اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کا آنکھوں دیکھا حال
یہ 5 دنوں کے آئینی، قانونی اور سیاسی بحران کی کہانی ہے۔ پاکستان میں اس قسم کے آئینی بحران کا تجربہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے۔
ماضی میں کبھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی کہ خود کو جمہوری نظام کا داعی، جمہوریت پسند کہنے والا حکمران خود سارے نظام کو ایسے دوراہے پر لا کھڑا کرے کہ اس مشکل کو آسان کرنے میں کئی دن لگ جائیں۔
ان 5 دنوں تک ملک بغیر حکومت، پارلیمنٹ اور نظام کے ایک اضطرابی اور غیر یقینی کیفیت سے دوچار رہا۔ اس سے پہلے ہم نے صدرِ مملکت کی جانب سے اسمبلیوں کو توڑتے ہوئے یا پھر بالواسطہ آمریت کو آتے ہوئے تو دیکھا ہے مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ ملک کے کسی وزیرِاعظم نے خود اپنی ہی حکومت ختم کردی ہو۔
2018ء کے انتخابات کے بعد آنی والی حکومت اور اس کے حکمرانوں کی طرف سے مختلف اداروں کو اپنی خوشی، خواہش اور مفادات کے خاطر استعمال کرنے کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں، لیکن 3 اپریل 2022ء کو جو تجربہ کمزور پارلیمانی نظام پر ہوا اس نے پورے ملک، اداروں اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے افراد اور جماعتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ سیاسی چھیڑ خانی قومی اسمبلی سے شروع ہوئی، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے بڑی عدالت کے دوازے پر دستک دی گئی، ہم اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے عدالتی محاذ پر لڑی جانے والی جنگ کے تمام دنوں کا احوال پیش کریں گے۔
3 اپریل
اتوار یعنی چھٹی کے دن 3 اپریل 2022ء کو قومی اسمبلی سے اس سیاسی و آئینی بحران کا آغاز ہوا۔ قومی اسمبلی میں 12 بج کر 40 منٹ پر شروع ہونے والے اس اجلاس میں وزیرِاعظم کے خلاف پہلے سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی، لیکن ووٹنگ کے بجائے وزیرِاعظم کا سرپرائز آگیا۔
قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے اس دن ایجنڈے پر موجود تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کے بجائے ہاتھ سے لکھی ایک تحریر پڑھ کر تحریک کو مسترد کردیا۔
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد سب کچھ جس ترتیب سے ہوا اسے ایک اسکرپٹ، سوچا سمجھا منصوبہ اور حکمتِ عملی ہی کہا جا رہا ہے۔ جس کا علم صرف خان صاحب اور ان کے کچھ خاص لوگوں کو ہی تھا، کیونکہ ایک دن پہلے کچھ سابق وزرا نے میڈیا کو یہ تو بتایا تھا کہ حزبِ اختلاف کے خواب چکنا چور ہونے والے ہیں اور شہباز شریف کے ساتھ جو ہوگا، اسے دیکھ کر وہ پریشان ہوجائیں گے۔ یہاں تک کہا گیا کہ خان صاحب وزیرِاعظم ہیں اور وہی وزیرِاعظم رہیں گے۔
رولنگ کے چند منٹوں بعد وزیرِاعظم کا ریکارڈ شدہ خطاب نشر ہوتا ہے جس میں وزیرِاعظم یہ فرما رہے تھے کہ انہوں نے صدر کو وہ بھیج دیا ہے، پیچھے سے آواز آتی ہے کہ ایڈوائس۔ پھر وہ بولے کہ اس ایڈوائس کے تحت صدر اسمبلیاں توڑ دیں گے۔
اس موقع پر شاید وزیرِاعظم کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار صدر کے مقرر کردہ گورنرز کے پاس نہیں اور اب وزیرِاعلیٰ کی ایڈوائس آئینی تقاضا ہے۔ خیر صدرِ مملکت نے اپنا ذہن استعمال کیے بغیر ایڈوائس کو پارٹی کا حکم سمجھ کر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری کو من و عن منظور کرلیا اور کچھ لمحات میں اس کا فرمان بھی جاری کردیا۔
2 فروری 2022ء کو حلف اٹھانے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس کیس سے پہلے کسی معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لیا تھا۔ اسی دن یعنی 3 اپریل کو 2 بجے میں نے جب سپریم کورٹ کے ترجمان سے ازخود نوٹس لینے سے متعلق رابطہ کیا تو انہوں نے ازخود نوٹس کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیا۔
