• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

وزیر اعظم کا آج اسلام آباد ریڈ زون کے باہر احتجاج کا اعلان

شائع April 4, 2022
وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی کوشش این آر او لینا ہے کیونکہ ان پر کرپشن کیسز ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی کوشش این آر او لینا ہے کیونکہ ان پر کرپشن کیسز ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم بیرون ملک ایجنڈے پر حکومت کو گرانے کی کوشش اور ملک میں ہونے والی غداری کے خلاف آج اسلام آباد ریڈ زون کے باہر پرامن احتجاج کریں گے۔

عوام کے سوالات کا براہِ راست جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ آج کل جو پاکستان کی صورتحال بنی ہوئی ہے اس سلسلے میں سوچا ہے کہ میں آپ کے سامنے آکر آپ کے سوالات کا جواب دوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اور میری ٹیم نے اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ہے، یہ اس لیے کیا گیا کہ ساڑھے تین سال سے اپوزیشن کہہ رہی تھی حکومت نااہل ہے، یہ عوام میں جائیں گے تو عوام انہیں انڈے ماریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے، وزیراعظم

وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے تو انتخابات کا اعلان کردیا ہے، تو اب یہ سپریم کورٹ کیوں جارہے ہیں، یہی آپ کہتے تھے کہ یہ حکومت نااہل اور سلیکٹڈ ہے، اب ہم نے الیکشن کا اعلان کردیا ہے تو آپ سپریم کورٹ میں کیا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت بحال ہو، عوام کے فیصلے سے واپس آنا بہتر ہے یا ایک باہر کی سازش کا حصہ بن کر، پارلیمنٹیرینز کے ضمیر خرید کر حکومت بنانا بہتر ہے۔

عمران خان نے کہا کہ میں آپ کو بتایا چاہتا ہوں یہ ایسا کیوں چاہتے ہیں، ان کی سب سے بڑی کوشش این آر او لینا ہے کیونکہ ان پر کرپشن کیسز ہیں اور یہ ضمانت پر ہیں اور باہر بھاگے ہوئے ہیں، ان کی ساری کوشش یہ ہے کہ اقتدار میں آئیں گے اپنے اوپر کیسز ختم کریں گے اور ’این آر او ٹو‘ لیں گے۔

ان کہنا تھا کہ پہلا این آر او مشرف نے دیا تھا ان کے سارے کرپشن کیسز تب معاف ہوگئے تھے اور اب 10 سالوں میں نئے کیسز بنے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ 90 فیصد سے زائد کیسز ان کے دور کے بنے ہوئے ہیں اور اب یہ چاہتے ہیں کہ نیب کو مکمل طور پر ختم کیا جائے، ان کے کیسز معاف کیے جائیں اور یہ پھر سے ملک کا پیسہ باہر بھجوانا شروع کریں۔

یہ بھی پڑھیں: سڑکوں پر نکل کر سازش کے خلاف احتجاج کریں، وزیراعظم کی نوجوانوں سے اپیل

انہوں نے کہا کہ یہ چاہتے ہیں کہ این آر او بھی مل جائے، اپنے امپائرز بھی کھڑے کردیں، اپنے دفاتر بھی کھڑے کردیں، الیکشن کمیشن میں بھی اپنے لوگ ڈال دیں، مخالفین چاہتے ہیں کہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا استعمال نہ ہو اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہ دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ساری زندگی انہوں نے فکس میچز کھلیں ہیں، ان کی پوری کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن، بیوروکریسی اور سارا عملہ تیار کر کے پھر یہ الیکشن لڑیں۔

آئندہ الیکشن میں ایسے لوگوں کو ٹکٹ دینا ہے جو ملک کا سوچتے ہیں'

