• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

رٹو سے فرانو تک: موسمِ سرما میں گلگت بلتستان کی سیر

یہاں زخ کی سواری نہ کرنا محروم رہنے کے مترادف ہے۔ اس ایڈونچر کے بعد اندازہ ہوا کہ پرانے ادوار میں لوگ کتنی مشکل سے سفر کرتے ہوں گے
شائع March 30, 2022

’سردیاں ختم ہونے کو آرہی ہیں اور آپ آئے نہیں، لیکن ابھی بھی موقع ہاتھ سے نہیں گیا۔ رٹو میں ونٹر فیسٹیول کا انعقاد کروا رہا ہوں، آپ ضرور آئیے‘، انتظامیہ میں پیش پیش میرے دوست ہمایوں بھٹی (او سی استور) کی اس کال نے ہمیں ایک بار پھر سفر کی ہمت دی اور ہم 5 دوستوں نے استور جانے کا فیصلہ کرلیا۔

میرپور (آزاد کشمیر) سے دوپہر کو روانہ ہوئے اور اگلے دن صبح 4 بجے استور جا پہنچے۔ فروری کے شروع میں ٹھنڈ اپنے عروج پر رہتی ہے اور اس سردی میں وہاں یخ بستہ کمرے میں بغیر ہیٹر کے رات گزارنا ساری زندگی یاد رہے گا۔

حال ہی میں ولایت سے بڑی چاہ سے منگوایا گیا نیا ڈاؤن سلیپنگ بیگ بھی خون جما دینے والی سردی میں جواب دینے لگ گیا، خیر اللہ اللہ کرکے رات گزاری۔ یہ بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھا کہ چند گھنٹوں کی نیند نے جسم میں دوبارہ جان سی ڈال دی۔ صبح دیوسائی کے دوست دولت خان کا گھر چھوڑ کر جیپ پر سوار ہوئے اور رٹو میلہ دیکھنے آرمی ہائی آلٹیٹیوڈ اسکول جا پہنچے۔

رٹو میں پاکستان آرمی کا ہائی آلٹیٹیوڈ اسکول 1983ء سے موجود ہے جہاں برفانی علاقوں سے نبردآزما ہونے کے لیے فوجی دستوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ اس سے قبل میں رٹو سے کیل، رٹو سے شکر گڑھ نالہ کی معیت میں تاؤبٹ اور اس طرح چھچھیری سے تاؤبٹ کی ٹریکنگ کرکے اس خوبصورت علاقے کو تسخیر کرچکا ہوں۔

رٹو سے ملحقہ علاقے انتہائی خوبصورت ہیں۔ استور کے شاید انتہائی خوبصورت علاقوں میں رٹو کا شمار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں کالا پانی، منی مرگ، چلم کے علاقے بھی وادی استور میں لاجواب اور بے مثال ہیں۔ وادی نیلم سے ہمسائیگی اور گلگت بلتستان سے وراثت میں ملنے والے دیو ہیکل پہاڑ استور کی وادیوں کو مزید چار چاند لگادیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی نیلم اور گلگت بلتستان کے حُسن کا امتزاج استور کے علاقے میں بخوبی نظر آتا ہے۔

رٹو میلہ پاکستان آرمی اور مقامی انتظامیہ کے تعاون سے سجایا گیا تھا۔ جنگل میں منگل دیکھ کر جی خوش ہوگیا۔ میلے میں مقامی اسٹالز اور نمائشی اسلحے کے اسٹالز آنے والوں کی توجہ کا خاص مرکز تھے۔ ان علاقوں کے تمدن اور روایات کا خاصا بھیدی ہونے کے باوجود میلے میں سجی بہت سی چیزیں میرے لیے نئی تھیں۔ کانگڑی، بلوش، چلم، کری اور کھپیں کیا آپ نے ان سب کے نام سنے ہیں؟ اس طرح سیاچن کی برف پوش وادیوں میں استعمال ہونے والے برتن، کھانے، لباس اور دیگر لوازمات نے بھی ہماری توجہ اپنی طرف کھینچے رکھی۔

