• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پریانتھا کمارا قتل کیس: 6 ملزمان کو سزائے موت، 9 کو عمر قید

شائع April 18, 2022 اپ ڈیٹ April 19, 2022
انسدادِ دہشت گردی عدالت کی جانب سے 12 مارچ کو واقعے میں ملوث 89 افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی — فائل فوٹو: عمران صدیق
انسدادِ دہشت گردی عدالت کی جانب سے 12 مارچ کو واقعے میں ملوث 89 افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی — فائل فوٹو: عمران صدیق

لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ میں قتل ہونے والے سری لنکن فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا کے کیس میں6 ملزمان کو سزائے موت، 9 کو عمر قید اور 72 ملزمان کو 2،2 سال قید بامشقت کی سزا سنادی۔

سیکریٹری پراسیکیوشن پنجاب ندیم سرور نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کیس میں نامزد 89 ملزمان میں سے 88 ملزمان کو سزا سنائی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پریانتھا کمارا قتل کیس: 89 ملزمان پر فرد جرم عائد

سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا کو 3 دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں ہجوم کی جانب سے بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔


سزاؤں اورجرمانے کی تفصیلات درج ذیل ہے:

• 6 ملزمان کو دو مرتبہ سزائے موت اور لواحقین کو 2 لاکھ روپے ہرجانے کی ادائیگی

• 9 ملزمان کو عمرقید کے ساتھ 2 لاکھ روپے جرمانہ اور ورثا کو 2 لاکھ روپے ہرجانے کی ادائیگی

• 72 ملزمان کو 2،2 سال قید بامشقت

• ایک ملزم کو 5 سال قید

• ایک فرد کو بری کردیا گیا


سیکریٹری پراسیکیوشن پنجاب نے مزید بتایا کہ سزا یافتہ ملزمان میں سے 6 ملزمان محمد عمیر، تیمور احمد، محمد ارشاد، علی حسنین، ابو طلحہ اور عبد الرحمٰن کو 2، 2 مرتبہ سزائے موت اور 2، 2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔

واضح رہے کہ پریانتھا کمارا سیالکوٹ کی فیکٹری کے منیجر تھے جنہیں 3 نومبر کو فیکٹری ملازمین سمیت سیکڑوں مظاہرین پر مشتمل ہجوم نے توہین مذہب کے نام پر بہیمانہ تشدد کر کے قتل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: ملزمان کی حمایت کرنے والے شخص کو سزا سنادی گئی

سیالکوٹ کے اگوکی پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ارمغان مقط کی درخواست پر راجکو انڈسٹریز کے 900 ورکرز کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 297، 201، 427، 431، 157، 149 اور انسداد دہشت گردی قانون کے 7 اور 11 ڈبلیو ڈبلیو کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

واقعے پر ملک بھر کے سیاستدانوں، علما اور سول سوسائٹی کے اراکین کی جانب سے مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی سزا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت کی جانب سے 12 مارچ کو واقعے میں ملوث 89 افراد پر فردِ جرم عائد کی گئی تھی، ان میں سے 80 ملزمان بالغ جبکہ 9 کم عمر تھے۔

جج نتاشا نعیم نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں مقدمے کی سماعت کی تھی۔

کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی) کے سیکشن 342 کے تحت ملزمان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران سینئر خصوصی پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو سمیت پانچ پروسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوئے تھے، کیس کے چالان میں 46 عینی شاہدین کا بیان شامل کیا گیا تھا۔

چالان کے مطابق ویڈیوز، ڈیجیٹل شواہد، ڈی این اے، فرانزک شواہد، عینی شاہدین اور پریانتھا کمارا کو ہجوم سے بچانے والے ان کے ساتھی کے بیان کو تحقیقات کا حصہ بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: پولیس نے مزید 33 مرکزی ملزمان کو گرفتار کرلیا

چالان میں 46 چشم دید گواہوں کے بیانات، 10 سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز، 55 ملزمان کے موبائل فون سے ملنے والی ویڈیوز کو شامل کیا گیا تھا۔

سری لنکن فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا قتل

یاد رہے کہ 3 دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا تھا کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ فیکٹری کے کچھ کارکن متوفی جنرل مینیجر جو کہ ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کو نظم و ضبط کے نفاذ میں سختی کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔

جمعہ کی صبح معمول کے معائنے کے بعد پریانتھا کمارا نے ناقص کام پر سینیٹری عملے کی سرزنش کی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ چونکہ فیکٹری میں رنگ ہونے والا تھا اس لیے مینیجر نے دیواروں سے پوسٹر ہٹانا شروع کر دیے ان میں سے ایک پوسٹر میں کسی مذہبی جلسے میں شرکت کی دعوت تھی جس پر ورکرز نے اعتراض کیا۔

مزید پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: ڈسٹرکٹ بار کا مشتبہ ملزمان کی نمائندگی سے انکار

ذرائع نے بتایا کہ پریانتھا کمارا نے معافی کی پیشکش کی، لیکن ایک سپروائزر نے کارکنوں کو اکسایا، جنہوں نے ان پر حملہ کردیا۔

جس کے بعد پریانتھا کمارا چھت کی طرف بھاگے اور سولر پینل کے نیچے چھپنے کی کوشش کی لیکن مشتعل کارکنوں نے انہیں پکڑ لیا اور وہیں مار ڈالا۔

مظاہرین نے پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد روڈ پر واقع فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت واقع ہوگئی اور اس کے بعد ہجوم نے ان کی لاش کو آگ لگادی تھی۔

افسوسناک واقعے پر ملک بھر کے سیاسی و سماجی رہنماؤں، اسکالرز اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مذمت کی اور ملزمان کو جلد از جلد سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسے ’ہولناک حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ پاکستان کے لیے شرمندگی کا دن ہے، میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، قانون کے دائرہ کار میں تمام ذمہ داران کو سزا دی جائے گی‘۔

پریانتھا کمارا کی میت 6 دسمبر کو ان کے ملک سری لنکا بھیجی گئی تھی۔

واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکسے نے امید ظاہر کی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔

واقعےمیں ملوث تقریباً 100 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور ان کے خلاف ٹرائل لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں جاری رہی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024