• KHI: Fajr 4:40am Sunrise 6:00am
  • LHR: Fajr 3:55am Sunrise 5:22am
  • ISB: Fajr 3:54am Sunrise 5:25am
  • KHI: Fajr 4:40am Sunrise 6:00am
  • LHR: Fajr 3:55am Sunrise 5:22am
  • ISB: Fajr 3:54am Sunrise 5:25am

فاٹا، بلوچستان میں سیکیورٹی آپریشنز کے خلاف اراکین قومی اسمبلی سراپا احتجاج

شائع April 20, 2022
محمد جمال الدین نے قبائلی عوام پر ایسے بمباری کو انسانی حقوق اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا — فائل فوٹو: اے پی پی
محمد جمال الدین نے قبائلی عوام پر ایسے بمباری کو انسانی حقوق اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا — فائل فوٹو: اے پی پی

بلوچستان اور سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی نے گزشتہ روز ایک بار پھر اپنے اپنے علاقوں میں جاری سیکیورٹی آپریشنز پر آواز اٹھائی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی جانب ارکان اسمبلی کو پوائنٹ آف آرڈر پر طویل تقاریر کرنے کی اجازت ملنے کے بعد زیادہ تر اراکین نے اپنی تقاریر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو نوجوانوں کو تشدد پر اکسانے اور نازیبا زبان استعمال کرنے کے لیے مبینہ طور پر سیاسی ماحول کو آلودہ کرنے کا الزام عائد کیا۔

ان کی جانب سے سابق وزیر اعظم کو انتشار پھیلانے سے روکنے کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

کچھ ارکان اسمبلی نے حکومت کی توجہ زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کو درپیش مسائل کی جانب بھی مبذول کرائی اور بیجوں، کھادوں، ٹیوب ویل، بجلی کے نرخوں اور دیگر زرعی اشیا پر سبسڈی دینے کا مطالبہ کیا۔

دریں اثنا جے یو آئی (ف) کے زاہد اکرم درانی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہو گئے کیونکہ ان کے خلاف کسی اور امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے، توقع ہے کہ وہ آج (بدھ) حلف اٹھائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: چاغی میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں پر بی این پی کا احتجاجاً قومی اسمبلی سے واک آؤٹ

جے یو آئی (ف) کے محمد جمال الدین نے الزام عائد کیا کہ 3 روز قبل افغانستان کے سرحدی شہر خوست میں بمباری کے دوران وزیرستان کی خواتین اور بچے شہید ہوئے۔

انہوں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ہماری ایجنسیاں اتنی کمزور ہیں؟ وہ (دہشت گرد) ہمارے علاقوں میں باقاعدگی سے آتے ہیں، وہ کلاشنکوفیں اٹھائے گھوڑوں پر ناچتے ہوئے 40 سے 50 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد یہاں آتے ہیں، کیا وہ (ایجنسیاں) انہیں (دہشت گرد) نہیں دیکھتے؟

جے یو آئی (ف) کے رکن قومی اسمبلی نے حکومت سے کہا کہ وہ آئی ڈی پیز (اندرونی طور پر بے گھر افراد) کے طور پر رہنے والی خواتین اور بچوں کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس لانے کے لیے کچھ اقدامات کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر علاقے میں دہشت گرد یا طالبان موجود ہیں تو سیکیورٹی فورسز کو ان کے خلاف کارروائی ضرور کرنی چاہیے لیکن کم از کم معصوم لوگوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: چاغی: سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ڈرائیور کا مبینہ قتل، احتجاج کے دوران 4 مظاہرین زخمی

انہوں نے قبائلی عوام پر ایسے بمباری کو انسانی حقوق اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

محمد جمال الدین نے کہا کہ انہیں جنوبی وزیرستان کے اپنے حلقے سے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ رازن مندیش کے علاقے میں ایک اور آپریشن کی تیاریاں جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب آئی ڈی پیز کو ان کے شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال کے بعد واپس آنے کی اجازت دی گئی تو فوج نے انہیں بتایا کہ علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے اور امن بحال ہو گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی فوج نے آپریشن کا اعلان کیا دہشت گرد علاقہ چھوڑ کر چلے گئے اور صرف مقامی لوگوں کو نقصان پہنچا۔

یہ بھی پڑھیں: چاغی میں احتجاج کے دوران 7مظاہرین زخمی

انہوں نے کہا کہ وہ مزید آپریشن کے متحمل نہیں ہو سکتے، اگر فوج دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہتی ہے تو وہ کر سکتی ہے لیکن عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔

یہ معاملہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بھی اٹھایا تھا۔

بعد ازاں بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-ایم) کی پروفیسر ڈاکٹر شہناز بلوچ نے ایوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان کی پارٹی کے ایوان میں صرف 4 اراکین ہیں لیکن یہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نمائندگی کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل اپنی پہلی تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ اگر معاملات حل نہیں ہوتے تو انہوں نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟

مزید پڑھیں: بجلی کی معطلی کے خلاف احتجاج، مظاہرین نےتفتان ہائی وے بند کردیا

بی این پی-ایم کی رکن اسمبلی نے کہا کہ پچھلے 2، 3 روز میں بلوچ لوگوں کو مارا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی انہوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے کوئی سرگرمی کی تو بلوچستان میں کوئی حادثہ پیش آیا اور لوگ مارے گئے۔

ڈاکٹر شہناز بلوچ نے چاغی میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر مظاہرین پر فائرنگ کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیر کی صبح ایک بار پھر بہت سے لوگ مارے گئے جس کی وجہ سے ہم نے واک آؤٹ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے بتائیں ہم اور بی این پی ایم کہاں جائیں؟ کم از کم ہمیں جینے کا حق تو دیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر تمام جماعتیں مل کر کام کریں جیسا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کو ہٹانے کی کوششیں کی تھیں تو وہ بلوچستان کے مسائل بھی حل کر سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان میں کلیئرنس آپریشن مکمل کرلیا، آئی ایس پی آر

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بہت سی ٹاسک فورسز بنائیں لیکن کسی کو بھی بلوچستان کی نمائندگی نہیں ملی۔

چاغی میں مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ کے معاملے پر بی این پی ایم کے ارکان نے پیر کو قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تھا۔

یہ معاملہ بی این پی ایم کے آغا حسن بلوچ نے اٹھایا اور الزام عائد کیا کہ 16 اپریل کو چاغی میں سکیورٹی فورسز نے نہتے اور مظلوم بلوچوں پر فائرنگ کی جس میں 6 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

بعد ازاں آغا حسن بلوچ نے پارٹی ارکان کے واک آؤٹ کی قیادت کی اور پھر وہ باقی کارروائی میں شرکت کے لیے واپس ایوان میں نہیں آئے۔

کارٹون

کارٹون : 26 اپریل 2025
کارٹون : 25 اپریل 2025