• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

اتوار کو عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہوگا مزید تگڑا ہو کر سامنے آؤں گا، وزیر اعظم

شائع March 31, 2022 اپ ڈیٹ April 2, 2022
—فوٹو: ریڈیو پاکستان
—فوٹو: ریڈیو پاکستان
وزیراعظم قوم سے خطاب کر رہے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم قوم سے خطاب کر رہے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اتوار کو ووٹنگ میں جو بھی فیصلہ آئے گا میں اس کے بعد اور زیادہ تگڑا ہو کر سامنے آؤں گا۔

قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں قوم سے براہ راست خطاب کر رہا ہوں کیونکہ پاکستان ایک ایسے وقت میں ہے جہاں ہمارے سامنے دو راستے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو ہٹانے کی ‘غیرملکی سازش’میں میڈیا کے چند سینئر لوگ بھی شامل ہیں، فواد چوہدری

وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت اور سیاسی جدوجہد سمیت پس منظر پر تفصیلی بات کی اور اپوزیشن پر ایک مرتبہ پھر غیرملکی سازش میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے بیرون ملک سے آنے والے 'دھمکی آمیز مراسلے' پر بات کرتے ہوئے امریکا کا نام لیا تاہم پھر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکا نہیں بلکہ کسی ملک سے آیا ہے۔

قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'میں آج آپ کے پاس یہ ساری بات کرنے کے لیے اس لیے آیا ہوں کہ ابھی ہمیں 8 مارچ یا اس سے پہلے 7 مارچ کو ہمیں امریکا نے، امریکا نہیں باہر سے ملک سے مطلب کسی اور ملک سے پیغام آتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں اس لیے پیغام کی بات کر رہا ہوں اور اسی لیے براہ راست خطاب کر رہا ہوں، یہ ایک کسی آزاد ملک کے لیے جس طرح کا ہمیں پیغام آیا ہے، یہ ہے تو وزیراعظم کے خلاف ہے لیکن یہ ہماری قوم کے خلاف ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے سب سے زیادہ تکلیف یہ نہیں ہے، بلکہ یہ واضح لکھا ہوا ہے کہ جناب اگر عدم اعتماد کا ان کو پہلے سے پتہ تھا، حالانکہ ابھی عدم اعتماد درج نہیں ہوئی تھی، اس کا مطلب یہ جو ہو رہا تھا یہ ان کے باہر کے لوگوں سے رابطے تھے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'اس میں مزیدار چیز یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت یا پاکستان کی حکومت کے خلاف نہیں، صرف عمران خان کے خلاف ہے، وہ یہ کہتے ہیں اور بہانہ کرتے ہیں کی ہمیں کیوں پاکستان پر غصہ ہے لیکن پاکستان کو معاف کر دیں گے کہ اگر عمران خان عدم اعتماد ہار جاتا ہے یعنی اگر یہ تحریک عمران خان کے خلاف ناکام ہوجاتی ہے تو پاکستان کو ایک مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا'۔

'یہ سرکاری مراسلہ ہے'

انہوں نے کہا کہ 'یہ ریکارڈڈ ہے، یہ دیکھ رہا ہوں، میڈیا کے لوگ کور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا نہیں تو ایسا نہیں لیکن یہ سرکاری دستاویز ہے، یہ حکومت پاکستان کو، لوگ ہمارے نمائندے سفیر نوٹس لے رہے تھے، جس میں بنیادی طور پر یہ کہا گیا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہتا ہے تو ہمارے تعلقات بھی خراب ہوں گے اور آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا'۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم استعفیٰ دیں گے نہ کسی سے کوئی محفوظ راستہ مانگا، شہباز گل

ان کا کہنا تھا کہ 'میرا قوم سے سوال ہے کہ کیا ہماری یہ حیثیت ہے، 22 کروڑ کی قوم کی، کیا ہمیں کوئی باہر کا ملک، کوئی وجہ نہیں بتا رہا، ایک چیز بتائی کہ عمران خان نے کوئی اکیلا فیصلہ کیا روس جانے کا، حالانکہ روس جانے کا فیصلہ تھا تو وزارت خارجہ، عسکری قیادت کی مشاورت تھی، پرانے خارجہ سیکریٹریز کو اسی کمرے میں بلایا تھا ان سے مشاورت کرکے گئے تھے'۔

