جس طرح قدرت کا یہ کمال ہے کہ ہر فرد کا انگوٹھا اور ڈی این اے ایک دوسرے سے نہیں ملتا، بالکل اسی طرح ہر وجود کی اس کائنات کو دیکھنے کی نظر بھی الگ الگ ہوتی ہے، کسی ایک ہی چیز کو ہر فرد الگ نظر اور الگ سوچ سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کے باوجود گزرے وقتوں نے انسان کے ارتقا میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم جو کروڑوں انسان اس زمین پر بستے ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ مثبت کیا ہے اور منفی کیا ہے۔ یہ بڑا کمال ہے جو انسان کی ارتقا نے ہماری سوچ کی جھولی میں ڈالا ہے۔ ہم کہیں بھی رہتے ہوں، مگر سچ اور جھوٹ کی پرکھ ہم سب میں ایک جیسی ہے اور یہی انسان کی ذہنی ارتقا اور ترقی کا کمال ہے۔
وہ لاکھوں کروڑوں لوگ جنہوں نے ہمارے اس تہذیب یافتہ معاشرے اور ذہنوں کو بُنا وہ بھلے مٹی میں مل گئے ہوں مگر ان کے مثبت خیالات ہمارے پاس کسی نہ کسی شکل اور کیفیت میں موجود ہیں، کہ وقت کی جھولی اتنی وسیع ہے کہ ضائع کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کسی بھی زمانے کے گزرے دنوں کو جاننے کے لیے تاریخ کے اوراق پلٹیں تو الفاظ اور جملے آپ سے کچھ نہیں چھپائیں گے۔ وہ چاہے اس نیت سے لکھے گئے ہوں کہ منفی کو مثبت روپ دے کر تحریر کے دائرے میں لایا گیا ہو مگر وقت کی تیز بارش ان مصنوعی رنگوں کو دھو ڈالتی ہے اور آپ سچ کو پرکھ ہی لیتے ہیں۔
’آپ 4 لوگ ہیں؟ ہاں تو 4 لوگوں کے ہوں گے پورے 120 روپے۔‘
یہ جملہ ہمیں اس وقت سننے کو ملا جب ہم سکھر کے ’لوکس پارک‘ کو دیکھتے ہوئے، مینار روڈ سے ہوتے ہوئے، پُرانی چوڑی بازار کے سامنے گلی میں ایک شاندار دروازے سے اندر داخل ہورہے تھے۔ دروازے پر ’اوقاف سکھر‘ کا بورڈ لٹکا تھا اور اس کو پڑھتے ہوئے ہم میر معصوم بکھری کا مینار اور اس کا گورستان دیکھنے کے لیے اندر داخل ہوئے۔
’کتنے؟‘، میرے ساتھی صدرالدین سامی نے پوچھا۔
’4 ہو؟ ہاں پورے 120 روپے'۔ وہی نپا تلا جملہ سننے کو ملا۔ اتنے میں ایک فیملی آئی۔ وہی جملہ کہ ٹوٹل اتنے ہو تو اتنے پیسے۔
’یہ بڑا قدیم مینار ہے۔ اس کی بنیاد شہنشاہوں کے شہنشاہ اکبر بادشاہ نے رکھی تھی۔ کیا آپ کو پتا ہے؟‘، معلومات کا یہ بیش بہا خزانہ کرسی پر بیٹھے ہوئے آدمی نے ہمارے کانوں تک پہنچایا اور دھیان سے اس نے ہمارے چہروں کا جائزہ لیا کہ اس اہم معلومات کا ہم پر کیا اثر ہوا۔
’صحیح ہے‘، میں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ بابا جی کو پتا چل گیا کہ یہاں کچھ مشکل ہے۔
میں نے سامنے دیوار پر محکمہ اوقاف کا پینافلیکس دیکھا جو بڑی بیمار حالت میں دیوار پر کیلوں کی مدد سے لگا ہوا تھا۔ اس پر ’میر معصوم‘ سے متعلق معلومات تحریر تھیں۔ مطلب بڑا کمال تھا کہ سالِ پیدائش کے سوا ساری معلومات غلط تھیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ مجھے تھوڑا غصہ بھی آیا اور جب میں نے بابا جی کی طرف دیکھا تو وہ فی آدمی 30 روپے کے حساب سے لوگوں سے پیسے لے کر گن رہے تھے اور آنے والے لوگوں تک بے بنیاد باتیں پہنچانے میں مگن تھے اور ان کا ساتھی کسی رکارڈ کی طرح اپنا جملہ دہراتا کہ ’4 ہو؟ ہاں پورے 120 روپے'۔
ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئے جہاں میر معصوم کے مینار کے ساتھ ان کا خاندانی گورستان بھی ہے۔ بڑی شاندار جگہ ہے اگر وہاں بچے چیخ و پکار کرتے دوڑتے نہ پھرتے ہوں تو یقیناً شاندار کے ساتھ پُرسکون بھی ہے۔ 20ویں صدی کی ابتدا میں ہینری کزنس یہاں آیا تھا اور شاید اسی جگہ پر کھڑا ہوا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’سکھر میں سب سے پہلے جس جگہ پر نظر پڑتی ہے وہ معصوم شاہ کا مینار ہے‘۔
تاریخ کے صفحات کی اگر ورق گردانی کریں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ 16ویں صدی میں وقت جو کروٹ لے رہا تھا وہ پاک و ہند، ایران و افغانستان کے لیے کچھ زیادہ ہی اُتھل پُتھل کا زمانہ ثابت ہو رہا تھا۔ 1517ء میں قندھار کے حاکم شاہ بیگ ارغون کو ظہیرالدین بابر نے تخت سے محروم کردیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ایران اور افغانستان کے آپس میں جنگ کے میدان ایسے آباد تھے جیسے سالانہ میلوں میں ویران میدان آباد ہوتے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ میلوں میں سکون و سرور ملتا ہے اور چیزیں بکتی ہیں جبکہ میدان جنگ میں سکون کی فصلیں بارود کی درانتیوں سے کٹتی ہیں اور اپنے بچوں کی روزی روٹی کے لیے آنے والے سپاہیوں کے سر تلوار کی تیز دھار سے کٹتے ہیں، اگر تلوار کی دھار سے بچ گئے تو جسم میں ٹوٹے ہوئے تیروں سے سانس بڑے عذاب کے ساتھ جسم کو چھوڑتی ہے۔
محترم انعام شیخ لکھتے ہیں کہ ’شاہ بیگ نے قندھار سے نکل کر کوئٹہ اور سبی تک اپنے اقتدار کی بساط بچھائی اور ساتھ میں اس کی آنکھیں سندھ پر گڑی ہوئی تھیں۔ آخر 2 جنوری 1520ء بروز پیر افغانیوں کے بڑے لشکر نے سندھ پر حملہ کیا، جنگ میں کامیاب ہوئے اور سندھ کو 3 حکومتی حصوں میں تقسیم کردیا:
1۔ سیہون پر وہ خود حاکم ہوکر بیٹھا۔
2۔ ننگر ٹھٹہ پر جام فیروز کی حکومت تھی اور برائے نام ہی تھی۔
3۔ بکھر کی حاکمیت اس نے اپنے قندھاری دوست میر فاضل کوکلتاش کے حوالے کی۔
'شاہ بیگ ارغون نے 1524ء میں اگست کے گرم تپتے دنوں میں یہ جہان چھوڑا اور اس کے بیٹے شاہ حسن ارغون نے ننگر ٹھٹہ پر قبضہ کرلیا۔ شاہ فیروز نے 3 بار گجرات اور کَچھ کے حکمرانوں کی مدد سے اپنا تخت واپس لینے کے لیے کوششیں کیں مگر ناکام رہا۔ پھر آخری جنگ کی تیاری کے دوران گجرات میں ہمایوں کی فوج کے ہاتھوں 1535ء میں مارا گیا۔
