جہنم کی چنگچی
کراچی بھی عجیب ڈھیٹ شہر ہے کہ اتنا کچھ سہنے کے بعد بھی جونہی کوئی موقع ملتا ہے یہ اپنے تمام رنگ کے ساتھ جلوہ افروز ہو جاتا ہے اور جو یہ کہتے ہیں کہ کراچی رہنے کے لائق نہ رہا اپنا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
پچھلے کچھ دنوں سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہو گئی تھی اور کے ای ایس سی کی کرم نوازی نے اسے دوبارہ اسے روشنیوں کا شہر بنا دیا تھا لیکن حاسدوں کو کراچی کی روشنیاں پسند نہیں آتیں، وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کی کالی نظر بد کراچی کو لگ جائے، اور وہ ایک بار پھر اندھیروں میں ڈوب جائے۔
ان حاسدوں میں پنجاب کے وزیر اعلٰی جناب شہباز شریف پیش پیش ہیں۔
جناب شہباز شریف کئی بار کراچی کی روشنیوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرما چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ لاہور میں بجلی آتی نہیں اور کراچی میں بجلی جاتی نہیں۔ شائد یہ فلسفہ انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب کو بھی پڑھا دیا ہے۔
انہوں نے سارے ملک کے بجلی بنانے والوں کو سرکلر قرضوں کی ادائیگی تو کر دی لیکن کے ای ایس سی والے اپنا منہ دیکھتے رہ گئے نتیجتاً آج پھر کراچی اندھیروں میں ڈوب چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران چاہے وہ صوبائی ہوں یا وفاقی جب کراچی آتے ہیں تو وہ اس کے سب سے پوش علاقے ڈیفینس یا کلفٹن میں رہنا پسند کرتے ہیں، یہ وہ علاقے ہیں جہاں بجلی کی چوری کی شرح سب سے کم ہے، اور کے ای ایس سی کے بنائے ہوئے فارمولے کے مطابق ان علاقوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بالکل نہیں کی جاتی اسی پس منظر کے تحت شہباز شریف صاحب نے کہا تھا کہ کراچی کی بجلی نہیں جاتی۔
کراچی صرف ڈیفینس اور کلفٹن کا نام نہیں صاحب کراچی نام ہے لیاری، ملیر، لانڈھی، کورنگی، اور شاہ فیصل کالونی کا۔ کراچی رواں دواں ہے تو لیاقت آباد، نارتھ کراچی، اورنگی اور بلدیہ میں مقیم محنت کشوں کے دم سے۔
کراچی کے ان علاقوں میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ بد ترین لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ سارا دن گاڑی، گھر اور دفتر میں ایئر کنڈیشنرز میں رہنے والے اس جہنم سے ناآشنا ہیں جو منددجہ بالا علاقوں کا مقدر بن چکا ہے۔
مندرجہ بالا علاقوں کے مکین غریب لوگ ہیں جن کی ماہانہ آمدنی اوسطا دس سے بارہ ہزار روپے ہوتی ہے۔ جس میں سے اگر چار ہزار کا بجلی کا بل ادا کر دیا جائے تو غریب آدمی کھائے گا کی اور پہنے گا کیا؟
وہ مجبور ہوتا ہے کہ بجلی چوری کرے جس کی سزا اسے جہنم کی صورت میں ملتی ہے۔ تصور کیجیئے، سارا دن کے تھکے مارے جب آپ دو کمروں والے گھر پہنچتے ہیں تو وہاں نہ لائٹ ہوتی ہے نہ پنکھا چل رہا ہوتا ہے۔ ایک محنت کش جسے دوسرے دن بھی صبح اٹھ کر کام پر جانا ہوتا ہے اس تندور میں کیسے رات گزارتا ہے؟ ایک طالب علم جسے دوسرے دن امتحان دینے جانا ہوتا ہے، کیسے اپنے پرچے کی تیاری کرتا ہو گا؟ سب سے بڑھ کر وہ عورت جس کے نصیب میں ہی اس تندور میں رہنا مقدر کر دیا گیا ہے، کیسے اپنے فرائض کی ادائیگی کرتی ہوں گی؟
شہباز شریف صاحب، کراچی میں بھی لاہور کی طرح انسان ہی بستے ہیں اور غریب کا دکھ صرف غریب ہی سمجھ سکتا ہے۔ آج کراچی کے مضافات میں بسنے والے ایک محنت کش کو اپنے دفتر پہنچنے میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام کی تباہی ہے۔ یہاں بڑی بسیں ختم ہو چکی ہیں، لوکل ٹرین کی کہانیاں اب بڑے اپنے بچوں کو ایک دیومالائی کہانی کی طرح سناتے ہیں۔
وہ بدہیت اور بد نما پیلے رنگ کی مزدا بھی برائے نام سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ ٹیکسیاں اور یلو کیب نہ ہونے کے برابر ہیں. حد ہے کہ دنیا کے چھٹے بڑے شہر کا ٹرانسپورٹ کا نظام چنگچی اور سی این جی رکشوں کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
جناب شہباز شریف صاحب آپ سے یہ شکوہ کراچی والے اس لیئے کر رہے ہیں کہ سندھ کی حکومت تو اس بھینس کی طرح ہے جس کے آگے بین بجانا بے کار ہے۔ آپ کراچی کا نہیں تو کم از کم لاہور کا دکھ تو رکھتے ہیں۔
سندھ حکومت نے نیا بلدیاتی بل پاس کر کے تمام چوروں اور لیٹروں جن کی نظریں کراچی کے اربوں روپے کے بلدیاتی بجٹ پر ہیں، خوش کر دیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں تو کراچی صرف جہنم کا نمونہ بنا ہے اب لگتا ہے اگلے پانچ سالوں میں یہ غریب پرور شہر کھنڈر ہی بن جائے گا۔
خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے
تبصرے (3) بند ہیں