انہوں نے کہا کہ 'لیکن اس میں لکھا ہوا حالانکہ ہمارا سفیر بتارہا ہے کہ مشاورت سے ہوا ہے لیکن وہ کہتا ہے نہیں یہ صرف عمران خان کی وجہ سے ہوا ہے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'پھر انہوں نے لکھا کہ جب تک وہ ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہوسکتے، وہ اصل میں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جب جائے گا تو عمران خان کی جگہ دوسرے آئیں گے تو ان سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں اپنی قوم کے سامنے یہ چیز رکھنا چاہتا ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرا آج آپ سے بات چیت کرنے کا مقصد یہ تو نہیں ہے کہ باہر سے کوئی ملک یہ کہے کہ ہاں ہمیں آپ کی خارجہ پالیسی نہیں پسند، پتہ نہیں کوئی کیا وجہ بتارہا ہے کہ روس کیوں گئے، وہ یورپی لیڈرز بھی روس چلے گئے لیکن خاص پاکستان کو کہنا کہ آپ کیوں گئے جیسے ہم ان کے نوکر ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس میں سب سے مضطرب کرنے والی چیز یہ ہے کہ ان کے رابطے ان لوگوں سے ہیں، جن کے ذریعے ساری سازش ہوئی ہے جو یہاں بیٹھے ہوئے اور یہاں کون بیٹھے ہیں تھری اسٹوجز ہیں، اسٹوجز کا مطلب ہوتا ہے جو کہ بڑے وفادار غلام ہوتے ہیں'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'یہ چاہ رہے ہیں کہ عمران خان جائے لیکن اگر یہ آجائیں، جنہوں نے ابھی عدم اعتماد کیا ہوا ہے، تو سب ٹھیک ہوجائے گا، سب سے پہلے میرا سوال ہے کہ کیا آپ اپنے ملک کے اندر اجازت دیں گے کسی کو قیادت میں آنے، جن کے اوپر نیب کے کیسز ہیں، جن پر اربوں روپے کے کیسز عدالتوں میں ہیں، وہ جن کو پاکستان کی عدالت نے مجرم قرار دیا، جو جھوٹ بول کر بھاگا ہوا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'کیا وہ ان لوگوں کو جن کے اوپر باہر کے ملکوں میں چوری، کرپشن پر مضمون لکھے ہوئے، بی بی سی سی کی دو ڈاکیومنٹریز آئی ہوئی ہیں ان کی چوری کی، کیا یہ لوگ اپنے ملک میں اس طرح کے لوگوں کو قیادت میں آنے دیں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ اپنے ملک میں جھوٹ بولنے پر نکال دیتے ہیں، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر، ان کے لوگوں کا اخلاقی معیار اس سطح پر ہے کہ چھوٹی چیز پر نکال دیتے ہیں، ہمارے ملک میں نیب کے اربوں کے کیسز ہیں، 30 سال سے کیسز ہیں'۔

مزید پڑھیں: ’دھمکی آمیز خط‘ ایک وزیر نے خود کسی سفیر سے لکھوایا، بلاول بھٹو کا دعویٰ

وزیراعظم نے کہا کہ 'پہلے جنرل مشرف نے ان کو این آر او دیا اور سارے کیسز معاف ہوگئے، پھر 10 سال میں اربوں کے مزید کیسز چڑھ گئے، ان کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں لیکن عمران خان ان کو پسند نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے اگلی چیز سمجھ میں نہیں آرہی جو اپنی قوم سے پوچھ رہا ہوں کہ جب ان کو بھی پتہ ہے، یاد رکھنا جب ان کی انٹیلی جینس ہوتی ہے ان کو سارا پس منظر پتہ ہوتا ہے، میرا ان کو سب پتہ ہے، ساری سیاسی قیادت ہے، ان کا سب پس منظر پتہ ہے، ان کی ایک ایک چیز پتہ ہے، ان کے بیرون ملک کس اکاؤنٹ میں کتنے پیسے پڑے ہوئے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ان کو سب پتہ ہے ان کی بے نامی جائیدادوں کی جو بیرون ملک انہوں نے اربوں روپے کی لی ہوئی ہے، ہر تفصیل ان کو پتہ ہے، ایک ہمارا نوجوان سیاست دان ہے، رون سسکنڈ کی ایک کتاب ہے دا وے آف دا ورلڈ، جس میں وہ لکھتا ہے کہ ان کی نیشنل سیکیورٹی ٹیپ کر رہی ہے، اس کی والدہ اس کو ٹیلی فون کرکے بینک اکاؤنٹس بتارہی ہیں، یعنی ادھر تک ان کو پتہ ہے'۔