'1554ء میں شاہ حسن دریائے سندھ میں کشتی پر تیرتے مرگیا، اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس وقت امیر محمود کوکلتاش جو شاہ حسن کا دودھ شریک بھائی تھا وہ شاہ حسن کے ٹھنڈے جسم کے پیروں میں کھڑا تھا۔ اسے اپنی حکومت کا تخت ڈولتا نظر آیا اس لیے وہ اس جلدی میں تھا کہ شاہ حسن کی لاش فی الوقت ننگر ٹھٹہ میں دفن کردی جائے تاکہ وہ بکھر جلدی سے پہنچ سکے۔ دوسری طرف ارغونوں کے افغانی عزیزوں ترخانوں میں سے مرزا عیسیٰ خان اوّل ننگر کے تخت پر بیٹھا۔ اس سیاسی منظرنامے میں ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنا بادشاہ کی بہادری کی نشانی سمجھا جاتا تھا تو مرزا عیسیٰ لشکر لے کر سکھر کی طرف چل دیا۔‘
اسی زمانے میں، سکھر میں رہنے والے سید میر کلاں سبزواری جو میر معصوم بکھری کے نانا تھے، ان کی کوششوں سے محمود کوکلتاش اور مرزا عیسیٰ اوّل میں معاہدہ ہوا۔ سید حسام الدین راشدی لکھتے ہیں کہ ’میر کلاں کی اس کوشش اور اس معاہدے کی وجہ سے سندھ زیادہ کشت و خون سے بچ گئی'۔
شاہ بیگ جب سندھ کا حاکم بنا تو افغانستان سے ترمذی اور سبزواری ساداتوں کے بہت سارے خاندانوں نے سندھ کا رُخ کیا۔ جب میر معصوم کے والد سید میر صفائی سکھر پہنچے تو بکھر کے حاکم محمود کوکلتاش نے اس کو بڑی تعظیم دی۔ راشدی صاحب لکھتے ہیں کہ ’قندھار میں اقتدار والے زمانے میں محمود کوکلتاش کا باپ میر فاضل کوکلتاش بابا حسن ابدال کا معتقد بنا جو سید صفائی کا بڑا تھا اور قندھار میں بابا حسن ابدال کے مزار پر کتبہ بھی محمود کوکلتاش نے لگایا تھا۔‘
میر معصوم بکھری کی ولادت 7 فروری 1538ء بروز جمعرات بکھر میں ہوئی۔ دادا کے حوالے سے وہ ترمذی حسینی تھے اور نانا کے حوالے سے سبزواری موسوی سید تھے۔ موسوی سید زیادہ تر بکھر اور سیہون میں آکر آباد ہوئے۔ ان زمانوں میں یہ دونوں سندھ کے اقتدار کے اہم شہر تھے۔ میر معصوم ڈھائی برس کا تھا تو ہمایوں لاہور سے بھاگتا سندھ آیا اور پاٹ کے مقام پر 1541ء میں حمیدہ بانو بیگم سے شادی کی، گجرات سے ناکام ہوکر عمرکوٹ آیا جہاں 15 اکتوبر 1542ء میں اکبر پیدا ہوا اور جب 10 جون 1543ء اتوار کے دن شاہ حسن سے معاہدہ کرکے وہ فتح باغ سے روانہ ہوا تو اکبر کی عمر 2 سال کے قریب تھی۔
دونوں میں 5 برس کا فرق تھا۔ میر معصوم بڑا اور اکبر عمر کے حوالے سے چھوٹا تھا، مگر ایک فرق تھا جس کو شاید وقت کبھی پاٹ نہ سکا، اور وہ یہ کہ ایک بادشاہ کا چشم و چراغ تھا اور دوسرا اس کا ملازم تھا۔
راشدی صاحب کی تحقیق کے مطابق ’اس کا نام محمد معصوم رکھا گیا، البتہ ہندوستانی دستور کے مطابق نام کے ساتھ ’میر‘ لفظ کا الحاق ہوا، البتہ ’امین الملک‘ کا خطاب ہمیں اس تحریر میں نظر آتا ہے جب 1012ھ میں ایک سفیر کی حیثیت اکبر اسے ایران بھیجتا ہے۔ میر معصوم کے فرزند میر بزرگ نے اپنے والد محترم کے لیے ’نواب‘ اور ’امیر‘ کے لفظ احتراماً استعمال کیے ہیں'۔
