سری لنکا کی ابتر صورتحال میں امریکا کا کتنا ہاتھ ہے؟
معاشی بحران نے سری لنکا میں امیر اور غریب دونوں طبقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ عوام سڑکوں پر ہیں اور اقتدار میں موجود راجاپاکسے خاندان سے اقتدار اور سیاست چھوڑنے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ کولمبو میں عوامی تاثرات جو دنیا بھر کے میڈیا میں رپورٹ ہوئے ان کی ایک جھلک کچھ یوں ہے۔
ایک خاتون کا کہنا تھا کہ 'پورا ملک تباہ ہوچکا ہے، کتے بھی ہم سے بہتر زندگی جی رہے ہیں، سب کچھ مہنگا ہے، گھر چلانا ناممکن ہوگیا ہے'۔ 3 بچوں کی ماں نے ایک رپورٹر سے کہا، 'سب کچھ تباہ ہوچکا ہے، ہم کیسے زندگی گزاریں گے؟'
ایک ملازمت پیشہ شخص جو پیٹرول کی عدم دستیابی، 13 گھنٹے بجلی کی بندش اور اشیائے ضروریہ کی ناقابلِ برداشت قیمتوں سے گھبرا چکا ہے، اس نے ایک رپورٹر کو کہا کہ 'اب تو میں زندگی سے ہی تھک گیا ہوں'۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کہا کہ 'ہم ہفتے میں 2 یا 3 بار مرغی کا گوشت کھاتے تھے لیکن اب خشک مچھلی اور چاول پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے'۔
سری لنکا میں کھانے پینے کی اشیا کے دام 30 فیصد سے بھی زائد تک بڑھ چکے ہیں۔ پچھلے سال مارچ میں ایک ناریل کی قیمت 50 سری لنکن روپے تھی جو اس سال مارچ میں 91 روپے سے بھی زیادہ ہے، پیاز 79 روپے کلو تھا جو 158 روپے سے بھی بڑھ گئی ہے، ایک انڈہ تقریباً 19 روپے کا تھا جو اب 28 روپے کا ہوچکا ہے، خشک مچھلی 613 روپے کلو تھی جو اب 850 سے بھی بڑھ گئی ہے۔ مرغی کا گوشت 445 روپے کلو تھا جو اب 690 سے بھی بڑھ گیا ہے، بیف 980 روپے فی کلو سے بڑھ کر 1455 سے بھی بڑھ گیا ہے۔ 105 روپے فی کلو ملنے والے ٹماٹر اب 310 میں بھی دستیاب نہیں۔
سری لنکا کی حکومت نے 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض پر ڈیفالٹ کا اعلان کردیا ہے اور قسطوں اور سود کی ادائیگی روک دی ہے۔ ان حالات کو پاکستان میں کچھ لوگ سری لنکا کی خارجہ پالیسی سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس خیال کی بنیاد امریکی مطالبات کو تسلیم نہ کرنا بتایا جاتا ہے۔ سری لنکا اس معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں سیاسی بحران تک کیسے پہنچا اس کو کھوجنے کی کوشش کی تو پاکستان میں پائے جانے والے اس مفروضے کی کوئی بنیاد سامنے نہ آئی۔
تو آخر سری لنکا اس حال کو کیسے پہنچا؟ سری لنکا 1948ء میں آزاد ملک بنا، تاملوں کی بغاوت کے دوران بھی سری لنکا میں ایسی معاشی تباہی نہیں ہوئی تو پھر اب کیا ہوا؟
نومبر 2019ء میں گوٹابایا راجا پاکسے نے صدارتی انتخابات جیتنے کے فوری بعد اور پارلیمانی انتخابات سے چند ماہ پہلے اپنی کابینہ کو طلب کرکے پارلیمانی انتخابات کے لیے سب سے بڑا منشور دیا جو ٹیکسوں میں غیر معمولی کمی کے حوالے سے تھا۔ گوٹابایا راجاپاکسے نے ٹیکس تقریباً نصف کرنے کا وعدہ کیا اور سینٹرل بینک کو اعتماد میں ہی نہ لیا۔
