وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے ووٹنگ سے متعلق حمزہ شہباز کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
لاہور ہائی کورٹ نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کی ووٹنگ سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کرانے سے متعلق درخواست کی سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی نےکی۔
اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ، (ق) لیگ کے وکیل سید علی ظفر، سیکریٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر ڈپٹی اسپیکر نے اپنے آفس کا چارج لے لیا ہے۔
دوران سماعت مسلم لیگ (ق) کے وکیل نے ایک بار پھر درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ کے پاس انتخابات کی تاریخ بدلنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار صوبائی اسمبلی کے ایگزیکٹو اختیارات کو چیلنج کر رہے ہیں صوبائی اسمبلی کو بھی درخواستوں میں فریق بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے درخواست پر اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر کو نوٹس
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے لاہور ہائیکورٹ یہ کیس نہیں سن سکتی، اجلاس کب بلانا ہے کب ملتوی کرنا ہے عدالتوں کو ان معاملات میں مداخلت کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایسے ہی ہے کہ صوبائی اسمبلی عدالت سے کیسز کے التوا کے بارے میں پوچھنا شروع کر دے، پارلیمنٹ اور عدالتیں ایک دوسرے کا احترام کرتی ہیں اس لیےدائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرتے۔
مسلم لیگ (ق) کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر عدالتیں اور پارلیمنٹ ایک دوسرے کے اختیار میں مداخلت کریں تو یہ ٹکراؤ ہو جائےگا۔
انہوں نے کہا کہ درخواست گزاروں کے مطابق اسمبلی رولز پر عملدرآمد نہیں ہو رہا لیکن یہ اسمبلی کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا رولز میں یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے الیکشن فوری کروائیں جائیں گے جس پر مسلم لیگ (ق) کے وکیل نے کہا کہ رولز میں وزیر اعلیٰ کے الیکشن کے لیے مخصوص وقت کا نہیں لکھا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رولز میں یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے علاوہ اسمبلی کوئی اور کام نہیں کرے گی۔
مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ق) کی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف درخواست میں فریق بننے کی استدعا
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ووٹنگ سے ایک روز قبل کاغذات نامزدگی کا عمل مکمل کرنا لازم ہے، الیکشن میں صرف چار دن رہ گئے ہیں تاریخ آگے پیچھے کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب وزیر اعلیٰ کے امیدوار اسپیکر صوبائی اسمبلی نے ڈپٹی اسپیکر کو اختیارات دیے تھے اختیارات واپس کیوں لیے، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ اختیارات انتخابی مرحلے کے لیے نہیں دیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسپیکر اسمبلی کے کیا اختیارات ہیں اور انہیں کیا اختیارات ملنے چاہئیں فیصلہ اسمبلی رولز ہی کریں گے۔
مسلم لیگ (ق) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ (ن) لیگ نے اسمبلی کے باہر بیٹھ کر اجلاس کیا، انہوں نے ایک حکومت کی موجودگی میں دوسری حکومت بنانے کی کوشش کی جو آئین سے منحرف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ کے تو چیف سیکریٹری اور بیوروکریسی بھی یہ چاہ رہے تھے کہ اب ان سے رابطہ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حلف لیے بغیر تو کوئی عہدہ پر نہیں آسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف سیکریٹری، آئی جی پنجاب کے تقرر و تبادلے کے خلاف حمزہ شہباز عدالت پہنچ گئے
مسلم لیگ (ق) کے وکیل نے استدعا کی کہ حمزہ شہباز اور دوست مزاری کی درخواستوں کو خارج کیا جائے، وزیر اعلیٰ کےلیے ووٹنگ 16 اپریل کو ہی کرانے کی ہدایت کی جائے۔
کچھ وقت کے لیے سماعت ملتوی ہونے کے بعد عدالتی کارروائی دوبارہ شروع ہونے پر مسلم لیگ (ق) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اب ڈپٹی اسپیکر بطور پرائزئیڈنگ افسر وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب نہیں کروا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر پر اعتماد نہیں ہے وہ صاف الیکشن نہیں کروا سکتے، ڈپٹی اسپیکر نے ابھی سے سیکریٹری پنجاب اسمبلی پر پابندیاں عائد کرنا شروع کردی ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے وکیل کی گفتگو پر عدالت نے استفسار کیا کہ ایسی صورتحال میں کیا کیا جاسکتا ہے جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کے بعد پینل آف چیئرمین اجلاس کی صدارت کرے گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر دونوں جماعتیں اپنے اپنے امیدوار کے اجلاس کی صدارت کے لیے زور لگائیں تو کیا ہو گا۔
مزید پڑھیں: حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ 'منتخب' ہوگئے ہیں، اپوزیشن کا دعویٰ
مسلم لیگ (ق) کے وکیل جواب دیا کہ ان حالات میں ڈیڈ لاک ہو جائے گا اور صوبے میں گورنر راج لگ سکتا ہے۔
اس موقع پر حمزہ شہباز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں 4 اراکین آزاد حیثیت سے ہیں ،ان میں سے ایک کو ووٹنگ کے لیے پریذائیڈنگ افسر مقرر کردیا جائے، چاروں اراکین باعزت اور اچھی شہرت کے حامل افراد ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے وکیل نے چاروں اراکین پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جگنو محسن حمزہ شہباز کے ساتھ ہیں، ہمیں چاروں اراکین پر اعتماد نہیں ہے جس پر حمزہ شہباز کے وکیل نے جواب دیا کہ کیا پھر ہوائی مخلوق الیکشن کروانے آئے، اگر آپ کو کسی پر اعتماد نہیں کو بلا مقابلہ حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ منتخب کردیں۔
دوسری بار عدالتی کارروائی کچھ گھنٹوں کے لیے ملتوی ہونے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ تو کسی نتیجے پر نہیں پہنچے مگر اب قانون اپنے نتیجے پر پہنچے گا، معاملے کی سماعت نماز کے بعد ہوگی۔
مزید پڑھیں: اراکین اسمبلی کو ہوٹل میں رکھنے کا معاملہ، لاہور ہائیکورٹ میں درخواست سماعت کیلئے مقرر
نماز کے وقفے کے لیے تیسری بار ہونے والی سماعت دوبارہ شروع ہونے پر مسلم لیگ (ق) کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ پینل آف چیرمین میں 4 اراکین ہیں، رولز کے مطابق اگر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نہیں ہوں گے تو پینل آف چیئرمین سے پہلے نمبر پر موجود ممبر صدارت کرے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ فریقین نے کہا کہ آپس میں مفاہمت سے کوئی تاریخ طے نہیں کر سکتے عدالت مناسب فیصلہ جاری کر دے، سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ بھی عدالت کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر گزرتا لمحہ ضائع ہو رہا ہے کیوں کہ عوام کی خدمت کے لیے کوئی حکومت ہی موجود نہیں۔
وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے وزیر اعلی پنجاب کے لیے ووٹنگ کرانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