میر معصوم کی ابتدائی تعلیم کے متعلق 4 نام تاریخ کے صفحات میں ملتے ہیں جن کے پاس اس نے تعلیم حاصل کی۔ ان میں ملا محمد (کنگری)، قاضی ڈتو (سیوھانی)، شیخ حمید (دربیلائی) اور مخدوم عثمان (دربیلائی) شامل ہیں۔
جن دنوں یعنی 1569ء میں، سید صفائی نے بکھر میں شیخ الاسلامی کا منصب سنبھالا تب ننگر ٹھٹہ میں مرزا باقی بیگ (973ھ سے 993ھ حکومت) کی حکومت تھی۔ سلطان محمود بکھری نے 1574ء میں یہ جہان چھوڑا اور میر معصوم کے والد، میر صفائی نے 1583ء میں اس بے وفا دنیا کو الوداع کہا۔ میر کے اکبر کے دربار سے منسلک ہونے کے برسوں کے متعلق ہمارے پاس یقینی معلومات کی کمی ہے۔
تحفتہ الکرام کے موجب’میر معصوم نے پہلے سلطان محمود جو بکھر کے والی تھے وہاں اپنی جگہ بنائی اور اس کے بعد اس نے دربار اکبری میں مرتبہ حاصل کیا۔‘ جبکہ راشدی صاحب کا خیال ہے کہ ’میر معصوم نے 1557ء میں بکھر کو چھوڑا کہ وہ اکبر کی دربار سے وابستہ ہوسکیں'۔
جیسے ہم ماننے لگتے ہیں کہ اسی برس میر نے بکھر چھوڑا تھا بالکل اسی پل تاریخ کے صفحات کچھ اور شک و شبہات کی چڑیاں ذہن کے آسمان پر اڑاتے ہیں۔ مثلاً کچھ کہتے ہیں کہ میر معصوم غریب تھے اور اس کے لیے پہلے اپنے دوست شیخ اسحٰق کے پاس گجرات گئے، انہوں نے طبقات اکبری کے مورخ، خواجہ نظام الدین ہروی کا میر معصوم کو حوالہ دیا۔ لیکن سال اس بات کی تصدیق نہیں کرتے۔ البتہ ایک اور بیان یہ ہے کہ ’1557ء تک میر معصوم دہلی دربار سے منسلک ہوچکے تھے اور 1576ء تک ان کا نام ایک اہم سپہ سالار کی حیثیت سے طبقات اکبری میں نظر آتا ہے۔ اور یہ بھی کہ وہ سندھ سے گجرات نہیں بلکہ سندھ سے سیدھا آگرہ گئے تھے۔
راشدی صاحب لکھتے ہیں کہ ’میر معصوم متقی، پرہیزگار، نماز اور تلاوت کے پابند تھے اور اپنے حاصل کیے ہوئے علم پر انہیں بڑا اعتماد تھا۔ ملے ہوئے منصب کے سارے مرحلے اصولوں کے مطابق طے کیے اور اپنا نام نروار کیا۔ انہوں نے مختلف معرکوں میں کامیابی حاصل کرکے اس زمانے کے نامور سپہ سالاروں میں جگہ بنائی جن میں آصف خان شانی، خان اعظم کوکو، شہاب الدین احمد خان، اعتماد الدولہ اور عبدالرحیم خان خاناں اہم تھے۔ میر معصوم جن مشہور جنگوں میں شامل رہے ان میں ایدر (ایدر پرگنہ احمد آباد گجرات سے 45 میل مشرق میں ہے جہاں ایک قلعہ موجود تھا) کی جنگ (1576ء)، بہار اور بنگال کی جنگیں (1580ء) اور گجرات کی جنگ (1583ء) شامل ہیں۔
گجرات کی جنگ کے بعد میر معصوم وہاں 8 برس رہے۔ اس دوران طبقات اکبری کے مصنف بھی گجرات آئے اور یہ بات ممکنات کے دائرے میں آتی ہے کہ طبقات اکبری میں، سندھ کے حاکموں کے احوال کا جو باب ہے اسے تحریر کرنے والے میر معصوم ہوں اور اسی ماحول میں رہتے ہوئے انہوں نے تاریخ معصومی تحریر کرنے کا خاکہ تیار کیا ہو۔ تاریخ معصومی چچ نامہ کے بعد سندھ کی تاریخ کے حوالے سے قدیم تاریخ کا درجہ رکھتی ہے۔ ممکن ہے کہ تاریخ معصومی بھی اسی زمانے میں یعنی ان 8 برس میں تحریر کے قالب میں ڈھلی ہو۔
