لیے کریانہ اسٹور کو 8 فیصد کمیشن فراہم کرے گی جبکہ احساس کفالت پروگرام میں یہ کمیشن1.5 فیصد کم ہے۔
تحقیق میں اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ تجویز کردہ احساس راشن پروگرام دیگر پروگراموں مثلاً احساس کفالت اور یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن جیسے پروگراموں سے مماثلت رکھتا ہے۔
احساس کفالت پروگرام کے تحت ٹرانسفر رقم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کم رقم اور بہت کم سبسڈی غربت میں کمی اور خوراک کی کھپت میں اضافہ نہیں کرسکے گا۔
یہ رقم جو فائدہ اٹھانے والوں کو ملتی ہے گھرانوں کے کل اخراجات کا صرف 5.3 فیصد بنتی ہے۔
مزید پڑھیں: دو صوبوں کے عوام کا احساس راشن سبسڈی پروگرام سے مستفید نہ ہونے کا خدشہ
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی جانب سے کیے گئے فیلڈ انٹرویو میں انکشاف ہوا کہ 90 فیصد لوگوں کو احساس راشن پروگرام کا معلوم ہی نہیں ہے۔
کریانہ اسٹورز کا فاصلہ رسائی کے لیے اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہ معاملہ اس پروگرام سے مستفید ہونے والوں کے لیے آنے جانے کی زیادہ لاگت سے منسلک ہے۔
احساس راشن پروگرام کا انحصار ایسے اینڈرائڈ فون پر ہے جس میں انٹرنیٹ کنکشن ہو۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ دیہاتی علاقوں میں 10 سال یا اس بڑے صرف 39 فیصد لوگوں کے پاس اسمارٹ فون ہے خصوصاً بلوچستان میں صرف 44 فیصد لوگوں کے پاس اپنا اسمارٹ فون ہے۔
یہ بھی پڑھیں: احساس راشن پروگرام کی رجسٹریشن 8 نومبر سے شروع ہو جائے گی، ثانیہ نشتر
اسمارٹ فون کی کم رسائی کے علاوہ دیہاتی علاقوں میں انٹرنیٹ کا استعمال بھی بہت کم ہے جہاں صرف 17 فیصد افراد انٹرنیٹ معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ حکومت کو ان پروگراموں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ عوامی وسائل کا بہترین استعمال اور انتہائی غریب افراد کی ضرورت کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکے۔