چھٹی کے دن سپریم کورٹ کے دروازے بند تھے، لیکن پہلی خبر یہ آئی کہ چیف جسٹس ساتھی ججوں سے مشاورت کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے ایک امید پر آئینی درخواستیں تیار کرنا شروع کردیں، ججوں کی ملاقات سے کچھ امید پیدا ہوئی کہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔
سب سے پہلے کچھ صحافی دوست عدالت عظمیٰ پہنچے، پھر انسٹیٹیوشن برانچ کا عملہ عدالت پہنچا، پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما اور کچھ وکلا عدالت آئے، سپریم کورٹ بار کے صدر لاہور سے نکل چکے تھے، کچھ دیر میں خبر ملی کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ ترجمان سپریم کورٹ کی طرف سے ایک سطری نوٹ آیا کہ چیف جسٹس نے موجودہ صورتحال پر ازخود نوٹس لیا ہے باقی تفصیلات سے جلدی آگاہ کردیا جائے گا۔
کچھ دیر میں چیف جسٹس آف پاکستان کی گاڑی سپریم کورٹ میں داخل ہوئی، پھر جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر بھی عدالت میں تشریف لائے۔ معاملہ چونکہ اہم ترین تھا اس لیے امید کی جا رہی تھی کہ اس کی سماعت فل کورٹ ہی کرے گا اور ایسی خبریں بھی نشر ہوئیں۔ لیکن پھر اطلاع آئی کہ 5 ججوں پر مشتمل لارجر بینچ سماعت کرے گا، اور پھر حتمی خبر یہ آئی یہ 3 ججوں پر مشتمل فل بینچ معاملے کی سماعت کرے گا۔
5 بج چکے تھے، رمضان کا پہلا روزہ تھا، سوا 5 بجے کے بعد عدالتی کمرے نمبر ایک میں 3 رکنی بینچ نے ہنگامی سماعت کی۔ صورتحال جتنی غیر معمولی تھی اس کو اس طرح سننا یا ایسا کوئی آرڈر پاس نہ کرنا الگ بحث ہے۔ بہرحال وکلا نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر اسٹے جاری کردیا جائے، لیکن عدالت نے یہ استدعا مسترد کردی۔
عدالت نے مارشل لا کے خدشے کے پیش نظر یہ آرڈر جاری کردیا کہ ریاستی ادارے یا فرد اس صورتحال کا غلط فائدہ اٹھا کر غیر آئینی اقدامات سے گریز کریں، سیکریٹری دفاع اور داخلہ کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے نوٹس جاری ہوئے۔
عدالت نے مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ کے جس حکم نامے کا حوالہ دیا وہ پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو روکنے کے لیے جاری کردہ آرڈر کا تسلسل تھا۔ وہ آرڈر شروع میں 3 نومبر 2007ء کو جاری کیا گیا تھا، پھر افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد تفصیلی فیصلہ آیا جس کے نتیجے میں 100 سے زائد پی سی او جج فارغ ہوئے۔ اس حکم کی بنیاد پر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنا، سزائے موت ہوئی مگر اب تک اس حوالے سے کچھ نہیں ہوسکا۔
عدالتی حکم میں وزیرِاعظم اور صدر کے تمام احکامات کو عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا گیا۔ 3 اپریل کی مختصر سماعت کے بعد عدالت نے اگلے دن کی تاریخ مقرر کی۔
4 اپریل
4 اپریل کا دن پاکستانی تاریخ کا سیاہ دن مانا جاتا ہے، سال 1979ء اسی تاریخ کو ملک کے منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک عدالتی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے مارشل لا کے سائے میں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔
4 اپریل کو ازخود نوٹس کی سماعت 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ اس مقدمے کی سماعت سے پہلے عدالت میں وکلا، صحافیوں، سیاسی جماعتوں کی قیادت و کارکنان اور سول سوسائیٹی سے جڑے افراد کا میلہ لگ گیا۔ چیف جسٹس نے لوگوں کا رش دیکھ کر حکم دیا کہ باقی لوگ باہر جائیں کوئی یہاں کھڑا دکھائی نہ دے۔
عدالت سے اس دن بھی فوری فیصلہ کرنے یا عبوری حکم دینے کی استدعا کی گئی مگر ایک بار پھر استدعا مسترد کردی گئی۔ اسی دن اٹارنی جنرل نے اس سماعت سے کچھ دیر پہلے جسٹس مقبول باقر کی ریٹائرمنٹ پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس ریفرنس کے بعد استعفیٰ دینا چاہتے تھے لیکن اس طرح کی صورتحال میں استعفیٰ دینا میدان چھوڑ کر بھاگنے کے مترادف ہے۔
