• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سائنسدانوں نے پہلی بار مکمل انسانی جینوم سیکونس تیار کرلیا

شائع April 1, 2022
اسے بہت بڑی پیشرفت قرار دیا جارہا ہے — اے پی فوٹو
اسے بہت بڑی پیشرفت قرار دیا جارہا ہے — اے پی فوٹو

جب سائنسدانوں نے 2003 میں انسانی جینوم کا مکمل سیکونس تیار کرنے کا اعلان کیا تھا تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ جلدبازی سے کام لے رہے ہیں۔

درحقیقت لگ بھگ 20 سال بعد بھی انسانی جینوم کے لگ بھگ 8 فیصد حصے کا سیکونس مکمل نہیں ہوسکا تھا جس کی بڑی وجہ ڈی این اے کے ایسے حصوں کی موجودگی ہے جن کو باقی سے جوڑنا بہت مشکل ہے۔

مگر سائنسدانوں کے ایک کنسورشیم نے نے آخرکار ڈی این اے کے باقی ماندہ حصے کی جگہ بھرلی ہے اور پہلا مکمل اور گیپ لیس جینوم سیکونس تیار کیا ہے۔

خیال رہے کہ آپ کا جینوم وہ معلومات ہیں جو انسانی جسم کی تعمیر اور اسے صحت مند رکھنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

یہ ایک کیمیکل کوڈ میں لکھا ہوتا ہے جسے ڈی این اے کہتے ہیں۔ آپ کا جینوم ڈی این اے کے ہزاروں چھوٹے سلسلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ انہیں جینز کہا جاتا ہے۔ آپ کا جینوم آپ کے جسم میں تمام خلیوں کے اندر پایا جاتا ہے۔

بہت سے امراض آپ کے جینز میں تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تبدیلیاں موروثی ہو سکتی ہیں۔

اب سائنسدانوں کے تیار کردہ اس جینوم سیکونس کو ٹی 2 ٹی سی ایچ ایم 13 کا نام دیا گیا ہے جو بہت بڑی پیشرفت قرار دی جارہی ہے۔

اس وقت ڈاکٹر جی آر سی ایچ 38 نامی جینوم کو استعمال کرکے امراض سے منسلک میوٹیشنز کو تلاش کرتے ہیں یا سائنسدان انسانی جینیاتی ورژن میں ارتقا کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔

اس نئے ڈی این اے سیکونسز میں ایک حصے سینٹرومیئر کے بارے میں نئی تفصیلات کا انکشاف بھی ہوا ہے۔

یہ حصہ وہ ہے جہاں کروموسومز خلیات کو پکڑتے اور الگ کرکے یقینی بناتے ہیں کہ خلیات درست مقدار میں کروموسومز اولاد میں منتقل کریں۔

تحقیقی ٹیم میں شامل کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہر نکولس الٹیموس نے بتایا کہ جینوم کا مکمل سیکونس ہمیں بہت کچھ بتایا ہے جیسے وہ کس طرح منظم ہوتے ہیں، متعدد کروموسومز کے بارے میں ایس پہلے کچھ علم نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ہمارے پاس اس حوالے سے دھندلی تصویر تھی جو اب بالکل واضح ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ سیکونسنگ اور تجزیے پر سو سے زائد افراد کی ٹیم نے کام کیا تھا۔

اس گروپ کا تیار کردہ گیپ لیس سیکونس 3.055 ارب بی پیئرز (ایسے یونٹس جہاں کروموسومز اور ہمارے جینز بنتے ہیں) اور 19 ہزار 969 پروٹین کوڈنگ جینز پر مبنی پے۔

پروٹین کوڈنگ جینز میں تحقیقی ٹیم نے 2 ہزار نئے کوڈنگ جینز کو بھی دریافت کای جن میں سے بیشتر ڈس ایبل تھے مگر 115 ممکنہ طور پر کام کرسکتے ہیں۔

انہوں نے 20 لاکھ اضافی ویرینٹس بھی دریافت کیے جن میں سے 622 طبی جینز کے حوالے سے اہم ہیں۔

محققین نے بتایا کہ مستقبل میں جب کسی فرد کا جینوم سیکونس تیار کیا جائے گا تو ہم اس کے ڈی این اے کے تمام ویرینٹس کو شناخت کرنے کے قابل ہوں گے اور ان تفصیلات کو طبی نگہداشت کی بہتر گائیڈ کے لیے استعمال کرسکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انسانی جینوم سیکونس کو مکمل کرنا ایسا ہی جیسے ہم نے نیا چشمہ پہن لیا ہو، ہم اب واضح طور پر سب کچھ دیکھ سکتے ہیں اور ان کے بارے میں سمجھنے کے حوالے سے مزید ایک قدم قریب آگئے ہیں۔

سیکونس کے حوالے سے تحقیقی مقالہ طبی جریدے جرنل نیچر میتھوڈز میں شائع ہوا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024