ایف آئی اے سائبر کرائم 1500 مقدمات میں چارج شیٹ داخل کرنے میں ناکام
شناخت کی چوری، تصویر پر مبنی جنسی زیادتی اور پورنوگرافی سمیت سائبر کرائمز کے سیکڑوں متاثرین انصاف کے منتظر ہیں کیونکہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کئی ماہ سے زیر التوا تقریباً 1500 مقدمات میں نامزد ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنے میں ناکام رہی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالتی اور استغاثہ کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ سال 2021 کے دوران کراچی میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم رپورٹنگ سیل کے پاس عوام کی طرف سے 1500 شکایات/انکوائریاں/تحقیقات درج کروائی گئیں۔
مزید پڑھیں: ’سال 2021 میں سائبر جرائم کی ایک لاکھ سے زائد شکایات رپورٹ ہوئیں‘
ان کا خیال تھا کہ زیادہ تر شکایات خواتین اور لڑکیوں نے اپنے سابق بوائے فرینڈز، منگیتر یا حتیٰ کہ شوہروں کے خلاف درج کروائی ہیں جو ان خواتین کی ذاتی تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ انہیں بلیک میل کیا جاسکے یا پھر ناجائز تعلقات استوار کرنے کے لیے ان سے زبردستی کی جاسکے۔
تین ماہ میں 30 ایف آئی آر
تاہم ایف آئی اے کے سائبر کرائم رپورٹنگ سیل کے ایڈیشنل ڈائریکٹر عمران ریاض نے کہا کہ صرف کراچی میں تحقیقاتی رپورٹس جمع نہ کرانے کی وجہ سے زیر التوا شکایات/ انکوائریوں/ تحقیقات کی تعداد 1500 تھی۔
انہوں نے کہا کہ انکوائری اور ایف آئی آر میں فرق ہوتا ہے، زیادہ تر انکوائریاں تحقیقات میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہیں کیونکہ ایف آئی آر کافی شواہد (فرانزک اور دیگر) کامیابی سے حاصل کرنے کے بعد درج کی جاتی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2021 میں سندھ بھر میں مجموعی طور پر 90 ایف آئی آر درج کی گئیں جبکہ 2022 میں اب تک سندھ بھر میں 30 ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کو سائبر کرائم قانون کا غلط استعمال روکنے کی ہدایت
البتہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مرتب کردہ اعداد و شمار نے تجویز کیا کہ ان کی ہیلپ لائن کو سال 2021 میں شکایت کنندگان کے ذاتی ڈیٹا (بشمول تصاویر یا ویڈیوز وغیرہ) کے غلط استعمال سے متعلق پورے ملک سے تقریباً 1500 عوامی شکایات موصول ہوئیں۔
گروپ نے تجزیہ کیا کہ تقریباً 70 فیصد شکایات متاثرہ خواتین کی طرف سے درج کروائی گئیں جبکہ بقیہ 30 فیصد شکایات مردوں نے درج کرائیں۔
1500 شکایات
ایف آئی اے کے عمران ریاض نے حال ہی میں ایک عدالت کے سامنے انکشاف کیا تھا کہ شہر بھر میں تقریباً 1500 شکایات/انکوائریاں/تحقیقات درج کرائی گئیں۔
ایف آئی اے عہدیدار نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ یہ شکایات / انکوائریاں / تحقیقات زیر التوا ہیں کیونکہ تفتیشی افسران کی جانب سے متعلقہ عدالتوں میں تحقیقاتی رپورٹس جمع نہیں کروائی گئیں۔
عدالتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ابتدائی طور پر سائبر کرائم رپورٹنگ سیل کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نے اعتراف کیا تھا کہ تفتیشی افسران نے صرف کراچی کے ضلع شرقی میں درج کی گئی تقریباً 1200 شکایات/انکوائریوں/تحقیقات کے حوالے سے عدالتوں میں رپورٹس جمع نہیں کروائیں۔
بعد ازاں سینئر افسر نے اپنے بیان میں ردوبدل کرتے ہوئے کہا کہ 1200 مقدمات کورنگی اور کراچی کے ضلع شرقی سے متعلق تھے، تاہم بعد میں ہونے والی سماعتوں کے دوران افسر نے ایک بار پھر اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ کراچی بھر میں زیر التوا شکایات/انکوائریوں/تفتیش کی کُل تعداد کا تخمینہ لگ بھگ 1500 لگایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت میں تبدیلی کے ساتھ ہی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ برطرف
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر سائبر اسٹاکنگ، شناخت کی چوری، پورنوگرافی اور آن لائن ہراساں کرنے سے متعلق ان شکایات یا انکوائریوں میں مقدمے کی سماعت کو روک دیا گیا تھا کیونکہ تفتیشی افسر نے نامزد ملزمان کے خلاف فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 173 کے تحت عدالتوں میں چارج شیٹ داخل نہیں کی تھی۔