ستمبر 2020ء تک سری لنکن سینٹرل بینک کے سینیئر ڈپٹی گورنر رہنے والے پی نندا لال ویرا سنگھے کا کہنا ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے فوری بعد ویلیو ایڈڈ ٹیکس میں کمی نے ہمیں حیران کردیا۔ اس فیصلے کے لیے کسی قسم کا کوئی مشاورتی عمل بھی نہیں کیا گیا۔
ٹیکسوں میں 50 فیصد کمی کے فیصلے کے پیچھے ایک سادہ سی دلیل تھی کہ 2009ء میں خانہ جنگی کے خاتمہ کے بعد بھی ایسے ہی فیصلے نے ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا تھا۔ فیصلہ سازوں کو آنے والی مصیبت کا اندازہ نہیں تھا اسی لیے اس وعدے پر عمل کر بیٹھے۔ پھر کورونا آگیا اور سیاحت پر انحصار کرنے والی سری لنکن معیشت کورونا کی پابندیوں کو جھیلنے کے قابل ہی نہ رہی۔
آمدن کم تھی اور اخراجات زیادہ، ٹیکس پہلے ہی نصف کردیے گئے تھے اس طرح 2019ء کا ڈیٹ منیجمنٹ پروگرام دھرا کا دھرا رہ گیا جس کا تمام تر انحصار مالیاتی خسارہ کم کرنے پر تھا۔
ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر 70 فیصد کمی کے ساتھ 2 برسوں میں 2 ارب 36 کروڑ ڈالر تک آگئے اور 2022ء میں قرضوں کی قسطیں جو ادا کی جانا ہیں وہ 4 ارب ڈالر ہیں۔ آخری اطلاعات تک یہ ذخائر اب کم ہوکر ایک ارب ڈالر سے بھی نیچے آچکے ہیں اور سری لنکن حکومت نے غیرملکی قرضوں کی ادائیگی سے معذوری ظاہر کردی ہے۔
سری لنکن معیشت پر دوسرا بڑا وار یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل کی بڑھتی قیمتوں نے کیا، یوں سری لنکن کا تیل درآمد کا بل بڑھ گیا اورخسارہ قابو سے باہر ہوگیا۔ اب حالت یہ ہے کہ عوام تیل کے لیے پیٹرول اسٹیشنوں پر لمبی قطاریں بنائے کھڑے رہتے ہیں لیکن تیل نہیں ملتا۔ بجلی کی پیداوار کم ہوگئی ہے اور دن میں چند گھنٹے ہی بجلی میسر ہے۔
عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے سری لنکا کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے 2020ء میں ریٹنگ اس قدر کم کردی کہ سری لنکا کے لیے بین الاقوامی مالیاتی مارکیٹوں اور آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ناممکن ہوگیا۔ سری لنکن حکومت کوئی بہتر معاشی پلان بھی تیار نہ کرسکی جس کی بنیاد پر آئی ایم ایف کو مدد کے لیے رضامند کیا جاسکتا۔
2021ء کا بجٹ بین الاقوامی اداروں کے لیے ناقابلِ قبول تھا اور اس بجٹ کی بنیاد پر قرضوں کی ریکوری ناممکن تھی۔ بجٹ کورونا کے اثرات سے بحالی اور 5.5 فیصد شرح ترقی کے مفروضے پر بنایا گیا تھا لیکن کورونا کی ڈیلٹا قسم نے اس بحالی کی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا اور ملک بھر میں لگنے والے مکمل لاک ڈاؤن نے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کردیا۔ دسمبر 2021ء میں تجارتی خسارہ 6 ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر 8 ارب 10 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔ بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر بھی 22.7 فیصد کم ہوکر ساڑھے 5 ارب ڈالر رہ گئیں۔
اب راجاپاکسے برادران کی حکومت نے کرنسی کے تبادلے اور قرض کے لیے بھارت سے ایک ارب 90 کروڑ ڈالر کا معاہدہ کیا ہے جبکہ پاکستان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھی معاشی مدد پر بات چیت جاری ہے۔ پچھلے سال جولائی سے صدر اور وزیرِاعظم کے ایک اور بھائی باسل راجاپاکسے وزیرِ خزانہ کے عہدے پر نمودار ہوئے اور وہ اب تک صرف بڑے بڑے دعوؤں میں مصروف ہیں۔
اس سال کے آغاز پر ہی اپوزیشن نے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے مطالبات کیے لیکن راجاپاکسے برادران کی حکومت نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے دوسرے راستے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ یوکرین جنگ شروع ہوئی تو تیل کی قیمتوں نے آسمان چُھو لیا اور راجاپاکسے برادران آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے۔
آئی ایم ایف سے رجوع کرنے سے پہلے سری لنکا نے تیزی سے اپنی کرنسی کی قدر کم کی جس سے افراطِ زر اور مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دیں۔ سری لنکا نے چین اور بھارت سے تیل کی خریداری کے لیے مدد مانگی، بھارت نے 50 کروڑ ڈالر مالیت کا ڈیزل ادھار دینے کا معاہدہ کیا۔ اشیائے ضروریہ کے لیے ایک ارب ڈالر کا الگ معاہدہ ہوا۔ اب راجاپاکسے حکومت بھارت سے مزید ایک ارب ڈالر کی مدد چاہتی ہے۔ چین بھی سری لنکن حکومت کو ایک ارب 50 کروڑ ڈالر قرض کی پیشکش کرچکا ہے جبکہ مزید ایک ارب ڈالر پر بات ہو رہی ہے۔
سری لنکا کی حکومتیں عشروں سے سرکاری اخراجات کے لیے بھی قرضے لے رہی تھیں اور قرضوں کا انتظام نہیں ہو پارہا تھا۔ قرضوں کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات اور دہشتگردی نے مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ حکومت نے کیمیکل فرٹیلائزر پر پابندی لگا کر کسانوں اور زراعت کا بھی بیڑہ غرق کیا۔
اس معاشی بحران میں اب حالت یہ ہے کہ چھوٹے تاجر کاروبار بند کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اپنی دکانوں میں ریفریجریٹر، ایئرکنڈیشنر اور پنکھے بھی چلانے کے قابل نہیں رہے۔ پیٹرول اسٹیشنوں پر لمبی قطاروں اور ہجوم کو قابو میں رکھنے کے لیے فوج کھڑی ہے، قطاروں میں تیل اور اشیائے ضروریہ لینے کے لیے کھڑے کئی افراد دم توڑ گئے، ٹیکسی ڈرائیوروں کا کاروبار بند ہے، امن قائم رکھنے کے لیے کرفیو تک لگانا پڑا ہے، اور سوشل میڈیا پر بھی مکمل بلیک آؤٹ ہے۔
یوکرین جنگ کی وجہ سے مہنگے تیل نے سری لنکن معیشت پر تو بوجھ ڈالا ہی لیکن اس کے ساتھ اسی جنگ کی وجہ سے سری لنکن سیاحت بھی متاثر ہوئی۔ روس اور یوکرین کے شہری سری لنکا آنے والے غیر ملکیوں میں نمایاں ہیں۔ اس سال کے پہلے 2 ماہ میں روس سے 28 ہزار سیاح سری لنکا آئے جبکہ یوکرین سے آنے والوں کی تعداد 13 ہزار سے زیادہ تھی۔ جنگ کے بعد سیاحوں کی آمد رک گئی بلکہ ابھی تک کئی یوکرینی شہری سری لنکا میں پھنسے ہوئے ہیں۔
یوکرین جنگ نے سری لنکا کی چائے کی تجارت کو بھی متاثر کیا ہے۔ روس، سری لنکن چائے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ روس پر پابندیوں کی وجہ سے اس کی کرنسی مشکلات کا شکار ہے اور روس ڈالر میں ادائیگی نہیں کرسکتا۔
اس تمام صورتحال میں نہ تو امریکا کا کوئی ہاتھ ہے نہ راجاپاکسے برادران نے امریکی سازش کا واویلا کیا ہے۔ سڑکوں پر روز ہونے والے مظاہروں میں بھی امریکا مخالف نعرے سنائی نہیں دیتے۔
تبصرے (1) بند ہیں