اپنے میزبان ہمایوں بھٹی کے ساتھ
اپنے میزبان ہمایوں بھٹی کے ساتھ

ونٹر اسپورٹس فیسٹول رٹو کا ایک منظر
ونٹر اسپورٹس فیسٹول رٹو کا ایک منظر

میلے کے دوران جنگل میں منگل
میلے کے دوران جنگل میں منگل

میلے میں رکھے استور کے قدیم برتن
میلے میں رکھے استور کے قدیم برتن

چلم, کھپیں اور کری
چلم, کھپیں اور کری

رٹو میلے میں مقامی کپڑوں کا ایک اسٹال
رٹو میلے میں مقامی کپڑوں کا ایک اسٹال

میلے میں پنجابی لباس زیب تن کیے نوجوان
میلے میں پنجابی لباس زیب تن کیے نوجوان

دوپہر کی تواضع کے بعد برگیڈ کمانڈر یونس صاحب کی ایما پر آئس اسکیٹنگ اور اسکیئنگ سے بھرپور لطف اندوز ہوئے۔ بس اتنا کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ٹی وی کی اسکرینز پر یہ کھیل جتنے آسان اور اچھے لگتے ہیں اتنے ہی حقیقت میں یہ مشکل اور مستقل محنت کی متقاضی ہیں۔ بہرحال میلہ بہت ہی معلوماتی تھا اور ونٹر گیمز کے حوالے سے بہت ہی اچھی کاوش تھی۔

مغرب کے وقت واپس استور پہنچے۔ گزشتہ شب کی سردی اور ہماری برداشت کا خیال دل میں گھوم ہی رہا تھا کہ ہمایوں بھٹی نے ہمیں آرمی میس میں رات ٹھہرانے کا بندوبست کروا کر ہمارے دل ایک مرتبہ پھر جیت لیے۔ منفی 14 ڈگری کی سردی میں گرم کمروں میں شب باشی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔

علی الصبح ناشتہ کرکے استور سے اسکردو کی راہ لی۔ استور سے جنگلوٹ تک عموماً ایک گھنٹہ 40 منٹ کا وقت لگ جاتا ہے۔ جنگلوٹ سے ایک راہ گلگت اور دوسرا راستہ شاہراہ S1 کے ذریعہ اسکردو جاتا ہے۔ اسکردو کی طرف آنے والوں سیاحوں کے لیے کچورا پل کو ہمارے ایک دوست پل راحت کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ گزشتہ چند سالوں سے روڈ پر تعمیر کی وجہ سے اسکردو پہنچنا سفر وسیلہ ظفر کے بالکل متضاد نظر آتا رہا ہے جبکہ کچورا پل کو دیکھ کر دلی اطمینان اور سرور ملتا ہے کیونکہ یہاں سے اسکردو شہر کی آمد کا نقارہ بجنا شروع ہوجاتا ہے۔

آرمی کا میوزیکل بینڈ
آرمی کا میوزیکل بینڈ

برگیڈ کمانڈر مقامی افراد کے ہمراہ میلے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے
برگیڈ کمانڈر مقامی افراد کے ہمراہ میلے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے

روایتی ہتھیاروں کا ایک اسٹال
روایتی ہتھیاروں کا ایک اسٹال

سیاچن کی چوٹیوں پر استعمال ہونے والا سامان
سیاچن کی چوٹیوں پر استعمال ہونے والا سامان

کوہ پیمائی کے سامان کا اسٹال
کوہ پیمائی کے سامان کا اسٹال

رٹو اسکیٹنگ ٹریک
رٹو اسکیٹنگ ٹریک

رٹو اسکیٹنگ ٹریک
رٹو اسکیٹنگ ٹریک

لیکن حال ہی میں اس روڈ کی تعمیر سے سیاحوں اور بالخصوص مقامی آبادی نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ 2018ء میں جنگلوٹ سے اسکردو کا فاصلہ (147 کلومیٹر) 14 گھنٹوں میں طے کیا اس طرح ایک مرتبہ آستک نالہ پر روڈ بلاکیج نے گلگت واپسی کے قصد پر مجبور کیا لیکن شنگس کے مٹیارے پہاڑ نے واپسی کا راستہ بھی روک دیا اور یخ بستہ رات ایک چھوٹے سے ہوٹل میں گزارنا پڑی یوں عربی کا محاورہ یاد آگیا کہ سفر ایک عذاب کے ٹکڑے سے کم نہیں۔ مگر آج صورتحال مختلف ہے، روڈ کی مکمل تعمیر کی وجہ سے یہ فاصلہ 3 گھنٹوں میں آسانی سے طے ہوجاتا ہے۔

دریائے سندھ، قراقرم کے میخ نما پہاڑ اور بل کھاتی سڑک، بس یہی اسکردو تک آپ کی مسافت کے ساتھی ہیں۔ پل راحت پہنچ کر اچانک دل مچل سا گیا اور کچورا جھیل کی طرف گاڑی کا رخ بغیر کسی مشاورت کے موڑ دیا گیا۔ آوارہ کوہ نوردوں کے لیے سر اثبات میں ہلانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ کچورا جھیل عجب نظارہ پیش کرتی ہے جبکہ جھیل کے گرد چھایا سناٹا استغراق میں بہت ہی مددگار ثابت ہورہا تھا۔ ہم سب خاموشی سے ان حسین مناظر کو اپنے اپنے کیمروں میں قید کرنے لگے۔ کچھ وقت گزارنے کے بعد جلد ہی اپنی اگلی منزل اسکردو شہر کی طرف گامزن ہوگئے۔