'ڈرون حملوں پر تینوں نے مذمت نہیں کی'

اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ جو تین لوگ ان کو پسند آگئے ہیں، ان کی کیا خاصیت جو ان کو پسند آگئی، جنرل مشرف کے برسوں کے اندر 11 ڈرون حملے ہوئے، یہ تینوں اکٹھے اقتدار میں تھے، ان کے 10 سال میں اس ملک میں 400 ڈرون حملے ہوئے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ایک دفعہ ان کے منہ سے نہیں نکلا کہ ہم مذمت کرتے ہیں، حامد کرزئی افغانستان میں جب وہاں ڈرون حملوں اور بمباری سے بے قصور لوگ مرتے تھے تو وہ مذمت کرتا تھا جہاں افغانستان میں بیرونی افواج تھیں، یہاں ہم بیٹھے ہوئے ہیں 400 ڈرون حملوں میں ایک دفعہ مذمت نہیں کی، اسی لیے یہ ان کو موزوں ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن کی ایک وکی لیکس، وکی لیکس کیا تھی کہ جس طرح پاناما پیپرز کا انکشاف ہوگیا تھا، انٹرنیشنل خفیہ پیپرز یا دستاویزات لیک ہوگئے تھے، وکی لیکس میں انکشاف ہوتا ہے کہ جو پاکستان کے اندر امریکی سفیر این پیٹرسن تھیں اس کو فضل الرحمٰن کہتا ہے مجھے موقع دیں تو میں بھی وہیں خدمت کروں گا جو باقی کرتے ہیں'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'نواز شریف کا برکھادت کی کتاب میں ہے کہ نیپال میں نریندر مودی سے چھپ چھپ کر مل رہا تھا اپنی فوج سے بچنے کے لیے، ڈان لیکس میں کیا تھا، ہندوستان کو پیغام دیا جارہا تھا کہ فوج کر رہی ہے تو فوج کر رہی ہے میں نہیں کر رہا ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'آصف زرداری کا باب ووڈ ورڈ کی کتاب میں ہے کہ جب ان کا سی آئی اے چیف ان سے کہتا ہے بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں تو فکر نہ کریں اگر ڈرون حملے میں بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں تو مجھے فرق نہیں پڑتا، یہ پاکستان کا صدر دوسروں کو کہتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ملک کا صدر کیسے بات کر رہا ہے، اس طرح کے لوگ ان کو پسند ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'شہباز شریف کا بیان کہ عمران خان نے ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر غلطی کی ہے، ایبسلوٹلی ناٹ میں کیا تھا، میں نے صرف یہ بات کہی کہ ہم امن میں آپ کے ساتھ ہیں، ہم جنگ میں یا تنازع میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں، افغانستان یا کہیں بھی امن چاہتے ہیں تو ہم ساتھ ہیں'۔

'میں آزاد خارجہ پالیسی چاہتا ہوں'

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'میری پالیسی یہ ہے کیونکہ ہم آزاد ہیں، یعنی ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں، ہماری کریڈیبلٹی ہوتی ہے کہ ہم ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ صرف تب ہوتی ہےجب لوگ سمجھیں کہ آپ کی خارجہ پالیسی آزاد ہے، جب لوگ پہلے سمجھتے ہیں کہ جدھر سے حکم آئے گا آپ نے وہی کرنا ہے، آپ کو اتنی بھی شرم نہیں ہے کہ آپ کے ملک میں آپ کا دوست بمباری کر رہا ہے، آپ کے لوگ مر رہے ہیں، آپ اس کو کچھ نہیں کہہ رہے ہیں تو آپ کی کیا کریڈیبلٹی ہوگی اور دنیا آپ کی کیا عزت کرے گی'۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم آج رات قوم سے خطاب کریں گے، فواد چوہدری