عدالتی ذرائع نے تبصرہ کیا کہ زیادہ تر شکایات متاثرہ خواتین کی طرف سے درج کروائی گئی ہیں جبکہ دیگر میں مرد شامل ہیں، جو ایف آئی اے اور پھر عدالت سے رجوع کرتے ہیں تاکہ ایسے نازک نوعیت کے مقدمات میں انصاف حاصل کیا جاسکے۔
ذرائع نے وضاحت کی کہ متاثرین نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 13، 14، 16، 20، 21 اور 26 کے تحت اپنی شکایات درج کرائی ہیں جو جرائم کے لیے الیکٹرانک آلات کے استعمال سے متعلق ہیں، پیکا 2016 کے تحت (کسی شخص کی) شناختی معلومات کا غیر مجاز استعمال، جرم میں استعمال ہونے والے مواصلاتی آلات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور دیگر قابل سزا جرائم ہیں۔
تاخیر پر مجسٹریٹ برہم
اکتوبر 2021 سے جوڈیشل مجسٹریٹ (شرقی) مکیش کمار تلریجا سائبر کرائم رپورٹنگ سیل کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کو شوکاز نوٹس جاری کر رہے تھے تاکہ یہ وضاحت کی جاسکے کہ کئی مہینوں سے زیر سماعت ان مقدمات میں تفتیشی افسر کی طرف سے عدالتوں میں چارج شیٹ کیوں پیش نہیں کی جارہی ہیں۔
اپنے 26 فروری کے حکم میں مجسٹریٹ نے نوٹ کیا تھا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائبر کرائم رپورٹنگ سیل کراچی میں سائبر کرائم کمپلین رجسٹریشن کے تحت درج کی گئی شکایات/انکوائریوں/تحقیقات کی پیشرفت کے بارے میں موجودہ عدالت میں روٹین میں کوئی رپورٹ پیش نہیں کی جارہی تھی۔
جج نے نوٹ کیا کہ الیکٹرانک کرائمز انویسٹی گیشن رولز، 2018 کی روک تھام کے رول 7 (3) کے مطابق ایک تفتیشی افسر کو مقدمے کے اندراج کے 60 دنوں کے اندر تفتیشی رپورٹ پیش کرنی ہوتی ہے، جبکہ ذیلی قواعد 4 اور 5 کے مطابق اگر قابل شناخت جرم کیا جاتا ہے تو مقدمہ درج کیا جانا چاہیے، جبکہ ناقابل شناخت جرم کی صورت میں سائبر کرائم رپورٹنگ سیل کی دفعہ 155 کے تحت تحقیقات کی اجازت لینے کے لیے اس معاملے کو متعلقہ عدالت میں رپورٹ کیا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: اختیارات کا 'بے جا استعمال': عدالت کی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کی سرزنش
جج نے ریمارکس دیے کہ یہ باقاعدگی سے دیکھا گیا ہے کہ رول 7 کے ذیلی قاعدہ 4 یا 5 کے حوالے سے کوئی رپورٹ اس عدالت کو نہیں بھیجی جارہی ہے اور یہ دستخط کرنے والے کے علم میں آیا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹس کے لیے تقریباً 1500 انکوائریاں زیر التوا ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قواعد 2018 کے سیکشن 4 (12) کے مطابق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جس کے بعد ان کے جواب پر ایک تفصیلی حکم نامہ جاری کیا گیا تھا اور اس کے بعد مزید سختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ رپورٹ مقررہ وقت کے اندر پیش کریں۔
مجسٹریٹ نے لکھا کہ آخری تاریخ پر ایڈیشنل ڈائریکٹر ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوئے تھے اور انہوں نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا اور اس کے ساتھ تحریری درخواست بھی کی تھی کہ انہیں رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید مہلت دی جائے، جس کے بعد ایک ماہ کا وقت دیا گیا تاہم میرے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ آپ ایک بار پھر اس طرح کی مطلوبہ رپورٹ پیش کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مجسٹریٹ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ذاتی طور پر عدالت میں مطلوبہ رپورٹ اور شوکاز تحریری طور پر پیش کریں کہ ان کے خلاف قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کیوں نہ کی جائے۔
عدالتی حکم کی تعمیل میں عمران ریاض حال ہی میں عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ زیر التوا شکایات، انکوائریوں اور تحقیقات کا ڈیٹا مرتب کیا جارہا ہے اور ایک جامع رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: خواتین، بچوں کیخلاف سائبر جرائم پر فیس بک، ایف آئی اے کے ساتھ تعاون کرے گی
تاہم انہوں نے عملے کی کمی کی شکایت کی اور کہا کہ اس وقت صرف 12 تفتیشی افسر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے جج سے استدعا کی کہ انہیں جاری کیا گیا شوکاز نوٹس خارج کیا جائے اور ایک ماہ کا وقت دیا جائے تاکہ وہ اس حوالے سے جامع رپورٹ پیش کر سکیں۔
افسر کی درخواست پر شوکاز نوٹس خارج کرتے ہوئے جج نے انہیں رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