مینڈیٹ چوری ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا پہلے ہمیں تجربہ نہیں تھا اب ہم انہیں جانتے ہیں، ہمیں اس الیکشن میں بہت بڑا تجربہ ملا ہے، ہم بہت سوچ سمجھ کر ٹکٹ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک پارلیمنٹ میں اس طرح کے لوگ نہ آئیں جو ملک کا نہ سوچیں اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ سب نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے ضمیر فروش کیے، میں سمجھتا ہوں ان لوگوں کی سیاست ختم ہوجائے گی، میں نے صرف ان لوگوں کو ٹکٹ دینا ہے جو ملک کا سوچتے ہیں اور میں خود ان کا انٹرویو کروں گا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت کے دوران ساڑھے تین سال کا دورانیہ بہت مشکل وقت تھا، اس تجربے سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے، ہمارے ساتھ ایسے لوگ تھے جو سارا وقت ہمیں بلیک میل کرتے رہتے تھے، ایسے لوگ تھے جنہیں پاکستان کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی، صرف اپنی ذات کے لیے فائدے اٹھانے کے لیے ہمارے ساتھ تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ہم نے ان لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دینے ہیں جو اپنی ذات سے بالاتر ہوکر پاکستان کے لیے وژن رکھتے ہیں، اگر ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے کر ہم ہار بھی جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اس طرح کے لوگوں کے ساتھ جیتنا جو اپنا ضمیر بیچ سکتے ہیں اس سے بہتر ہے کہ ہم ہار جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: اتوار کو عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہوگا مزید تگڑا ہو کر سامنے آؤں گا، وزیر اعظم

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک ہوٹل میں لوگوں کو خرید کر لے جایا جارہا ہے، پنجاب کے لوگوں نے کہا کہ وہ اس ہوٹل کے باہر احتجاج کریں جہاں خرید و فروخت ہو رہی ہے، ہماری جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم این ایز کو خرید کر دوسری حکومت بنانا کوئی جمہوریت نہیں ہے، اس پر باہر سے بھی ایک سازش کا حصہ بن جائے کہ جو کہیں کہ اگر عمران خان کی حکومت گرے گی تو ہم آپ کے ملک کی مدد کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ خرید و فروخت اور بیرونی سازش ملا کر یہ کرنا جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔

وزیر اعظم نے عوام کو احتجاج کرنے کی ہدایت بھی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حالات میں عوام کو احتجاج کرنا چاہیے، میں اعلان کرتا ہوں کہ میں بھی اس احتجاج میں شامل ہوں گا، ہم اسلام آباد میں ریڈ زون کے باہر آج عشا کے بعد پُرامن احتجاج کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ نے مجھے استعفیٰ سمیت تین آپشنز دیے، وزیراعظم عمران خان

انہوں نے کہا کہ ہم ملک میں ہونے والی غداری کے خلاف احتجاج کریں گے، یہ باہر کےایجنڈے پر حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی ہے۔

وزیر اعظم نے لاہور میں بھی مذکورہ ہوٹل کے باہر احتجاج کی درخواست کی۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی قوم کو بتانا چاہتا ہوں پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات ریکارڈ پر ہے، دولت میں اضافہ ہوا ہے، ٹیکسز میں اضافہ ہوا ہے، برآمدات میں اضافہ ہوا، بیرون ملک پاکستانیوں نے ریکارڈ رقم بھیجی جس کی وجہ سے ہمارا ملک مستحکم تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سے عدم اعتماد کی تحریک آئی ہے سارے ملک میں ایک بحران کا المیہ بنا ہوا ہے، آپ کے روپے پر دباؤ آرہا ہے، کسی کو نہیں معلوم آگے کیا ہوگا، یہ معاشی بحران کا سبب بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک طاقتور ملک نے ناراض ہوکر ہمیں کہا کہ آپ روس کیوں چلے گئے؟ وزیراعظم