ہم تحریر کی ابتدا میں یہ ذکر کرچکے ہیں کہ ٹھٹہ اور بکھر ہمیشہ ایک دوسرے پر حکومت کرنے کے لیے تیار رہتے تھے اور اکثر ان دونوں کی جنگ کے میدان کی جگہ سیہون رہتا تھا، کیونکہ سیہون سے شمال میں شمالی سندھ کی حکومت کی ابتدا ہوتی اور وہاں سے جنوب میں جنوبی حکومت کی ابتدا ہوتی تھی، سیہون جنوبی سندھ کے حصے میں آتا تھا۔ شمالی سندھ یعنی بکھر کے حکمران اپنا واسطہ مرکز (دھلی، آگرہ، لاہور) سے بنائے رکھتے جبکہ جنوبی سندھ یعنی ننگر ٹھٹہ کے ترخان حکمرانوں نے اپنے رشتے ناطے مقامی قبیلوں سے رکھے۔
راشدی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ’انہوں نے سمیجہ اور سوڈھوں میں سے شادیاں کیں اور اپنے رہنے کے لیے ایک بہتر ماحول بنالیا اور سندھیوں کی ایک مضبوط فوج تیار کرلی۔ اسی طرح فوجی قوت کے حوالے سے مرزا جانی بیگ ترخان سندھ کا طاقتور حاکم تھا اور دہلی سلطنت کو یہ حقیقت یقیناً اچھی نہیں لگتی ہوگی'۔
اکبر جب لاہور آیا اور مرزا جانی بیگ نے وہاں بادشاہ کو تحائف تو بھیجے مگر خود نہیں گیا، اس عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اکبر نے عبدالرحیم خان خاناں کو ننگر ٹھٹہ فتح کرنے کا حکم دے دیا۔ انہی دنوں میر معصوم گجرات سے لاہور آ پہنچے تھے۔ میر معصوم نے اکبر بادشاہ کو وہ تحفے پیش کیے جو میر معصوم کی والدہ نے بھیجے تھے۔ تحفے بادشاہ کو بہت پسند آئے اور میر معصوم سے پوچھا کہ ’والدہ سے دُور رہتے ہوئے کتنے برس ہوئے ہیں؟‘ جواب میں میر معصوم نے کہا کہ ’20 برس ہوگئے ہوں گے۔‘
اکبر نے میر معصوم کو ماں سے ملنے کی اجازت دی اور ساتھ میں بکھر سرکار سے دربیلو، کاکڑی (گاگڑی) اور چانڈوکی کے علاقے جاگیر کے طور پر دیے۔ میر، خان خاناں کے جنگی لشکر کے ساتھ سندھ کے لیے روانہ ہوا۔ میر صاحب تاریخ معصومی میں تحریر کرتے ہیں کہ ’جاگیر مقرر ہونے کے بعد حضرت نے بندہ پروری فرمائی اور کشتی تک آئے اور اپنی خاص پوستین سے سرفراز کیا اور رخصت کیا'۔
اسی طرح 12 دسمبر 1590ء بروز بدھ میر صاحب بکھر پہنچے۔ کچھ دنوں کے آرام کے بعد وہ ہمیں خان خاناں کے لشکر کے ساتھ نظر آتے ہیں جو جنوبی سندھ کو فتح کرنے کے لیے نکلا تھا۔ کیونکہ اس جنگ کی ابتدا سے اختتام تک وہ اس لشکر کے ساتھ تھے اس لیے تاریخ معصومی میں انہوں نے جو تحریر کیا وہ ان کی آنکھوں دیکھا تھا اس لیے ہم اس کو مستند مان سکتے ہیں۔ یہ طویل جنگ جو اندازاً 18 ماہ تک چلی، اس میں مرزا جانی بیگ اور اس کی فوجیں بڑی بہادری سے لڑیں۔ آخر گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی اور مرزا جانی بیگ کے اپنے مدارالمھام (ایک عہدہ تھا جس کی حکومت میں حیثیت ایک نائب وزیرِاعظم کی ہوتی تھی) سے گورئے مہتو اور دوسروں نے غداری کی جس کی وجہ سے صلح کرنی پڑی اور اسی طرح جانی بیگ 1593ء میں دہلی دربار پہنچا۔ تاریخ معصومی بھی اس جنگ کے خاتمے کے بعد اختتام کو پہنچتی ہے۔
