دوہری شہریت والوں کو بلدیاتی انتخاب لڑنے سے روکا نہیں جاسکتا، پشاور ہائیکورٹ
پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے فیصلہ دیا ہے کہ خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2014 کے تحت دوہری شہریت کے حامل افراد کو بلدیاتی انتخابات لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس وقار احمد اور جسٹس کامران حیات پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے سیکشن 14 کے تحت دوہری شہریت حاصل کرنے والے کسی شخص کو پاکستان کی شہریت سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور ایسا فرد خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن لڑنے کا اہل ہے۔
مزید پڑھیں: ’دوہری شہریت سے متعلق ترمیم سے 20 ہزار سرکاری ملازمین متاثر ہوں گے‘
بینچ نے فیصلہ دیا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کسی شخص کو الیکشن لڑنے یا کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے پر ایکٹ کے تحت قائم کردہ لوکل باڈی کا آفس ہولڈر بننے سے نہیں روکتا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 63 (1) (سی) جو کسی شخص کو کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے پر پارلیمنٹ کا رکن بننے سے روکتا ہے، کا اطلاق مقامی حکومتوں کے انتخابات پر نہیں کیا جاسکتا۔
بینچ نے ملک محمد نواز کی جانب سے ایبٹ آباد کے میئر کے عہدے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سردار شجاع نبی کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر تفصیلی فیصلہ سنایا، جہاں ان کا مؤقف تھا کہ امیدوار پاکستان کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا کی بھی شہریت رکھتے ہیں۔
بینچ نے گزشتہ ماہ درخواست مسترد کر دی تھی اور مدعا علیہ کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی تھی، شجاع نبی نے 31 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں اس نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ججز اور فوجیوں کی دہری شہریت پر پابندی کے مسودہ بل کی منظوری
فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس وقار احمد نے لکھا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لینے والے دوہری شہریت کے حامل افراد کے معاملے پر تفصیل سے بات کی اور پاکستان اور بھارت کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔
بینچ نے درخواست گزار کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کیا کہ آئین کے آرٹیکل 63 کا اطلاق بلدیاتی انتخابات پر ہوتا ہے، اس لیے مدعا علیہ کو منطقی طور پر مقابلے سے باہر کر دیا جائے گا۔
نااہلی کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی
درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی تھی کہ چونکہ لوکل باڈی الیکشن کے سیکشن 78 میں صرف اہلیت بتائی گئی ہے، نااہلی نہیں، اس لیے بلدیاتی انتخابات کے لیے قانون میں موجود خلا کو پُر کرنے کے لیے آرٹیکل 63 کا اطلاق کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت رکھنے والے کی وفاداریاں تقسیم ہوں گی اور انہیں میئر جیسے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
مدعا علیہ سردار شجاع کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ سردار ناصر اسلم خان نے کہا کہ ان کے مؤکل کی دوہری شہریت انہیں بلدیاتی انتخابات لڑنے سے نہیں روک سکتی، کیونکہ لوکل گورنمنٹ الیکشن کے سیکشن 78 میں کسی نااہلی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے استدلال کیا کہ اس طرح کی پابندی کو کسی قانون میں شامل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے خاص طور پر فراہم نہیں کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: 'دوہری شہریت والے پر سینیٹ و قومی اسمبلی کے سوا دیگر عہدے رکھنے پر کوئی قانونی قدغن نہیں'
بینچ نے فیصلہ دیا کہ گو کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کے سیکشن 109 (2) (i) میں دوہری شہریت کے حامل افراد کو الیکشن لڑنے سے روکنے کی شق موجود ہے، خیبر پختونخوا کے قانون میں ایسی کوئی شق موجود نہیں۔
بینچ نے ایک سوال پر یہ بھی کہا کہ کیا غیر ملکی شہریت حاصل کرنے والا شخص اب بھی پاکستان کا شہری رہ سکتا ہے؟
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ اس سلسلے میں پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کا سیکشن 14 ایک معیار مقرر کرتا ہے جس میں ایک عمومی اصول فراہم کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی بیرونی ملک کی شہریت حاصل کرتا ہے، تو وہ پاکستان کی شہریت سے محروم ہو جائے گا لیکن ایسا عام اصول فراہم کرتے ہوئے کچھ استثنیٰ بھی فراہم کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مستثنیات میں سے ایک جو ہماری موجودہ گفتگو کے لیے اہم ہے، وہ یہ ہے کہ ایسے استثنیٰ کا اطلاق کسی ایسے شخص پر نہیں کیا جائے گا جو برطانیہ، اس کی سابقہ کالونیوں یا وفاقی حکومت جیسے دوسرے ملک کا شہری بھی ہو کیونکہ سرکاری گزٹ، نوٹی فکیشن کے ذریعے اس سلسلے میں وضاحت کرتا ہے۔
بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکومت کی طرف سے مطلع کردہ ممالک کی شہریت حاصل کرنے سے کسی شخص سے پاکستانی شہریت نہیں چھیننی چاہیے، لیکن اگر کوئی شخص کسی دوسری ریاست کی شہریت حاصل کرتا ہے جو نوٹیفائیڈ لسٹ میں شامل نہیں ہے تو اسے پاکستان کی شہریت سے محروم کر دینا چاہیے۔