• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

برف کے پگھلاؤ کی سست رفتار، ملک میں پانی کی سپلائی پر دباؤ میں اضافہ

شائع April 10, 2022
بارشیں نہ ہونے اور برف پگھلنے میں تاخیر کے سبب بحران پیدا ہوا ہے—
بارشیں نہ ہونے اور برف پگھلنے میں تاخیر کے سبب بحران پیدا ہوا ہے—

لاہور: مارچ کے وسط اور اپریل میں موسم گرما کے جلد آغاز کے باوجود پہاڑوں اور پہاڑی علاقوں میں برف پگھلنے کا عمل تیز نہیں ہوا جس سے ملک میں پانی کی سپلائی پر گہرا دباؤ پڑ رہا ہے اور اس عمل نے پالیسی سازوں کو کافی پریشان کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پچھلے 10 دنوں سے قومی سطح پر پانی کی سپلائی ناصرف پچھلے سال بلکہ پچھلے پانچ یا 10 سالوں کی روزانہ کی اوسط سپلائی کی سطح سے کافی نیچے گر گئی ہے، جس سے پاکستان کے خریف کے سیزن کا آغاز پانی پیدا کرنے والے دونوں نظاموں میں تقریباً 40 فیصد کمی کے ساتھ ہو رہا ہے، سیزن کا آغاز دریائے سندھ میں 30 فیصد اور دریائے جہلم میں 10فیصد کمی سے ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور بھارت میں سوا 2 ارب سے زائد افراد پانی کی قلت کا شکار

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے خالد رانا کہتے ہیں کہ منگلا میں صورتحال زیادہ نازک ہے جو اپنی صلاحیت کے 1 فیصد سے بھی کم پانی وصول کر رہا ہے۔

ہفتے کے روز 70 لاکھ ایکڑ فٹ سے زائد گنجائش کے حامل منگلا ڈیم میں صرف 3لاکھ 54ہزار ایکڑ فٹ پانی موجود ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ منگلا جھیل بنیادی طور پر بارش کے پانی پر مشتمل ہے اور مارچ میں بارش نہیں ہوئی، محکمہ موسمیات نے بارش کے پانچ اسپیل کی پیش گوئی کی تھی لیکن صرف ایک ہی مرتبہ بارش ہوئی۔

خالد رانا نے بتایا کہ معاملات مزید خراب ہو گیا کیونکہ اس موسم سرما میں 37 انچ برف پڑی جو سالانہ اوسطاً 50 انچ کے مقابلے میں 26فیصد کم ہے، یہ 37 انچ برف بھی انتہائی اونچائی پر پڑی ہے جہاں برف پگھلنے کے لیے درجہ حرارت کا 23 ڈگری سیلسیس سے زیادہ ہونا ضروری ہے، کم اور اونچائی پر پڑنے والی برف اور بارش نہ ہونے جیسے رجحانات نے دریائے جہلم میں ایک بحران پیدا کر دیا ہے۔

پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے ایک اہلکار نے صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ہی رجحان دریائے چناب پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، بہاؤ بہتر ہو رہا ہے لیکن نظام کو فائدہ پہنچانے کے لیے یہ عمل بہت آہستہ ہے جس سے طلب اور رسد کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خشک موسم کے باعث پانی کی شدید قلت کا خدشہ

ہفتہ کو دریا 22ہزار کیوسک کی رفتار سے بہہ رہا تھا جبکہ گزشتہ 10 سال کی اوسط 25ہزار کیوسک تھی، ہفتہ کے بہاؤ میں تقریباً 30 فیصد بہتری شامل تھی، دوسری صورت میں جب مہینہ شروع ہوا تو یہ 15ہزار کیوسک پر بہہ رہا تھا لہٰذا پانی پیدا کرنے والا پورا نظام نچلی سطح پر آ گیا ہے اور زیادہ درجہ حرارت سے فائدہ نہیں اٹھا رہا ہے۔

واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے ذریعے مرتب کردہ قومی پانی کے بہاؤ کے اعداد و شمار پانی کی کمی کی صورتحال کی وضاحت کرتا ہے، ہفتے کے روز ملک کو اپنے تمام دریاؤں میں 90ہزار کیوسک پانی موصول ہوا جبکہ گزشتہ 10 سال کے اوسطاً ایک لاکھ 37ہزار کیوسک سے 27.73فیصد کم ہے۔

انفرادی طور پر دیکھا جائے تو جہلم نے 27ہزار 200 کیوسک پانی فراہم کیا جبکہ اس کی 10 سالہ اوسط 48ہزار 200 کیوسک ہے، دریائے کابل اوسطاً 32ہزار 600 کیوسک کے مقابلے میں 12ہزار 900 کیوسک کی رفتار سے بہہ رہا ہے، سندھ نے اپنی اوسط 31ہزار 200 کیوسک کے مقابلے میں 27ہزار 500 کیوسک فراہم کیا اور چناب نے 25ہزار 700 کیوسک کی اوسط کے مقابلے میں 22ہزار 200 کیوسک فراہم کیا۔

برف اور اس کے پگھلنے کے رجحان سے نمٹنے والے واپڈا کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ یہاں تک کہ اسکردو میں درجہ حرارت دوگنا ہو گیا ہے، گزشتہ سال 11 ڈگری سینٹی گریڈ کے مقابلے میں یہ ہفتہ کو یہ 22.2 ڈگری تک پہنچ گیا لیکن برف پگھلنے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، ہم اب بھی دریا کے بہاؤ کو شک کا فائدہ دے سکتے ہیں کیونکہ جب پانی پہاڑوں سے نکل کر تربیلا ڈیم تک پہنچتا ہے تو اس میں دو سے تین دن کا وقفہ ہوتا ہے، پوری برف بالآخر دریاؤں تک پہنچ جائے گی لیکن موجودہ تاخیر تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: پانی پر پاک-بھارت جنگ کی صورت میں چین کہاں کھڑا ہوگا؟

محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزادہ خان نے کہا کہ تربیلا اور منگلا جھیلیں تقریباً ڈیڈ لیول پر ہیں اور بارشیں نہ ہونے اور برف نہ پگھلنے کی وجہ سے ان میں بہتری نہیں آ رہی۔

توقع ہے کہ یہ رجحان مئی کے آخر یا جون کے شروع تک بہتر ہونے سے پہلے مزید ایک ماہ تک برقرار رہے گا جب اس وقت زیادہ درجہ حرارت اور بارش دونوں ہی نظام کو فائدہ پہنچانا شروع کر دیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024