عمران خان نے کہا کہ میں اپوزیشن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان کو کیا ضرورت تھی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی، ان کا پلان 6 ماہ سے چل رہا تھا جس کے شواہد ہمارے پاس موجود ہیں، اسی لیے اسپیکر نے یہ تحریک مسترد کرنے کی رولنگ دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری وجہ یہ تھی کہ انہیں فکر ہوگئی تھی کہ اگر ہماری حکومت نے 5 سال مکمل کر لیے تو ان کی سیاسی دکانیں بند ہوجائیں گی۔

'وفاداری تبدیل کرنے والوں کو نااہل کرنے کے ساتھ جیل میں بھی ڈالنا چاہیے'

براہ راست سوال جواب سیشن کے دوران ایک کالر نے سوال کیا کہ کیا پیسے لے کر ووٹ بیچنے والوں اور سیاسی وفاداری تبدیل کرنے والوں کو تاحیات نااہل کردینا چاہیے، اس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کو صرف نااہل نہیں کرنا بلکہ ان کو جیل میں بھی ڈالنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک لوگوں کو جرم کے ارتکاب پر سزا کا خوف نہ ہو اس وقت تک جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا، جب مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو معاشرے کی تباہی کے راستے کھل جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب یہ خرید و فروخت ہوئی تو ہمیں بھی کہا گیا کہ ہم بھی پیسا لگا کر لوگ خرید لیتے ہیں لیکن میرا ضمیر اس بات پر تیار نہیں تھا کیونکہ میں ضمیر خریدنے کی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا تھا، اگر ہم بھی ایسا کرتے تو پھر ہم میں اور مخالفین میں کیا فرق رہ جاتا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے دور حکومت میں پنجاب میں بے انتہا ترقیاتی کام ہوئے، اگر صحیح معنوں میں کی فیکٹر انڈیکیٹر کی روشنی میں پنجاب کی ترقی کا سندھ سے موازنہ کیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ پنجاب میں نچلی سطح پر شاندار ترقیاتی کام ہوئے، غریبوں کے لیے جس طرح کے اقدامات کیے گئے، کسان کارڈ جاری کیے گئے، اتنا کام پنجاب کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی زبردست کام کیے، وہاں سب سے پہلے صحت کارڈز جاری کیے گئے، ہماری پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے ہمیں بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا، ان علاقوں میں جہاں مخالفین کی پوزیشن بہتر تھی وہاں بھی لوگوں نے ہمیں کامیاب کرایا، بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی سیاست کا جنازہ نکال دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے ہمارا ساتھ نہیں بھی دینا تھا انہوں نے بھی ان 30، 30 سال سے آزمائے ہوئے سیاست دانوں کے خلاف ہمارا ساتھ دیا، ہمیں تو اقتدار میں آئے ہوئے ابھی صرف 3 سال ہوئے جبکہ ان کو اقتدار کی باریاں لیتے 30 سال ہوگئے۔

'امریکا سمیت کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں'

عمران خان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کہتے ہیں کہ بیگرز آر نات چوزرز، تو یہ بتائیں کہ ملک کو بیگر اور بھکاری بنایا کس نے ہے، ملک کو مقووض اور بھکاری ساڑھے سال حکومت کرنے والوں نے بنایا ہے یا انہوں نے بنایا ہے جنہوں نے 30 سال ملک پر حکومت کی، شہباز شریف کے بیان کا مطلب ہے کہ کیونکہ ہم مقروض ہیں تو ہمیں امریکا کی غلامی کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں امریکا سمیت دنیا کے کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں، نہ میں اینٹی امریکا ہوں، نہ اینٹی انڈیا ہوں، میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ میں کسی ملک کے خلاف نہیں، کوئی جاہل شخص ہوگا جو کسی قوم اور ملک کے خلاف ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے امریکا کی نہیں بلکہ اس کی افغانستان میں اختیار کی گئی پالیسیوں کی مخالفت کی، میں امریکا سے دوستی کی حمایت کرتا ہوں، میں امریکا سے دوستی چاہتا ہوں، دوستی کا مطلب باہمی عزت و احترام کا تعلق ہے، ایک دوست بہت امیر ہوسکتا ہے، دوسرا دوست بہت غریب ہوسکتا ہے لیکن دونوں کی دوستی جب ہوتی ہے جب دونوں کے درمیان احترام کا تعلق ہو۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ایک ملک دوسرے ملک کو حکم دے کہ آپ ان کی جنگ لڑیں، اس میں آپ کے 80 ہزار لوگ بھی مر جائیں، آپ کا ملک تباہ ہوجائے اور وہ ملک آپ کا شکریہ بھی ادا نہ کرے، پھر حکم کرے کہ وہ ملک میں جائیں اور اس ملک میں نہ جائیں، میں اس پالیسی کے خلاف ہوں۔