پیر کے دن عدالتی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی جو مسترد ہوگئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم میں سے کسی پر اعتراض ہے تو ہم اٹھ جاتے ہیں لیکن فاروق نائیک نے عدالت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دلائل شروع کردیے، لیکن ان کے دلائل میں قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے پیش کیے گئے حقائق اس قدر بے ترتیب تھے کہ مجھ سمیت کئی صحافیوں کو مایوسی ہوئی۔ بلاشبہ فاروق ایچ نائیک بڑے آئینی ماہر ہیں، اور وہ سب سے بڑے ایوان یعنی سینیٹ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں لیکن اس دن انہوں نے دلائل میں اسمبلی کی کارروائی کے حوالے سے کئی چیزیں اس طرح پیش نہیں کیں جس طرح سے 25 مارچ سے 3 اپریل تک اسمبلی میں ہوئیں تھیں۔
اس دن عدالت میں قومی اسمبلی کے قاعدہ 28 جس میں اسپیکر کی رولنگ کا ذکر ہے، آئین کے شق 95 جس میں وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے اور آئین کی شق 69 کا ذکر ہوا، جس میں پارلیمنٹ کے اندر کی کارروائی پر کسی قسم کا سوال نہ اٹھانے کا ذکر ہوا ہے۔ پھر ریاست سے وفاداری کے آرٹیکل 5 (اے) کا ذکر ہوا۔
اصل سوال اسپیکر کی رولنگ کو آئینی استثنیٰ ہونے کا تھا، یعنی آئین کی شق 69 کا سوال تھا۔ لیکن ایسی ہی ایک رولنگ پر سپریم کورٹ کا اظہر صدیق کیس کا فیصلہ موجود ہے۔ یہ عدالتی فیصلہ پی ایل ڈی 2012 نمبر 774 اظہر صدیق بنام وفاق عدالتی رکارڈ کا حصہ ہے۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ کو مسترد کرکے یوسف رضا گیلانی کو نااہل کردیا تھا۔
مزے کی بات یہ کہ سپریم کورٹ سے یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانے کے لیے 7 درخواستیں آئیں ان میں سے ایک درخواست گزار تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی تھے۔سپریم کورٹ کو عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دے کر قائل کردیا کہ اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے جس کی بنیاد پر یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمیٰ کے مسند سے ہٹاکر گھر بھیج دیا گیا۔
4 اپریل پیر کے دن فاروق نائیک عدالت کو یہ نہیں بتاسکے کہ اسپیکر نے 25 مارچ کو آئین، قوانین اور قومی اسمبلی کے رولز پر اسمبلی کی روایات کو ترجیح اس لیے دی کہ وہ تحریک عدم اعتماد سے جان چھڑانے میں اپنی عافیت سمجھ رہے تھے۔
جب فاروق نائیک سے یہ تحریک پیش کرنے کی اجازت کے بارے میں سوال ہوا تو اس پر بھی فاروق نائیک نے یہ نہیں بتایا کہ 28 مارچ کو 161 اراکین کی اجازت سے قراداد پیش ہوئی اور 31 مارچ کی تاریخ اسی تحریک پر بحث کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ اس دن فاروق نائیک کو عدالتِ عظمی کو اس حقیقت سے آگاہ کردینا چاہیے تھا کہ اپوزیشن 31 مارچ کو قومی اسمبلی میں اکثریت ثابت کرچکی تھی جو اسمبلی ریکارڈ کا حصہ بھی ہے۔
اسی دن قومی اسمبلی کے ہال میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی برائے پارلیمنٹ کا اجلاس ہونا تھا، اس لیے حکومت نے اجلاس میں تحریک پیش کی جسے اپوزیشن نے اکثریت کی بنیاد پر مسترد کردیا اور ڈپٹی اسپیکر نے پھر سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس کمیٹی روم نمبر 2 میں کروانے کی رولنگ دی۔ یہ حقائق اپوزیشن کے کسی وکیل نے آخر تک پیش نہیں کیے۔
4 اپریل کی اس سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل فاروق نائیک کو سیدھا اسپیکر کی رولنگ پر دلیل دینے کا کہہ رہے تھے جبکہ جسٹس منیب اختر نے الجھتے مقدمے کو یہ کہہ کر آسان کردیا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات میں فرق ہے۔ ڈپٹی اسپیکر ایوان کی کارروائی چلا سکتے ہیں لیکن اسمبلی قواعد کے مطابق اس قسم کی رولنگ ان کے دائرہ اختیار سے ہی باہر ہے۔