ان کا کہنا تھا کہ 'جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے تھے، تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے پوچھیں ان کو کس ذلت کا سامنا کرنا پڑا، ایئرپورٹس پر پکڑ کر گرفتار کیا جاتا تھا، عام بے قصور لوگوں کو پاکستانیوں کو باہر جیل میں بھیج ڈال دیتے تھے جبکہ یہاں ہم ان کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور باہر پاکستانی دشمن بنے ہوئے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'کبھی ان سے پوچھیں، کتنے پاکستانیوں کو جیل میں ڈالا گیا، کبھی کسی نے بات کی، کسی نے ان کے لیے اسٹینڈ لیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں کسی کے خلاف بات نہیں کرتا، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ میری سب سے بڑی ذمہ داری 22 کروڑ لوگ ہیں، ان کے لیے خارجہ پالیسی بناؤں'۔

شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ دستاویز ٹھیک نہیں ہے، اگر ٹھیک ہوتو آپ ہمارے ساتھ آجاتے تو آج جب پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے اندر رکھی گئی تو آکر کیوں نہیں دیکھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس دستاویز پر پہلے لوگوں نے مذاق اڑیا اور کہا کہ جعلی ہے، پہلے میں نے کابینہ میں رکھی، ساری کابینہ کو منٹس کا بتایا گیا، اس کے بعد قومی سلامتی کونسل کا اجلاس کیا جہاں سارے اپنے سروسز چیف کے سامنے وہ دستاویز رکھی، پھر پارلیمنٹ کی کمیٹی کے اندر لے گئے اور سینئر صحافیوں کو دکھایا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'صرف یہ کہنے کے لیے کہ یہ کوئی اکسانے کی بات نہیں ہے، جو میں نے آپ کو بتایا اس دستاویز میں اس سے زیادہ خوف ناک چیزیں ہیں'۔

'ہمارے نظام انصاف میں طاقت ور کو قانون کے نیچے لانے کی صلاحیت نہیں'

وزیراعظم نے کہا کہ 'ہماری اب اتوار کو ووٹ دی جائے گی، اس اتوار کو اس ملک کا فیصلہ ہونے والا ہے، یہ ملک اب کس طرف جائے گا، کیا وہی غلامانہ پالیسی، کرپٹ لوگ، جن کے اوپر 30،30 سال سے کیسز ہیں، نیب کے اندر کیسز پڑے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'کوئی اور ملک ہوتا جس کے اندر انصاف کا نظام زیادہ طاقت ور کو قانون کے نیچے لانے کی جن کی صلاحیت ہے دنیا میں جو بھی خوش حال ملک ہیں جہاں غربت نہیں ہے، ترقی کی ہے، خوش حالی ہے اور ترقی یافتہ ملک ہیں، اس سارے ملکوں کی ایک چیز مشترک ملے گی طاقت ور مجرم کو قانون کے نیچے لانے کی ان کے پاس صلاحیت ہوتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے انصاف کے نظام میں اب تک صلاحیت نہیں ہے، یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے، اربوں روپے کے کیسز ہیں لیکن کچھ نہیں ہو رہا ہے'۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'میں پاکستان کی اس پہلی نسل ہوں جو ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئی کیونکہ پاکستان میری پیدائس سے چند سال پہلے بنا تھا، ہمارے والدین اس وقت پیدا ہوئے جب برصغیر میں انگریز قابض تھے'۔

انہوں نے کہا کہ 'لوگوں کو انگریزوں کی غلامی بری لگتی تھی، ہمیں بچپن سے بتایا گیا تھا کہ خود داری ایک آزاد قوم کی نشانی ہوتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کا مقصد بڑا عظیم تھا، ہم نے اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا، جب ہم اسلامی فلاحی ریاست کہتے ہیں تو اس کا مطلب مدینہ کی ریاست ہوتا ہے'۔

'سیاست شروع کرنے کے تین مقاصد تھے'