انہوں نے کہا کہ حکم دینے والے ملکوں کی عادت خراب کرنے والے یہ ہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ بیگرز آر ناٹ چوزرز، جو ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں تمام ممالک سے دوستی کرنا چاہتا ہوں، دوستی کا مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کی کئی باتیں مانیں گے، لیکن اگر آپ کی باتیں ہمارے لوگوں کے مفادات کے خلاف ہیں تو میں آپ کی باتیں نہیں مانوں گا، یہ ہوتی ہے دوستی، دوسری جانب غلامی یہ ہوتی ہے کہ آپ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوجائیں اور جو حکم بھی ملے اس کی تعمیل کریں۔

عمران خان نے کہا کہ میں قوم کو کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے اسی طرح غلامی میں رہنا ہے، اگر آپ کہتے ہیں کہ ہم مقروض ہیں تو ہمیں غلامی کرنی چاہیے، میں کہتا ہوں کہ اس غلامی سے بہتر موت ہے۔

ان کا کہنا تھا جو مرضی حالات ہوں، میں یہ بات نہیں مانتا کہ آپ کسی ملک کے لیڈر کے سامنے پرچی پکڑ کر کھڑے ہوں کہ کوئی غلطی نہ ہوجائے، یہ ملک کے عوام کی ذلت ہے، وہ شخص جو اچکن سلوا کر بیٹھا ہے کہ کیونکہ ہم مقروض ہیں اس لیے ہمیں غلامی کرنی پڑے گی تو بتائیں کہ قوم کدھر رہ جاتی ہے، جب تین دفعہ ملک کا وزیر اعظم بننے والا شخص جب امریکی صدر کے سامنے پرچی پکڑ کر بیٹھا ہوتا ہے تو قوم کی عزت نفس اور خودداری کہاں جاتی ہے۔

'آئندہ الیکشن میں سندھ میں پی ٹی آئی جیتے گی'

کراچی کے مسائل سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ کراچی کے مسائل کو سمجھنے کے لے سب سے پہلے آپ کو 18ویں ترمیم کو سمجھنا چاہیے جو ان دو بڑی پارٹیوں نے مل کر کی تھی، جس کے تحت وفاقی حکومت صوبوں کو فنڈز دے دیتی ہے، اب صوبائی حکومت کی مرضی ہے کہ وہ فنڈز کیسے خرچ کرتی ہے، اس معاملے میں صوبوں پر وفاق کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ الیکشن میں سندھ میں پی ٹی آئی جیتے گی، سندھ میں اس وقت بدترین صورتحال ہے، کراچی میں بھی بری صورتحال ہے، شہر کی ترقی رک گئی ہے، بڑے شہروں کے مسائل حل کرنے کے لیے میری تجویز مقامی حکومت کا نظا ہے، شہر کے میئر کا انتخاب براہ راست ہو جس کے پاس اختیارات ہوں، جب تک یہ نظام نہیں آئے گا بڑے شہروں میں ترقی نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے کئی بڑے منصوبے شروع کیے جو ابھی مکمل نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود اتنے کم وقت میں بھی ہم اتنے کام کرچکے ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں کسی حکومت نے نہیں کیے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024