اراکین اسمبلی کو غیر ملکی سازش کا آلہ کار بنانے کے لیے حکومت نے آرٹیکل 5 (اے) کو بنیاد بنایا، اور اس پر بھی سپریم کورٹ کی آبزرویشن یہ تھی کہ آرٹیکل 5 (اے) کا حوالے دے کر بھی تحریک عدم اعتماد کو مسترد نہیں کیا جاسکتا اور جہاں تک پارلیمنٹ کی اندرونی کارروائی کو استثنیٰ حاصل ہے تو وہ اس حد تک ہے جب تک وہ مکمل آئینی اور قانونی ہو، اس لیے اس رولنگ کی آئینی اور قانونی حیثیت کو دیکھنا ضروری ہے۔ فاروق نائیک کے دلائل پیر 4 اپریل کو ختم ہونے سے پہلے عدالت نے 2 وکلا مخدوم علی خان اور میاں رضا ربانی سے پوچھا کہ آپ کو دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہے، کوشش کریں جلدی دلائل مکمل کریں اور سماعت منگل کے دن تک ملتوی ہوئی۔
5 اپریل
منگل مورخہ 5 اپریل کو میں کوئی سوا گھنٹہ پہلے ہی عدالت پہنچ گیا اور سب سے پہلی رکاوٹ مین گیٹ پر ہی آئی۔ عدالت کے باہر پولیس والے دروازہ بند کرکے کھڑے تھے اور ان کے ہاتھ میں ایک فہرست تھی، یعنی جس صحافی کا نام اس فہرست میں تھا صرف انہیں ہی اندر جانے اور کوریج کرنے کی اجازت تھی۔ چونکہ میرا نام اس فہرست میں تھا لہٰذا میں تو آسانی کے ساتھ عدالت کے اندر داخل ہوگیا، لیکن میرا ساتھی رپورٹر باہر رہ گیا۔
اس سختی کا پس منظر یہ تھا کہ 4 اپریل کو عدالتی کمرے میں اتنا رش تھا کہ ججوں کو دلائل سننے میں مشکل پیش آرہی تھی اور پھر کورونا وائرس کی وجہ سے احتیاط بھی کی جارہی تھی۔
رش کم کرنے کے لیے چیف جسٹس نے رجسٹرار کو آرڈر دیا کہ متعلقہ لوگوں اور صحافیوں کے علاوہ کسی کو عدالت میں آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تو اس سختی کے بعد سماعت میں کافی سکون تھا۔
کارروائی شروع ہونے سے پہلے صحافیوں کی ڈیسک پر فاروق نائیک داد وصول کرنے پہنچے تو میں نے ان سے گزشتہ دن دلائل اور حقائق میں رہ جانے والی باتوں پر گفتگو شروع کردی۔ میرے ساتھ ڈان اخبار کے سینئر صحافی ناصر اقبال بھی بیٹھے تھے۔ فاروق نائیک نے تسلیم کیا کہ واقعی کچھ چیزیں رہ گئی ہیں لیکن آج ان کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا جائے گا۔
سماعت سے پہلے میاں رضا ربانی کو اعظم نذیر تارڑ اس بات پر قائل کر رہے تھے کہ آپ دلائل کو چھوڑ دیں اور مخدوم علی خان کو اپنا وقت دے دیں لیکن رضا ربانی نے بات نہیں مانی اور اچھا ہی کیا، کیونکہ انہوں نے مختصر انداز میں عدالت کے سامنے 5 نکات اس انداز سے بیان کیے کہ ججوں کو سوالات پوچھنے کا موقع تک نہیں ملا اور آخر میں جج صاحبان نے ان کے دلائل کی تعریف بھی کی۔
ان کے 5 نکات یہ تھے کہ
- کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی نہیں؟
- کیا پہلے سے دی گئی رولنگ کو دوسری رولنگ سے ختم کیا جاسکتا ہے؟
- کیا اکثریت کھونے کے بعد وزیرِاعظم ایڈوائس جاری کرسکتا ہے؟
- کیا تحریک عدم اعتماد کو ووٹنگ کے بغیر ختم کیا جاسکتا ہے؟
- کیا اسپیکر کی رولنگ کو عدالتی استثنیٰ حاصل ہے؟
کوئی 15 منٹ تک جامع دلائل دینے کے بعد رضا ربانی نے باقی وقت مخدوم علی خان کو دے دیا۔ عدالتی وقفے کے دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز صحافیوں کے پاس پہنچے اور انہوں نے فرمایا کہ سپریم کورٹ تو پہلے دن فیصلہ دے چکی ہے اس پر آپ لوگ کچھ لکھ ہی نہیں رہے۔ وہ فیصلہ یہ ہے کہ آئین سے انحراف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ آپ ریلیف ملنے کے حوالے سے کتنے فیصد پُرامید ہیں تو انہوں نے انتہائی پُراعتماد انداز میں کہا کہ 100 فیصد کیونکہ عدالت ان سوالوں سے باہر جاہی نہیں سکتی۔
بعد میں جب میاں رضا ربانی سے یہی سوال کیا گیا تو وہ کہنے لگے کہ 'دیکھیں کیا ہوتا ہے'۔