وزیراعظم نے کہا کہ 'جب میں نے سیاست شروع کی تو منشور میں تین چیزیں رکھیں، پہلے انصاف، دوسرا انسانیت اور تیسری چیز خود داری تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'غلامی چاہے پیسے کی ہو یا دوسری چیزوں کی وہ شرک ہے، اللہ اگر میرے اندر ایمان نہیں ڈالتا تو میں سیاست میں نہیں آتا اور میرے پاس سب کچھ تھا، تو مجھے سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے پاکستان کی اونچ نیچ دیکھی ہے، ہم بچے تھے تو پاکستان کی مثالیں دی جاتی تھیں، جنوبی کوریا سیکھنے کے لیے پاکستان آیا تھا، ملائیشیا کے شہزادے اسکول پڑھنے پاکستان آئے تھے اور میرے ساتھ پڑھے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں پاکستان کو ذلیل ہوتے دیکھا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانیوں کو ذلت ملی'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'شاہین اس وقت اوپر جاتا ہے جب وہ مزاحمت کرتا ہے اور مشکل کا سامنا کرتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم زمین میں چونٹیوں کی طرح رینگ رہے ہیں، میں نے ہمیشہ ایک چیز کہی کہ میں کبھی نہیں جھکوں اور نہ اپنی قوم کو جھکنے دوں گا اور کبھی اس سے پیچھے نہیں ہٹا، جب اقتدار ملا تو فیصلہ کیا کہ آزاد خارجہ پالیسی ہوگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آزاد خارجہ کا مقصد پاکستان اور پاکستانیوں کا فائدہ تھا، کبھی کسی کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'میں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی کیونکہ نائن الیون میں پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا'۔

انہوں نے کہا کہ 'جو پاکستانیوں کی جانی قربانی دی گئی وہ امریکا سمیت کسی ملک کی نہیں دی گئی، کوئی نیٹو ملک نے اتنی جانی قربانی نہیں دی، قبائلی علاقے پرامن ترین تھا، وہ علاقے کرائم فری تھے'۔

قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ 'مجھے جب حکومت ملی تو پہلے دن سے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے لوگوں کے لیے ہوگی، یہ کسی کے خلاف نہیں تھی، امریکا یا کسی اور ملک کے خلاف نہیں تھی، یہاں تک بھار تکے خلاف بھی نہیں تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت کے خلاف 5 اگست 2019 کو کشمیر میں بین الاقوامی قانون توڑا تو اس کے خلاف ہوگیا'۔

'ڈراما کررہے ہیں عمران خان نے ملک خراب کردیا'

وزیراعظم نے کہا کہ 'آج کیوں یہ سارا ڈراما کیوں کر رہے ہیں عمران خان نے سارا ملک خراب کیا، عمران خان کو ابھی ساڑھے تین سال ہوئے، 30 سال سے آپ اس ملک میں باریاں لے رہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ حالات خراب تو یہ ساڑھے تین سال میں ہوئے ہیں، میں چیلنج کرتا ہوں کہ کسی بھی فورم میں آزاد ماہرین کو بلائیں اور پوچھیں، ساڑھے تین سال میں ہوا ہے ان کےکسی دور میں نہیں ہوا'۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 'اب یہ سارے اکٹھے ہیں تو قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا اتوار کو جو ووٹ ہو رہا ہے، کون کدھر جائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے کسی نے کہا کہ عمران خان آپ استعفیٰ دیں، میں استعفیٰ دوں، آخری گیند تک میں مقابلہ کرتا ہوں، میں نے ہار کبھی زندگی میں نہیں مانی'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'آپ دیکھیں گے کہ ووٹ کا جو بھی نتیجہ ہوجائے، میں تو اس کے بعد اور زیادہ تگڑا ہو کر سامنے آؤں گا لیکن میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس دن میری ساری قوم دیکھے کہ کون جا کر ضمیر کا سودا کرے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر کوئی یہ کسی کو کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ جی ہمیں ایک دم پتہ چلا کہ عمران خان تو نااہل یا برا تھا تو آپ کو استعفیٰ دینا چاہیے تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جمہوریت کے اندر لوگ استعفیٰ دیتے ہیں، آپ الٹا بھی لٹک جائیں تو کوئی یہ نہیں مانے گا کہ ان تین لوگوں کو پاس اس لیے جارہے ہیں کہ کوئی بری نظریاتی لوگ ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'کوئی نہیں ماننے لگا کہ آصف زرداری، نواز شریف، شہبازشریف یا مولانا فضل الرحمٰن نظریاتی لوگ ہیں، سب ان کو جانتے ہیں، یہ صرف اور صرف ضمیروں کا سودا، اپنے ملک کا، ملک کی خود مختاری کا سودا ہورہا ہے'۔

