فلم ’چکر‘ میری زندگی کی یادگار ترین فلم کیوں ثابت ہوئی؟
رواں سال عید الفطر پر 5 پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئی ہیں جن میں 4 اردو اور ایک پنجابی فیچر فلم ہے۔ ان فلموں میں ’پردے میں رہنے دو‘، ’دم مستم‘، ’گھبرانا نہیں ہے‘، ’چکر‘ اور ’تیرے باجرے دی راکھی‘ شامل ہیں، لیکن یہاں ہم جس فلم کا تبصرہ پیش کررہے ہیں اس کا نام ’چکر‘ ہے۔
یہ فلم میری زندگی کی یادگار فلم ہے۔ حسبِ سابق عید کے پہلے دن کے پہلے شو کی نشست بک کروائی اور فلم دیکھنے سینما پہنچا تو وہاں میرے علاوہ صرف ایک اور فرد اس فلم کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ پہلے میں نے حیرت سے ان کو اور انہوں نے مجھے دیکھا، پھر ہم دونوں نے مذکورہ فلم دیکھی۔
وہ دوسرا فرد کوئی اور نہیں بلکہ فلمی صنعت کے ایک مشہور ناقد تھے، جو زیادہ تر انگریزی میں فلموں پر تبصرے لکھتے ہیں۔ ہم دونوں نے مل کر یہ فلم دیکھی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔ اس فلم کے چکر میں ہمارا وقت اور پیسے دونوں رفو چکر ہوئے۔
فلمسازی
پاکستان میں فلمی صنعت کے لیے اشد ضروری ہے کہ اس شعبے کو حکومتی سرپرستی ملے تاکہ فلمسازوں کا اعتماد بحال ہو، لیکن موجودہ صورتحال ایسی نہیں ہے۔
ہر حکومت صرف سیاسی وعدے کرتی ہے جو کبھی وفا نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ فلمساز اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ کسی طرح ان کی بنائی ہوئی فلم اپنے پیسے پورے کرلے اور ان پیسوں کو وصول کرنے کے لیے جو حربے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں وہ کر ڈالتے ہیں۔
فلم تخلیقی اعتبار سے کیسی ہونی چاہیے اس سے کسی فلمساز کو فی الحال کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس فلم کی فلمساز صرف اس چکر میں تھیں کہ کسی طرح خرچے کے پیسے وصول ہوجائیں۔
فلم کا پروڈکشن ڈیزائن ہو، موسیقی ہو یا دیگر شعبہ جات، سب میں ٹائٹ بجٹ کی حکمتِ عملی جھلک رہی ہے۔ سینماٹوگرافی روایتی انداز کی ہے اور ڈرون شاٹس سے اس میں جدت کا رنگ بھرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ موسیقی میں 2، 3 بھرتی کے گانوں سے کام چلایا گیا ہے، جس میں سرِفہرست آئٹم سونگ ہے۔ اس کی ویڈیو، سیٹ ڈیزائن اور دھن وغیرہ سب بولی وڈ کی بھونڈی نقل ہے۔
اس فلم کے موسیقار نوید نوشاد ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ کاسٹ کے نام پر بھی چکر دیا گیا ہے۔ معروف کرکٹر شعیب ملک کی انٹری اور چند ایک نمایاں چہروں کا استعمال صرف آنکھوں کو دھوکا دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ فلم کی ایڈیٹنگ اتنی بُری ہے کہ کب فلم میں ماضی کے سین چل رہے ہیں اور کب حال کو دکھایا جا رہا ہے، آپ اس کو سمجھنے کے چکر میں ہی چکرا جائیں گے۔
اس فلم کی پروڈیوسر ندا یاسر ہیں۔ 2019ء میں اس کو بنانے کا اعلان ہوا تھا، اور ابتدائی کاسٹ میں ڈرامے کے 2 معروف نام فیروز خان اور ماورا حسین شامل تھے، مگر بعد میں ڈرامے ہی کے 2 نام نیلم منیر اور احسن خان کو ان کے متبادل کے طور پر لایا گیا۔
2020ء میں یہ پوری فلم کراچی میں عکس بند کی گئی جبکہ ایک گیت بلوچستان کے معروف سیاحتی مقام ’ہنگول پارک‘ میں بھی شوٹ کیا گیا ہے۔
فرید نواز پروڈکشن کے تحت بنائی گئی اس فلم کو پاکستان کے معروف تقسیم کار ادارے ’ایوریڈی پکچرز‘ نے ریلیز کیا، جس کے روح رواں پاکستانی فلمی صنعت کی معروف شخصیت ستیش آنند ہیں۔ فلم ’چکر‘ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے تحت تقسیم ہونے والی فلموں کو دیکھنے کے چکر میں نہیں پڑتے اور بغیر دیکھے ہی نمائش کے لیے فلموں کو ڈسٹری بیوٹ کردیتے ہیں۔
کہانی و مکالمات
اس فلم کی کہانی معروف کہانی نویس اور ڈراما نگار ظفر عمران کی ہے، جبکہ یاسر نواز نے اس کا اسکرین پلے لکھا ہے۔ فلم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اسکرین پلے یاسر نواز نے ہی لکھا ہوگا کیونکہ ظفر عمران کی فنی نفسیات اور ادبی تخلیقات کو مدِنظر رکھا جائے تو یہ کہانی ان کی لکھی ہوئی محسوس نہیں ہوئی۔