پھر مخدوم علی خان دلائل دینے لگے۔ انہوں نے 25 مارچ، 28 مارچ، 31 مارچ اور 3 اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاسوں کی کارروائی کا پورا متن عدالت میں پیش بھی کیا اور خود پڑھ کر بھی سنایا۔ مخدوم علی خان اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں اور ججوں کو ان پر جرح کرنے میں کافی مشکل پیش آتی ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 69 اس وقت لاگو ہوتا جب پارلیمنٹ کی کارروائی فقط پروسیجرل ضابطے کے حوالے سے ہوتی، یہ آرٹیکل 95 سے انحراف کا مقدمہ ہے۔ عدم اعتماد پیش ہوجانے کے بعد رولنگ نہیں بلکہ ووٹنگ ہونا ہوتی ہے، آئین یہی کہتا ہے، اس لیے ڈپٹی اسپیکر کی یہ رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ رولز تو آئین کی روشنی میں بنتے ہیں لیکن جب آئین سے روگردانی ہو تو اس پر عدالت مداخلت کرسکتی ہے۔
ابھی مخدوم علی خان نے مبیّنہ مراسلے کی تحقیقات کے لیے سیکیورٹی ایجنسی کے چیف کو چیمبر میں بلانے کا ذکر تک نہیں کیا تھا اس سے پہلے ہی عدالت نے واضح کردیا کہ ہم ریاستی پالیسی اور خارجہ پالیسی پر نہیں جائیں گے، ہم حقائق اور آئین کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے، گویا تمام ججوں نے یہ فیصلہ دے دیا کہ جس خط کو بنیاد بنا کر رولنگ دی گئی ہے ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے، یہ بات عدالت نے 2 مرتبہ دہرائی۔
5 اپریل کی عدالتی سماعت میں نازی جرمنی اور ہٹلر کا ذکر ایڈووکیٹ صلاح الدین نے کیا۔ سندھ ہائیکورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین ایڈووکیٹ سندھ کے دبنگ وکیل ہیں۔ ان کی آواز جتنی پُراثر ہے اس سے زیادہ وہ دلائل دیتے ہوئے دلربا انداز اپناتے ہیں اور دلائل سے بھرپور مقدمہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے اپنے دلائل کے آخر میں تاحیات آمرانہ اختیارات حاصل کے خواہاں ایڈولف ہٹلر کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے دنیا میں ایک ہی ایسی مثال ہٹلر کی ملتی ہے۔ جب ایڈولف ہٹلر نے ’ایبسلیوٹ پاورز‘ حاصل کرنے کی آمرانہ خواہش کا اظہار کیا تو انہیں بتایا گیا کہ جرمن پارلیمنٹ میں نازی پارٹی کے پاس اتنی اکثریت نہیں جو ایسا قانون منظور کروایا جاسکے۔ اس کے بعد ہٹلر نے ایک راہ نکالی اور پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن اراکین کو غیر ملکی اور غدار قرار دے کر ان کے ووٹ کا اختیار چھین لیا، پھر مرضی کا قانون منظور کروانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں بھی ایسا کچھ ہی ہوا ہے لیکن اس مثال کو اگلے دن چیف جسٹس نے غلط مثال قرار دے دیا۔ اس طرح درخواست گزاروں کی طرف سے دلائل مکمل ہوئے اور سماعت اگلے دن تک ملتوی ہوگئی۔
6 اپریل
بدھ کے دن چیف جسٹس نے سماعت کی شروعات میں ہی اس مقدمے کے حوالے سے میڈیا میں زیرِ بحث معاملات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کوشش ہے کہ اس کیس کا فیصلہ جلدی کردیں۔
اس دن کی سماعت میں تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل شروع کیے تو ججوں نے بھی مختلف سوالات کرنا شروع کردیے، لیکن جوابات سے عدالت غیر مطمئن رہی۔ بابر اعوان فوجداری مقدمات کو اچھے انداز میں پیش کرتے ہیں، مگر عدالتی رiکارڈ پر مجھے ان کا کوئی بڑا مقدمہ نہیں ملتا۔ آئینی اعتبار سے ایسا مقدمہ ڈھونڈنا پڑے گا جو بابر اعوان نے لڑا ہو یا جیتا ہو۔
اس دن ان کے دلائل پر پہلے تو ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر عدالت نے آئینی اور قانونی اعتراضات کے جوابات چاہے جو اعتراضات درخواست گزاروں کے وکلا نے اٹھائے تھے۔ بابر اعوان قانونی اور آئینی دلائل سے ہٹے تو چیف جسٹس نے کہا آپ لمبی کہانیوں کو چھوڑیں، راستہ ہم خود ڈھونڈیں گے، آپ ہمیں آئینی اور قانونی نکات سے قائل کریں اور حقائق پیش کریں لیکن آئین کے مطابق تحریک انصاف کے وکیل نے چھانگا مانگا، سندھ ہاؤس، آواری ہوٹل کا ذکر کیا، اور سیاسی باتوں پر بھی عدالت نے ان کو روکا۔ ایک موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ان کے دلائل کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا۔