اب منزل سدپارہ ڈیم کی طرف تھی۔ سردیوں میں یہ علاقہ شدید ٹھنڈا رہتا ہے۔ دیوسائی کے برفانی پہاڑ اس کے عقب میں موجود ہونے کی وجہ سے سردی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ خطہ بلتستان میں یہاں فصل کی کاشت سب سے آخر میں جاتی ہے۔ سردیوں میں ڈیم کا گہرے نیلے رنگ کا پانی اور عقب میں موجود پہاڑ بہت ہی دلفریب منظر پیش کررہے تھے۔ وقت جیسے تھم سا گیا ہو جیسے دنیا ختم سی ہوگئی ہو اور سیاحوں کی دنیا میں سے صرف ہم ہی نمائندگی کررہے تھے۔

اپر کچورا جھیل
اپر کچورا جھیل

سدپارہ ڈیم
سدپارہ ڈیم

قراہ قرم کے میخ نما پہاڑ
قراہ قرم کے میخ نما پہاڑ

بہرحال موسمِ گرما کی نسبت موسمِ سرما میں سدپارہ ڈیم کی خوبصورتی ہم سب کو بہت ہی بھلی لگی۔ اسکردو میں فروری کا چمکتا سورج کسی نعمت سے کم نہیں مگر یہ آفتاب جلد ہی دیوسائی اور شہر کے بیچ حد فاصل کے طور پرکھڑے بلند و بالا سفید پہاڑوں کی اوٹ میں جا پہنچا۔

اسکردو میں ایک مقامی دوست تصور کی پُرتکلف ضیافت کے بعد ہم اپنی اگلی منزل خپلو کی جانب رواں دواں ہوگئے۔ خپلو ضلع گانچھے کا سب سے بڑا شہر ہے۔ بلتی احباب کے مطابق منفی درجہ حرارت کا اصل مقابلہ خپلو، استور اور اسکردو کے بیچ چلتا رہتا ہے۔ خپلو سیاچن جبکہ استور اور اسکردو دیوسائی کے پڑوس میں واقع ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے انتہائی ٹھنڈے مقامات میں شمار ہوتے ہیں۔ خپلو میں موسمِ سرما میں کسی ہوٹل میں رہنا ابھی تک ممکن نہیں۔ البتہ اگر مقامی دوست کے گھر رہنے کی آفر ہو تو دہکتی بخاری میں رات قیام بہت دیر تک ذہن نشین رہ جاتا ہے اور مجھے قدرت نے ایسے دوستوں کی بالکل بھی کمی نہیں ہونے دی۔

اگلی صبح سورج کی پہلی کرنیں یہ پیغام دے رہی تھیں کہ سورج آج خوب چمکے گا۔ لہٰذا موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میشابرم پوائنٹ پر جاپہنچے۔ میلوں دُور اہرام مصر کی شکل سے مشابہت رکھتا یہ ساڑھے 7 ہزار میٹر سے زائد بلندی کا انتہائی خوبصورت پہاڑ قراقرم سلسلے کا جھومر ہے۔ میشابرام پوائنٹ خپلو شہر سے 20 منٹ کی دُوری پر ہے۔ سفر لمبا تھا لہٰذا دریائے سیوک کے کنارے لب راہ پھر گاڑی پر سوار ہوکر آگے بڑھتے رہے۔

موسمِ سرما میں ضلع کھرمنگ میں دریائے سندھ اور ضلع گھانچھے میں دریائے سیوک کی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ہلکے نیلے اور سبز مائل رنگت کی آمیزش دریائے سیوک اور اس کے گرد پہرہ دیتے نوکیلے پہاڑ تخیلات میں سوچی گئی خوبصورت وادیوں سے بھی زیادہ بھلے لگتے ہیں۔ چمکتا سورج اور پانی میں منعکس ہوتی کرنیں آپ کو قدرت کی صناعی پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتی۔

میشا برم ویو پوائنٹ سے میشابرم پہاڑ کا منظر
میشا برم ویو پوائنٹ سے میشابرم پہاڑ کا منظر

برف میں دریا کے کنارے لگے کچھ رنگین درخت
برف میں دریا کے کنارے لگے کچھ رنگین درخت

پہاڑ اور دریا
پہاڑ اور دریا

دریائے سیوک اور سیلنگ کا ایک خوبصورت منظر
دریائے سیوک اور سیلنگ کا ایک خوبصورت منظر

