• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ہم ایک سیاسی جماعت پر دوسری سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتے، امریکا

شائع April 13, 2022
جین ساکی نے کہا کہ ایک جمہوری پاکستان امریکی مفادات کے لیے اہم ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
جین ساکی نے کہا کہ ایک جمہوری پاکستان امریکی مفادات کے لیے اہم ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

پاکستان میں حکومت کی تبدیلی پر کسی متوقع پیش رفت کے حوالے سے امریکا نے کہا ہے کہ ہم ایک سیاسی جماعت پر دوسری سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں نیوز بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی سے پوچھا کہ پاکستان میں ہونے والی نئی پیش رفت پر انتظامیہ کا ردعمل کیا ہے، کیا صدر بائیڈن ملک کے نئے وزیر اعظم سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

سوال کے پہلے حصے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکا ’آئینی جمہوری اصولوں کی پرامن برقراری کی حمایت کرتا ہے، ہم ایک سیاسی جماعت پر دوسری سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتے اور ہم یقینی طور پر قانون کی حکمرانی اور قانون کے تحت مساوی انصاف کے اصولوں کی حمایت کرتے ہیں۔

شہباز شریف کے عہدہ سنبھالنے پر وائٹ ہاؤس کے بیان پر دفتر وزیراعظم کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’نئی حکومت خطے میں امن، سلامتی اور ترقی کے مشترکہ اہداف کو فروغ دینے کے لیے امریکا کے ساتھ تعمیری اور مثبت انداز میں مشغول ہونا چاہتی ہے‘۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ ایک جمہوری پاکستان امریکی مفادات کے لیے اہم ہے۔

اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات اس وقت انتہائی نچلی سطح کو چھو گئے جب سابق وزیر اعظم عمران خان نے امریکا پر ان کی حکومت کو گرانے کی سازش کا الزام لگایا۔

انہوں نے اپنا الزام ایک سفارتی کیبل پر لگایا جس میں مبینہ طور پر کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں دو طرفہ تعلقات کے لیے نتائج سے خبردار کیا تھا۔

واشنگٹن نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

امریکا کے ساتھ تعلقات کی مرمت نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہوگی۔

شہباز شریف نے اپنے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے تعلقات میں ’الجھن‘ کو نوٹ کیا اور کہا کہ اس کا مطلب تاریخی تعلقات کا خاتمہ نہیں تھا۔

دفتر وزیر اعظم کے بیان میں بھی یہی بات دہرائی گئی جس میں پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی امریکی تصدیق کا خیر مقدم کیا گیا اور کہا گیا کہ نئی حکومت برابری، باہمی مفاد اور باہمی فائدے کے اصولوں پر اس ’اہم تعلقات‘ کو مزید گہرا کرنے کی منتظر ہے۔

اس بات کو دہراتے ہوئے کہ امریکا اور پاکستان پرانے اتحادی ہیں، جین ساکی نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے دیرینہ تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہمیشہ ایک خوشحال اور جمہوری پاکستان کو امریکی مفادات کے لیے اہم سمجھتے ہیں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی قطع نظر اس کے کہ قیادت کوئی بھی ہو۔

صدر بائیڈن کے نئے وزیر اعظم کو فون کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اس حوالے سے پیش گوئی کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، ظاہر ہے ہم مختلف سطحوں پر ان کے ساتھ قریبی رابطے میں رہتے ہیں۔

ایک تیسرے صحافی نے ایک مختلف انداز آزمایا اور جو بائیڈن کی کال پر وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے سوال کیا کہ انتظامیہ نے ان (شہباز شریف) سے رابطہ کرنے کے لیے کیا انتظامات کیے ہیں اور اس پر کیا آگے بڑھ رہا ہے؟

جین ساکی نے کہا کہ میرے پاس اس وقت کال کی کوئی پیش گوئی نہیں ہے، ظاہر ہے یہ خاص طور پر نئے رہنماؤں کے منتخب ہونے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر کیے جانے والے جائزے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاکستان کے ساتھ ایک طویل، مضبوط اور پائیدار تعلقات ہیں، ایک اہم سیکیورٹی رشتہ ہے اور یہ نئے لیڈران کے تحت بھی جاری رہے گا‘۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024