سوالات کے جوابات سے غیر مطمئن جج ان کو اصل مدعے پر آنے کا بار بار کہتے رہے، لیکن ان کے پاس آئین اور قانون کی پٹاری سے نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک موقعہ ایسا بھی آیا جب جسٹس اعجاز الاحسن نے دونوں ہاتھ سر پر ہی رکھ لیے۔ پھر جب وہ لیٹر گیٹ کی بات کرنے لگے تو اٹارنی جنرل نے مداخلت کی کہ کسی وکیل نے اس حوالے سے بات نہیں کی اس لیے سیاسی جماعت کے وکیل کو خارجہ پالیسی پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ جس کے بعد بابر اعوان عدالت کو لیٹر گیٹ پر بند کمرے میں سماعت کرنے کی استدعا کی جس کو عدالت نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اب تک ہمارے سامنے ایسی کوئی چیز نہیں آئی کہ اس کارروائی کو بند کمرے تک محدود کریں۔
پھر آگے چل کر انہوں نے اس مبیّنہ مراسلے پر کمیشن بنانے کی بات کردی، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے یہ کہا کے آپ کے کلائینٹ عمران خان کو ابھی تک یہ پتا نہیں کہ مراسلے میں کیا ہے، اس لیے آپ کمیشن کی بات کر رہے ہیں۔ جب آرٹیکل 5 (اے) کی بات آئی تو عدالت نے کہا کہ اگر یہ شق سب شہریوں پر لاگو ہوتی ہے تو کیا اسپیکر اس ملک کے شہری نہیں؟ انہوں نے آئین کی شق 95 کے خلاف کیسے رولنگ دے دی۔
بابر اعوان کے بعد صدرِ مملکت کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے صدر سے زیادہ اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کیا اور اس کے ساتھ انہوں نے آئین کی شق 69 کو آگ کی دیوار قرار دے کر عدالت کو متنبہ کیا کہ اس دیوار کو پھلانگنے کی کوشش نہ کی جائے۔
ان کے دلائل یہ تھے کہ اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا فیصلہ ہوتا ہے، جس طرح پارلیمنٹ عدالتی کارروائی پر بحث نہیں کرتی اسی طرح عدالت کو بھی پارلیمنٹ کی کارروائی زیرِ بحث نہیں لانی چاہیے۔
تحریک انصاف کے وکلا کے دلائل کے دوران عدالت نے جو آبزرویشن دی ان سے لگ رہا تھا کہ عدالت اس بات پر قائل ہوچکی ہے کہ رولنگ غیر آئینی ہے۔ رولنگ غیر آئینی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ہونے والے تمام فیصلے بے بنیاد ہیں۔ یہ ایک خیال تھا جو اُس وقت ہمارے ذہن میں آیا، مگر مقدمہ کا فیصلہ ابھی آنا باقی تھا۔
اس دن چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر لگ رہا تھا کہ حزبِ اختلاف تحریک عدم اعتماد کو منظور کروانے میں کامیاب ہوجاتی کیونکہ ان کے پاس اکثریت تھی، لیکن ووٹنگ سے پہلے اسپیکر کی رولنگ آگئی۔ عدالت نے یہ بھی فرمایا کہ یہ آئین کی شق 95 کی خلاف ورزی کا مقدمہ ہے، رولز آئین کے تابع ہیں۔
پھر عدالت نے سوال اٹھایا کہ جب وزیرِاعظم کے پاس اکثریت نہ رہے تو کیا وہ پھر بھی وزیرِاعظم رہ سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے 6 اپریل کی سماعت کے اختتام پر یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ ہم آج لمبی سماعت کے بعد مقدمے کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن کوشش کے باوجود نہیں کرپائے، ہم اٹارنی جنرل کو سنیں گے اور اگلے دن سماعت مکمل کرلیں گے۔
7 اپریل
جمعرات کا دن فیصلے کا دن تھا اس لیے سپریم کورٹ نے سماعت صبح ساڑھے 9 بجے ہی شروع کردی۔ اس دن عدالت میں کافی حد تک سکون تھا۔
علی ظفر کے دلائل میں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدم اعتماد کے بعد یہ خدشہ بھی ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگایا جاسکتا ہے جس پر علی ظفر نے کہا کہ وہ صدرِ مملکت کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ پارلیمنٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔ پھر علی ظفر، نعیم بخاری اور اٹارنی جنرل یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ گزشتہ 5 دنوں سے ملک میں کوئی آئینی بحران ہے۔ سب نے ایک بات کی کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ آئین کے مطابق ہو رہا ہے۔