'کسی صورت یہ سازش کامیاب نہیں ہونے دوں گا'

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے ابھی بھی امید ہے کہ جو ہمارے لوگ اپنا سودا کرکے وہاں بیٹھے ہیں اور ان سے کہتا ہوں ہمیشہ کے لیے آپ کے اوپر مہر لگنے لگی ہے، لوگوں نے آپ کو نہ معاف کرنا ہے اور نہ لوگ بھول جائیں گے اور جو لوگ آپ کو ہینڈل کر رہے ہیں نہ ان کو بھولنا ہے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ آپ نے اپنے ملک کا سودا کیا، ایک بیرون ملک سازش جو یہاں لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی، کوئی معاف نہیں کرے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ موجودہ میر جعفر اور میر صادق ہیں جو باہر کی قوتوں کے ساتھ مل کر ایک مل کے اندر وہ تبدیلی لے کر آرہے ہیں جو قوم کبھی نہیں بھولے گی، آنے والی نسلی معاف نہیں کریں گی'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ یہ سازش کو کامیاب ہونے دیں گے تو میں اس سازش کے سامنے کھڑا ہوں گا، میرا قوم سے یہ وعدہ ہے کہ ہمیشہ جب تک میرے میں خون ہے میں اس کا مقابلہ کروں گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس اتوار کو قوم سے جو غداری ہونے جارہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ ایک غدار کی شکل یاد رکھنا، یہ جتنا بھی اپنے لوگوں کو بتانے کی کوشش کریں گے کہ ایک دم پتہ چلا کہ کتنا برا وقت چل رہا تھا تو لوگ یقین نہیں کریں گے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'اگر کسی کا خیال ہے کہ عمران خان چپ کرکے بیٹھ جائے گا تو کسی خوش فہمی میں نہ رہے، میرے میں اللہ نے مقابلے کی صلاحیت دی ہے، ساری زندگی میں نے مقابلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی صورت اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا'۔

قبل ازیں وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹ پر بیان میں کہا تھا کہ 'وزیر اعظم کا قوم سے خطاب 7:15 منٹ پر ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا'۔

سینیٹر فیصل جاوید نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ ‘وزیراعظم عمران خان اب سے کچھ دیر بعد قوم سے براہ راست تاریخی خطاب کریں گے’۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سینیٹر فیصل جاوید خان نے ٹوئٹ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان قوم سے خطاب کریں گے تاہم بعد میں مؤخر کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب مؤخر

فیصل جاوید خان نے کہا تھا کہ ‘وزیراعظم عمران خان آج شام قوم سے خطاب کریں گے، ان شااللہ وزیراعظم عمران خان اپنی قوم کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہیں اور ان شااللہ فتح پاکستان کی ہے، قتح اس قوم کی ہے، فتح کپتان کی ہے’۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کو ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے جہاں گزشتہ روز حکومتی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی جانب سے اپوزیشن کے ساتھ معاہدے اور عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کے بعد اعلان کے بعد ایوان میں تعداد 177 تک پہنچ گئی ہے۔

وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزرا نے تحریک عدم اعتماد کو بیرونی ساز قرار دیتے ہوئے اپوزیشن پر بھی الزامات عائد کیے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔

مذکورہ خط کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب سے پہلے بہت ہی قابل اعتراض دستاویز غیر ملک سے پاکستان کو بھیجی گئی جس میں واضح طور پر حکومت بدلنے کا عندیہ اور دھمکی دی گئی۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس سازش میں ساری اپوزیشن کے لوگ شامل نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ ہمارے بہت سارے اراکین اسمبلی کو بھی نہیں پتا ہو اسی لیے میں اپنے اراکین اسمبلی جو پی ٹی آئی سے ادھر گئے ہیں، ان کو کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے فیصلے کو روک لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی قومی سلامتی کا جو اجلاس ہو رہا ہے، اس میں آئیں اور خود دستاویز دیکھیں، جس کی بنیاد پر ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان کو ہٹانے کی سازش ایک بین الاقوامی حکومت کی خواہش پر ترتیب دی گئی۔

بعد ازاں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں مبینہ سازش میں اپوزیشن کے ملوث ہونے کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا تاہم کہا گیا کہ سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مذکورہ ملک کو سخت جواب دیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024