اس جنگ سے فارغ ہوکر جب خان خاناں، مرزا جانی بیگ کو لے کر دربار روانہ ہوئے تو میر صاحب کو بادشاہ سے ملی ہوئی چھٹی کا عرصہ شروع ہوا۔ بکھر میں رہ کر انہوں نے اپنے ذاتی کام کیے اور جاگیر کی طرف دھیان دیا۔ راشدی صاحب لکھتے ہیں کہ ’میر معصوم پُرفضا مقامات پر رفاحی عمارات اور تعمیرات کا بہت شوق رکھتا تھا، ساتھ میں اس کو یہ بھی شوق تھا کہ، وہ جہاں سے گزرے وہاں یادگار بناتا اور مقامات پر کتبے لگاتا جائے۔ یہ انوکھی اور شاندار روایت تھی جو ان دنوں ہمیں کسی مغل حاکم میں نظر نہیں آتی۔۔۔‘
میر معصوم اندازاً 1591ء سے 1593ء تک بکھر میں رہے۔ وہ یقیناً ہاتھ کے کھلے، متحرک اور شاہ خرچ تھے، ان برسوں میں انہوں نے بہت ساری عمارات اور یادگاروں کی بنیاد رکھی۔ راشدی صاحب کے مطابق اس زمانے میں جو تعمیرات کا سلسلہ میر صاحب نے شروع کیا وہ کچھ اس طرح تھا
- چھتری: والد کی قبر پر چوکنڈی اور چھتری، جس کی تاریخ ’عمارت سر کوہ‘ سے 1002ھ ، 1594ء نکلتی ہے۔
- عیدگاہ: روہڑی کی ایک پہاڑی پر عیدگاہ جو 1594ء میں بنی۔
- مینار: اپنے خاندانی گورستان میں اسی برس یعنی 1594ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی جو 1013ھ یعنی 1604ء میں مکمل ہوا۔ مینار کی بنیاد 84 فٹ تک ہے اور سیڑھیاں بھی 84 ہیں۔ مینار کی شاندار اینٹوں کی چونے اور چرولی (جپسم) سے چُنائی کی گئی ہے۔ مینارے کے دروازے پر کتبہ لگا ہوا ہے جس سے تعمیر کا برس 1002ھ اور اختتام کا برس 1013ھ ملتا ہے۔ میر معصوم جب ایران سے لوٹے تو اسی برس اس مینار کا کام بھی مکمل ہوا۔
- گورستان: اسی احاطے میں خاندانی گورستان کی تعمیر کے لیے میر صاحب نے ایک خوبصورت نقشہ بنوایا جس کے تحت اپنے والد، بھائی اور اپنی قبروں کے اوپر چھتری (چھتری کا ذکر آچکا ہے) بنوائی اور ان پر پتھروں پر انتہائی شاندار سنگ تراشی کا کام کروایا اور ساتھ میں گنبدوں پر قرآنی آیات کو بھی انتہائی شاندار خط سے تراشا گیا ہے۔ ان گنبدوں کے نیچے دونوں طرف سے تیسرے نمبر کی قبر میر معصوم کی ہے۔
- آرامگاہ فیض محل: مینار کے ساتھ 1596ء میں تعمیر ہوئی۔
- منزل گاہ: اسی احاطے میں 1598ء میں بنی۔
اس کے علاوہ بہت ساری تعمیرات ہیں جس کا اس مختصر تحریر میں احاطہ کرنا مشکل ہے۔ ہم میر معصوم کے ایران کے سفر (1602 سے 1605ء تک) جہاں وہ ایک سفیر کی حیثیت اور امین الملک کا خطاب دے کر بھیجا گیا تھا، اس سفر کا ذکر طوالت کی وجہ سے فی الوقت نہیں کر رہے مگر اس وعدے کے ساتھ کہ میر معصوم کا یہ سفر ہم ان کے ساتھ ضرور کریں گے۔
میر معصوم جب واپس آگرے پہنچے تھے تو اکبر بادشاہ اپنی اولاد کے دیے ہوئے زخموں کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے، خاص کر اپنے ساتھی ابوالفضل کے قتل کی وجہ سے جنہیں 22 اگست 1602ء میں، شہزادے سلیم (جہانگیر) کے اشارے پر نرسنگ راء بندیلہ نے قتل کیا تھا۔