فواد چوہدری گزشتہ روز صحافیوں کے ساتھ ہونے والی بدمزگی پر پشیمان تھے۔ وہ صحافیوں کے سوالات کی زد میں بھی آئے۔ ایک دن پہلے جھگڑا کرنے والے فواد چوہدری مطیع اللہ جان سے یہ کہہ رہے تھے کہ آپ نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا، کیمروں کے سامنے آپ نے مجھے رسوا کردیا۔ پھر جب ان سے ملک چھوڑنے والی خاتون کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے پنجابی میں جواب دیا 'وہ کیہڑی ساڈی پھوپی لگدی اے'۔
لیٹر گیٹ کے حوالے سے انہوں نے ایک بڑی خبر دی لیکن آف دی ریکارڈ ہے اس لیے اس کو یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا، مگر ان کا ابھی تک یہی یقین ہے کہ عدم اعتماد ایک غیر ملکی سازش ہے اور اس پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے ہم صحافی دوست بڑی امیدیں وابسطہ کیے بیٹھے تھے کہ یہ آئین اور قانون کو من و عن عدالت کے سامنے رکھیں گے، لیکن انہوں نے آتے ہی اپنے دلائل کا اس نکتے سے آغاز کیا کہ وزیرِاعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد 28 مارچ کو ہی عملی طور پر اس لیے مسترد ہوچکی تھی کہ اس دن حزبِ اختلاف کے پاس سادہ اکثریت یعنی 171 ووٹ نہیں تھے۔ اب یہ نکتہ وہ کہاں سے لائے تھے، سمجھ نہیں آیا کیونکہ نہ اس کا آئین میں کہیں ذکر ہے اور نہ اسمبلی رولز میں ایسا کچھ ہے۔
اس مقدمے کا اہم موڑ اس وقت آیا جب اٹارنی جنرل نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کیا۔ انہوں نے واضح کردیا کہ وہ اس رولنگ کا دفاع نہیں کریں گے البتہ نئے انتخابات کی بات ضرور کریں گے، کیونکہ 2018ء کے مینڈیٹ والی اسمبلی سے ممبر اپنے پاس لے کر اپوزیشن حکومت کیسے چلا سکتی اور اگر اسمبلی بحال ہو بھی گئی تو وہ اس طرح نہیں چل سکتی جس طرح تازہ مینڈیٹ والی اسمبلی چلتی ہے۔
اپوزیشن لیڈر جب وزیرِاعظم بنتے ہیں تو حکومتیں نہیں چلا کرتیں، رولنگ کے دفاع سے اٹارنی جنرل کے انکار نے تحریک انصاف کے رہنمائوں کے رنگ اڑا دیے تھے۔ پھر ایک اور اہم موڑ اس وقت آیا جب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی موجودگی میں چیف جسٹس نے یہ آبزرویشن دی کہ بظاہر رولنگ تو غلط ہے لیکن ہم اس سے آگے چلنا چاہتے ہیں۔ اس سے لگا کہ اب عدالتی فیصلہ آدھا تیتر آدھا بٹیر آئے گا اور عدالت انتخابات کا حکم دے دے گی۔ ایسے ریمارکس بھی آئے کہ حزبِ اختلاف پہلےدن سے انتخابات کی بات کر رہی ہے اب جبکہ انتخابات کا اعلان ہوا چاہتا ہے تو اپوزیشن اس سے بھاگ کیوں رہی ہے؟
چیف جسٹس نے گرتی ہوئی معیشت، سیاسی عدم استحکام اور پھر سری لنکا کی صورتحال پر اپنی آبزرویشن دی تو سب کو لگا کہ عدالت بیچ والا راستہ نکالے گی، یعنی بات وہی ہوتی جو تحریک انصاف چاہ رہی ہے۔
اسی موقع پر کچھ دیر کا وقفہ ہوا۔ جب چیف جسٹس نے رولنگ کے غلط ہونے کی بات کی تو سپریم کورٹ میں ہلچل مچ گئی، صحافی بریکنگ نیوز دینے کو دوڑے، سیاستدان اپنے رہنماؤں کو فون کرنے لگ گئے، کچھ دیر میں بلاول بھٹو زرداری، اسد محمود اور سیاسی جماعتوں کے دوسرے لیڈر بھی سپریم کورٹ میں پہنچے۔
نئے انتخابات کی تجویز پر فاروق نائیک نے اس کمرے میں ہمیں بتا دیا کہ انتخابات ہوجاتے ہیں تو ٹھیک ہیں، ہمارا کام عمران خان کو ہٹانے تک تھا، لیکن بلاول بھٹو نے عدالت کے آگے فوری انتخابات کی اس بنیاد پر مخالفت کی کہ ہمارا ہدف انتخابی اصلاحات ہیں۔ اگر اس صورتحال میں انتخابات ہوتے ہیں تو اس کے نتائج متنازعہ ہوسکتے ہیں۔
اس سے پہلے چیف جسٹس نے جب قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف سے رائے مانگی تھی تو انہوں نے بھی فوری انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہم کوشش کریں گے کہ سیاسی استحکام آئے، لوگوں کو کچھ ریلیف ملے اور انتخابی اصلاحات ہوں۔