اس کہانی میں سب سے مثبت بات کہانی کا مسلسل آگے بڑھنا ہے، ہر تھوڑے مناظر کے بعد کلائمکس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ فلم میں کرداروں کے مکالمے انتہائی بچکانہ اور سطحی ہیں، کوئی ایک جملہ، ایک ڈائیلاگ ایسا نہیں ہے جو فلم دیکھ لینے کے بعد دماغ میں رہ جائے، کچھ یاد کرنے کی کوشش کی جائے تو صرف چکر آئیں گے۔
ہدایت کاری
اس فلم کے ہدایت کار یاسر نواز ہیں جن کی ذاتی پروڈکشن میں یہ پہلی فلم ہے۔ انہوں نے سینماٹوگرافی میں منجھے ہوئے سینماٹوگرافر سلیم داد کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس کے باوجود فلم کا مجموعی ٹریٹمنٹ ناقص ہے۔ ڈرون شاٹ قدرے مناسب لگے لیکن باقی پوری فلم روایتی انداز کے فریمز میں رکھ کر شوٹ کردی گئی ہے، بلکہ ماڈل کے قتل کی واردات اس قدر مضحکہ خیز انداز میں فلمائی گئی ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے تو آپ کو چکر بھی نہیں آتے۔
2 جڑواں بہنوں کے فرق، مرکزی کرداروں کے لباس، بول چال تک درست نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک معاون کردار پنجابی زبان کا لہجہ لیے ہوئے فلم میں کامیڈی کرتا دکھائی دیتا ہے، پھر آدھی فلم میں پہنچ کر اس کا لہجہ اہلِ زبان جیسا ہوجاتا ہے اور وہ بہت عمدہ اردو بولنے لگتا ہے۔ ایسی بے شمار غلطیوں سے بھرپور فلم چکر کے نام پر فلم بینوں کو صرف چکر ہی دیا گیا ہے۔ پھر ایک اور پرانا مسئلہ جو ہماری فلموں کو درپیش ہے کہ فلم ٹی وی ڈرامے کے فریم سے باہر نہیں نکل پا رہی ہے۔
اداکاری
اس فلم کے نمایاں فنکاروں میں احسن خان، نیلم منیر، جاوید شیخ، محمود اسلم اور خود یاسر نواز شامل ہیں۔ ذیلی کرداروں میں بھی کافی اداکاروں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ نوید رضا اور احمد حسن نے کامیڈی کرداروں کو نبھایا ہے اور ٹھنڈی جگتوں کے ساتھ کام چلانے کی کوشش کی گئی۔
ڈراما صنعت کے ان اداکاروں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس میڈیم کے لیے اداکاری کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے، فلم کی جمالیات کے تقاضے پورے کرنا تو دُور کی بات، بنیادی کرداروں سے انصاف بھی نہیں کیا گیا، مایوس کن اداکاری سے بھرپور فلم میں سب اداکار گھن چکر بنے دکھائی دیے۔
نتیجہ
اس فلم کے پہلے دن کے اوّلین شو میں صرف ہم 2 لوگ ہی ناظرین تھے، جو اتفاق سے فلم کے ناقدین بھی ہیں۔ ہم نے اپنے خرچے پر یہ فلم دیکھی اور چکرا گئے۔
فلم اچھی ہو یا بُری، بہرحال اس کو بنانے میں محنت ہوتی ہے، پھر ہمیں اندازہ ہے کہ فلمی صنعت کے لیے حکومتِ وقت کی کوئی پالیسی نہیں، اس لیے پروڈیوسرز کو بہت محدود دائرے میں کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فلموں میں کچھ تو ایسا ضرور ہونا چاہیے جس سے یہ اندازہ ہوسکے کہ انہوں نے تخلیقی طور پر کچھ کرنے کی سعی کی ہے۔ بھلے ٹیم میچ ہار جاتی ہے مگر وہ جیتنے کی کوشش کرتی دکھائی تو دے، اس طرح کم از کم غم آدھا ہوجاتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ایسی فلمیں بناکر بھی ان فلمسازوں اور فنکاروں کے نخرے آسمانوں پر ہیں۔ اگر یہ واقعی اچھی فلمیں بنانے لگے تو ان کے اسٹارڈم کا کیا حال ہوگا۔ ہماری فلمی صنعت آخری ہچکیاں لے رہی ہے، اگر یقین نہیں آتا، تو یہ فلم سینما میں جاکر دیکھیے، بشرطیکہ یہ فلم آپ کے جانے تک نمائش سے اتر نہ گئی ہو کیونکہ لگتا ہے کہ یہ فلم ایک ہفتے سے زیادہ اسکرین پر نہیں ٹک سکے گی۔
ہمارے ہاں جب تک بولی وڈ کی چائنا کاپیاں تیار ہوتی رہیں گی تب تک فلموں کے معیار کا یہی حال رہے گا۔ اس عید پر ریلیز ہونے والی باقی فلموں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے مگر ناکام ترین فلم کا اعزاز بہرحال ’چکر‘ کے نام رہے گا۔
تبصرے (5) بند ہیں