اکبر اپنی حکومت کا 50واں سال مکمل نہ کرسکا اور 17 اکتوبر 1605ء میں اس جہان سے آنکھیں موند لیں۔ اکبر کے جانے کے بعد میر معصوم 7، 8 ماہ آگرے میں رہے۔ ان دنوں کی جو کیفیت ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ عرصہ انہوں نے بڑی تکلیف اور دکھ میں گزارے ہوں گے۔
جنوری 1606ء میں انہوں نے آگرے کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا اور جے پور کے راستے اپنی جاگیر سے ہوتے ہوئے بکھر پہنچے۔ وہ گھر پہنچنے کے کچھ دنوں بعد بیمار پڑے اور 2 ماہ تک نقاہت اور بیماری کے سبب بستر پر رہے۔ انہوں نے 14 اپریل 1606ء میں جمعہ کے روز اس دنیا سے آنکھیں موند لیں۔
اکبر، میر معصوم کے چند برس بعد اس دنیا میں آئے اور میر معصوم سے پہلے چلے گئے، میر معصوم پہلے آئے تھے اور بعد میں گئے کہ حیات کا یہی چلن ہے۔ سب یہاں رہ جاتا ہے۔ آپ کے اعمال آپ کو زندہ رکھتے ہیں۔ میں مینار کی چوٹی کو دیکھتا ہوں جہاں کچھ مرد اور عورتیں نظر آتی ہیں۔ میری یہ تمنا ہے کہ میں بھی 85 سیڑھیاں چڑھ کر مینار کی آخری حد تک جاؤں اور وہاں سے میر معصوم کے سکھر شہر کو دیکھوں، سندھو ندی کے مختلف بہاؤ دیکھوں جو اس شہر کے چاروں طرف ان بازوؤں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں جیسے بچے کو سنبھالنے کے لیے ماں کی بانہیں ہوتی ہیں۔
یہ سب اوپر سے کتنا خوبصورت اور شاندار لگتا ہوگا۔ مگر بہت ساری تمنائیں ہیں جو تاحیات ان پیاسے پرندوں کی طرح آپ کے دل کے آسمان پر اڑتی رہتی ہیں جن کو کبھی پانی کی ایک بوند نصیب نہیں ہوتی۔ میں جس عمر میں ہوں اس عمر میں 85 سیڑھیاں نہ میرے جوڑ برداشت کرسکتے ہیں اور شاید دل پر بھی مجھے اتنا یقین نہیں ہے۔ کہیں بیچ میں اٹک گیا تو نہ یہاں کے رہیں گے نہ وہاں کے اس لیے کچھ تمنائیں پیاسی ہی اچھی۔
واپسی پر میں نے سوچا کہ اس بوڑھے بابا سے پوچھوں جو بڑے انہماک سے سارے دن کے اکٹھے کیے ہوئے پیسے بڑی چاہت سے گن رہا تھا کہ جب میر صاحب 1014ھ میں انتقال کرگئے تھے تو 1015ھ میں سندھ کے گورنر کیسے بنے؟ مگر میں نے نہیں پوچھا اور اس کو پیسے گنتے دکھی نظروں سے دیکھا کہ میں بس یہی کرسکتا تھا۔۔۔!
حوالہ جات:
۔ ’میر محمد معصوم بکھری‘۔ سید حسم الدین راشدی۔ 2005ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
۔ ’تاریخ معصومی‘ ۔ میر محمد معصوم بکھری۔ 2006ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
۔ ’سندھ جا قدیم آثار‘ ۔ ھینری کزنس ۔ 2004ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
۔ ’نگری نگری پھرا مسافر‘۔ ابوبکر شیخ ۔ 2018ء ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
۔ ’تحفتہ الکرام‘۔ میر علی شیر ’قانع‘۔2004ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں