حکومت میں تبدیلی کے ساتھ ہی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ برطرف
شہباز شریف کی نئی حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے سربراہ بابر بخت قریشی کو ہٹا دیا ہے جو احتساب عدالت کے جج کے ویڈیو اسکینڈل کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف منی لانڈرنگ کیسز کی تحقیقات سے منسلک تھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بابر بخت قریشی کی برطرفی ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب دو دیگر افسران ایف آئی اے لاہور کے سربراہ محمد رضوان اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل گوہر نفیس کے نام نو فلائی لسٹ میں ڈالے جا چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایف آئی اے کو سائبر کرائم قانون کا غلط استعمال روکنے کی ہدایت
ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ چونکہ تحقیقاتی ایجنسیوں (ایف آئی اے، نیب، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ) میں تبدیلی لانا نئی مخلوط حکومت کے اہم اہداف میں سے ایک ہے، اس لیے مزید برطرفیاں/تبادلے کیے جارہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق اس وقت داخلہ ڈویژن کے تحت ایف آئی اے میں خدمات انجام دے رہے پولیس سروس آف پاکستان کے بی پی ایس-20 کے افسر بابر قریشی کا تبادلہ کر دیا گیا ہے اور انہیں فوری طور پر اور تاحکم ثانی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کے سربراہ کے طور پر کام کرتے ہوئے بابر بخت قریشی نے اومنی گروپ کی تحقیقات کیں، پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنس تیار کیے اور سابق صدر آصف علی زرداری کی زرعی جائیدادوں کی بھی چھان بین کی، وہ ایم کیو ایم کی قیادت کے خلاف اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔
سائبر کرائم ونگ کے سربراہ کے طور پر انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی سابق سینیٹر پرویز رشید سمیت مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی 'خفیہ طور پر ریکارڈ شدہ' ویڈیو کے معاملے میں پوچھ گچھ کی تھی جسے میڈیا کو مریم نواز نے فراہم کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے سائبر جرائم میں ملوث 20 افراد کو گرفتار کرلیا
بابر بخت قریشی کی زیر نگرانی ایف آئی اے نے صحافی حامد میر کے بھائی عامر میر کو بھی مبینہ طور پر ’فوج، عدلیہ اور خواتین کے خلاف‘ مواد اپنے یوٹیوب چینلز پر اپ لوڈ کرنے اور صحافی محسن بیگ کو بھی سابق وزیر مواصلات مراد سعید کی شکایت پر حراست میں لیا تھا جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ محسن بیگ نے ایک ٹی وی شو کے دوران میری ساکھ کو داغدار کیا۔
دوسری جانب شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد طویل رخصت پر جانے کے باوجود ایف آئی اے لاہور کے سربراہ محمد رضوان کا نام نو فلائی لسٹ میں شامل کردیا گیا ہے، جو مسلم لیگ (ن) کے صدر اور ان کے بیٹے حمزہ کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات کی تحقیقات کر رہے تھے۔
اس سے قبل شہباز شریف نے محمد رضوان کے سامنے اپنی پیشی کے دوران شکایت کی تھی کہ مؤخر الذکر نے میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، چونکہ محمد رضوان نے جہانگیر خان ترین کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات اور شوگر اسکینڈل میں دو میڈیا ہاؤسز کے خلاف بھی تحقیقات کی تھیں، اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی نظروں میں اچھے نہیں سمجھے جاتے۔
اسی طرح خواجہ آصف اور ان کے خاندان کے افراد سمیت مسلم لیگ (ن) کے تقریباً تین درجن رہنماؤں اور عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی وجہ سے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے سابق سربراہ گوہر نفیس نئی حکومت کے ریڈار پر ہیں، گوہر نفیس کے ماتحت اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے زمینوں پر قبضے کے مقدمات میں مسلم لیگ (ن) کے کھوکھر برادران پر بھی ہاتھ ڈالے تھے جنہیں مریم نواز کے بہت قریب تصور کیا جاتا تھا۔
اداروں کے خلاف مہم میں مزید گرفتار
دریں اثنا ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے بدھ کے روز پنجاب میں مزید 4 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا جو سابق وزیراعظم عمران خان کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرفی کے بعد سے ریاستی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہتک آمیز مہم میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔
اگرچہ ایجنسی نے آن لائن تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے والوں کو کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں کیا لیکن پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر نے کہا تھا کہ پارٹی اپنے سوشل میڈیا کارکنوں کو ہراساں کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گی۔
مزید پڑھیں: ’سال 2021 میں سائبر جرائم کی ایک لاکھ سے زائد شکایات رپورٹ ہوئیں‘
منگل کو ایف آئی اے نے پنجاب کے مختلف علاقوں سے 8 ملزمان کو گرفتار کیا تھا، تاہم ان میں سے صرف ایک کو بدھ کے روز لاہور کی عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے ملزم کو دو دن کے لیے ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا۔
ایجنسی کے ایک تفتیشی افسر نے مشتبہ شخص شفقت مسعود کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا آرمی چیف اور ادارے کے خلاف توہین آمیز ٹوئٹس شیئر کرنے کے حوالے سے کردار ثابت ہو گیا ہے، انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا آلات کی بازیابی کے لیے ملزم کو تحویل میں رکھنے کی درخواست کی اور مجسٹریٹ سے 14 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی تاہم مجسٹریٹ نے ملزم کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ دیا۔