اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس غیر آئینی قرار دے دیا
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔
مختصر فیصلے میں عدالت نے کہا کہ 'تحریری فیصلے میں چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور آئین کے تحت دیے گئے تمام دیگر حقوق کو تقویت دیتا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا قانون کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 'آزادی اظہار اور معلومات حاصل کرنے کا حق معاشرے کی ترقی، ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے، ان کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے'۔
عدالت نے کہا کہ 'ہتک عزت کو جرم بنانا، گرفتاری اور قید کے ذریعے انفرادی ساکھ کا تحفظ اور اس کے نتیجے میں سرد مہری کا اثر آئین کی خلاف ورزی ہے اور اس کا غلط ہونا شک سے بالاتر ہے'۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پیکا آرڈیننس 'آئین اور اس کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق، خاص طور پر آرٹیکل 9، 14، 19 اور 19-اے کی توہین کرتے ہوئے نافذ کیا گیا تھا' جس میں دائرہ اختیار کی پیشگی شرائط بھی موجود نہیں تھیں'۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پیکا آرڈیننس اور اس کے نفاذ کو 'غیر آئینی' قرار دیا اور اسے ختم کردیا۔
مزید پڑھیں: پیکا آرڈیننس کیس: حکومتی ’بدنیتی‘ ثابت کرنے کیلئے صدر عارف علوی کا ٹوئٹ بطور ثبوت پیش
آج ہونے والی سماعت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، کون ذمہ دار ہے؟ عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے گئے اور ان کی ہی خلاف ورزی کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اور وہ دفعات لگائیں جو لگتی ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ دفعات اس لیے لگائی گئی تھیں تاکہ عدالت سے بچا جا سکے، یہ بتا دیں کہ اس سب سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد ہائیکورٹ: پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 پر اٹارنی جنرل سے دلائل طلب
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے کہا کہ قانون بنا ہوا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے پریشر آتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کسی عام آدمی کے لیے ایکشن لیا؟ لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپہ مارا گیا۔
ڈائریکٹر ایف آئی نے کہا کہ گرفتاری کے بعد برآمدگی پر بھی مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کس قانون کے تحت مقدمہ درج ہونے سے پہلے کسی کو گرفتار کرتے ہیں، آپ اپنے عمل پر پشیمان تک نہیں اور دلائل دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ کسی کا تو احتساب ہونا ہے، فیصلہ کریں گے کہ کون ذمہ دار ہے، صحافیوں کی نگرانی کی جارہی ہے، کیا یہ ایف آئی اے کا کام ہے؟
مزید پڑھیں:پیکا ترمیمی آرڈیننس کےخلاف وکلا، صحافتی برادری اور اپوزیشن سرگرم
ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کارروائی کیسے بنتی ہے، ملک میں کتنی دفعہ مارشل لا لگا ہے یہ تاریخ ہے لوگ باتیں کریں گے۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے بعد ازاں سنادیا گیا۔
پیکا آرڈیننس
واضح رہے کہ 20 فروری 2022 کو چھٹی کے دن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔
پیکا ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے مطابق ’شخص‘ کی تعریف تبدیل کرتے ہوئے قرار دیا گیا تھا کہ ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید 3 سے بڑھا کر 5 سال تک کردی گئی تھی۔
آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے۔
یہ بھی پڑھیں:صحافتی تنظیموں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا آرڈیننس چیلنج کردیا
پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ٹیلی ویژن پر کسی بھی 'فرد' کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جاتی۔
جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا تھا۔
آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی، ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تفویض کیا گیا تھا۔
مذکورہ آرڈیننس کو 'امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022' کا نام دیا گیا تھا جو فوری طور پر نافذالعمل کردیا گیا تھا۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سے 5 سال تک ہے جبکہ اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: پیکا آرڈیننس: حکومت کو صحافیوں، سیاسی جماعتوں کے شدید ردعمل کا سامنا
یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سےمنظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔
مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا، تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔
قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کی حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔
نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا۔