شہباز شریف نے عمران حکومت کی طرف سے جب اپوزیشن پر غداری کے الزامات کا شکوہ کیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ پھر وہ ثبوت لائیں جنہوں نے الزامات لگائے ہیں۔جب عدالت سیاسی فریقین کو اس طرح سنے تو تنقید بھی ہوتی ہے کہ عدالت کو آئین اور قوانین کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے اور سیاسی معاملات کو زیرِ بحث نہیں لانا چاہیے۔ عدالتی ماحول سے لگ رہا تھا کہ فیصلہ وہ نہیں آئے گا جو حزبِ اختلاف چاہتی ہے۔ یہ عدالتی کارروائی پونے 4 بجے تک ختم ہوئی اور عدالت نے ساڑھے 7 بجے تک فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سیاسی قیادت کو بھی شاید اندازہ تھا کہ فیصلہ عام انتخابات کروانے سے متعلق آئے گا، اور فاروق نائیک بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ہمیں لگ رہا ہے کہ سپریم کورٹ انتخابات کا حکم دے گی۔
میرے ایک سابق سینیٹر دوست نے مجھے عدالتی کمرے میں روک کر کہا یار رولنگ غیر آئینی ہوگی تو پھر اس کمزور بنیاد پر عمارت کیسے کھڑی ہوسکتی ہے؟ فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد شہباز شریف کے حق میں وزیرِاعظم شہباز شریف کے نعرے لگنا شروع ہوگئے۔
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ
اب 7 بجے کے بعد عدالت میں گہما گہمی شروع ہوئی۔ سیکیورٹی سخت کردی گئی، پارکنگ بند ہوگئی، سیاسی کارکنان کی عدالت میں انٹری بند ہوگئی، پھر عدالتی کمرے کا دروازہ ہی بند ہوگیا۔
سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کیا اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے حزبِ اختلاف کی تجاویز پر بھی غور کیا گیا، آدھا کام چیف الیکشن کمشنر نے یہ کہہ کر آسان کردیا کہ ہم آئین کے تحت انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں لیکن مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں حلقہ بندیوں کا کام ادھورا ہے اور اس میں 4 ماہ کا وقت درکار ہے، پھر 3 ماہ عبوری حکومت کے لیے چاہئیں، یعنی کُل ملا کر 7 ماہ لگ جائیں گے۔
یہ انتہائی اہم نکتہ تھا کیونکہ انتخابات بہرحال الیکشن کمیشن نے کروانے ہیں۔ ساڑھے 8 بجے عدالت نے اپنا فیصلہ سنانا شروع کردیا۔
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ، وزیرِاعظم کی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس، صدر کا اسمبلی تحلیل کرنے کا فرمان، نگران حکومت قائم کرنے کے اقدمات، اسمبلی کا اجلاس غیر اعلانیہ مدت تک ملتوی کرنے کا فیصلہ یعنی 3 اپریل سے 7 اپریل تک کے تمام اقدمات کو عدالت نے آئین اور قانون سے بالاتر قرار دے کر کالعدم کردیا۔
وزیرِاعظم بحال ہوئے، وزرا اور مشیران کو وہی قلمدان مل گئے، لیکن وہ فیصلے سے ناخوش تھے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کر رہے تھے۔
حزبِ اختلاف حکومت کی بحالی پر اس لیے خوشیاں منا رہی تھی کہ عدالتِ عظمیٰ نے ان کو وہ سب کچھ دے دیا جو انہوں نے مانگا تھا۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ کرنے میں 5 دن ضرور لگا دیے لیکن اپنے فیصلے سے پارلیمانی جمہوریت، آئین اور قانون کا بول بالا کردیا۔ اس لیے وکلا، سول سوسائیٹی، سیاسی جماعتوں کی اکثریت اور جمہوریت پر یقین رکھنے والا ہر فرد یہی کہہ رہا ہے کہ نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا گیا ہے۔
یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ عدالت کے فیصلے نے جزبِ اختلاف کو صدرِ مملکت کے خلاف مواخذے کا مواد بھی مہیا کردیا ہے۔ وزیرِاعظم کے خلاف عدم اعتماد کے الزامات کا ہونا ضروری نہیں لیکن صدرِ مملکت کو ہٹانے کے لیے الزامات کا ہونا ضروری ہے، اور اب سپریم کورٹ نے صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو غیر آئینی قرار دے کر اپوزیشن کو یہ موقع دے دیا ہے، لہٰذا اس عدالتی فیصلے کو بنیاد بناکر اپوزیشن صدرِ مملکت کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کرسکتی ہے۔
ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔
ان سے ٹوئٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@
مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