جب اتنے خوبصورت نظارے ہوں تو ڈرون نکال کر عکاسی کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ ہم ٹھہر گئے اور قدرت کو کسی حد تک تصاویر میں قید کرنے کی کوشش کرنے لگے جبکہ ایک دوست میرا پسندیدہ نارنجی رنگ کا ہائی آلٹیٹیوڈ چولہا نکال کر چائے بنانے میں مصروف ہوگیا۔ کچھ دیر سستانے اور لطف اندوز ہونے کے بعد جلد ہی سہ پہر کے قریب اپنی منزل فرانو پہنچے۔ فرانو چھوربٹ ڈویژن کا سب سے آخری گاؤں ہے اور 8 ہزار فٹ سے زائد کی بلندی پر واقع ہے۔ سخت دھوپ کے باوجود ہوا میں موجود خنکی بتا رہی تھی کہ دسمبر اور جنوری کی سردی بہت ہی سخت ہوتی ہوگی۔

فرانو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے لہٰذا ہوٹل کی ناکام تلاش کے بعد جلد ہی جمعہ امام سے ملاقات ہوگئی۔ دُور دراز بسنے والے ان سادہ دل لوگوں میں مہمان نوازی کا وصف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ جلد ہی ہمیں اپنے گھر لے گئے اور بھرپور تواضع بمع دہکتی ہوئی بخاری نصیب میں آئی۔

تواضع کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ جمعہ امام کے پاس حضرت امیر کبیر ہمدانی رحمہ اللہ کا عصائے مبارک موجود ہے۔ لہٰذا شفقت فرماتے ہوئے انہوں نے ہمیں اس قیمتی عصا کا دیدار کروایا۔ حضرت امیر کبیر ہمدانی نے جموں کشمیر سے سفر کرتے ہوئے فرانو کے راستے 700 سال قبل بلتستان کو منور بہ اسلام کیا۔ ایک روایت کے مطابق آپ کے ساتھ 200 سے زائد کشمیری کاریگر تھے جنہوں نے آپ کے حکم پر بلتستان کی مساجد کو اپنے بھرپور فن تعمیر سے مزین کیا۔

قراقرم کے پہاڑوں کے بیچ سورج تو بہت ہی جلد شرما جاتا ہے اور جلد ہی اندھیرا ہوجاتا ہے لہٰذا بارڈر سے منسلک باڑ کو دُور سے دیکھ کر اس وعدے کے ساتھ روانہ ہوئے کہ فرانو سے متعلق ضرور کچھ لکھوں گا۔ ساتھ ارباب اختیار کو یہ بھی باور کروانے کی کوشش کروں گا کہ اس دُور دراز کے علاقے کو تعلیمی اور بالخصوص صحت کی سہولیات سے ضرور آراستہ کیا جائے۔

فرانو جاتے وقت دریائے سیوک اور وادی کا ایک خوبصورت منظر
فرانو جاتے وقت دریائے سیوک اور وادی کا ایک خوبصورت منظر

چھوربٹ ڈویژن کا آخری گاؤں فرانو
چھوربٹ ڈویژن کا آخری گاؤں فرانو

فرانو میں بارڈر کا ایک منظر
فرانو میں بارڈر کا ایک منظر

جمعہ امام حضرت امیر کبیر ہمدانی کے عصا کے ساتھ
جمعہ امام حضرت امیر کبیر ہمدانی کے عصا کے ساتھ

رات جی بی اسکاؤٹس ریسٹ ہاؤس میں ڈی جی صاحب کی شفقت سے رہائش کا موقع ملا۔ برلب دریا اور پایون کے بلند و بالا پہاڑوں کے بیچ یہ ریسٹ ہاؤس بہت ہی خوبصورت ہے۔

علی الصبح پُرتکلف ناشتہ کے بعد واپسی کرتے ہوئے خپلو سے 12 کلومیٹر قبل موسم گرما میں سیاحوں کے پسندیدہ مقام سیلنگ پہنچے۔ سیلنگ کا میدان اور پرانا پل سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ سیلنگ چاروں اطراف سے پہاڑوں کے سائے سے کافی دُور ہے لہٰذا دن کو دھوپ کی تمازت قدرے تیز ہوتی ہے اور یہی دھوپ موضع ہٰذا میں خوبانی، سیب، ناشپاتی انگور اور انار میں مٹھاس پیدا کرنے اور پکانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پھل کی پیداوار باقی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔

سیلنگ آئیں اور زخ کی سواری نہ کریں تو سمجھیں کہ آپ نے انتہائی اہم موقع ہاتھ سے جانے دیا۔ یہ اکلوتی زخ خپلو شہر کے بالکل مخالف سمت میں دریا پار لگائی گئی ہے۔ زخ مقامی طور پر لکڑی کا چوکٹھا بنا کراس کے نیچے بکرے کی کھال میں ہوا بھر کر بنائی جاتی ہے اور رسہ کے ذریعے کھینچ کر دریا پار کیا جاتا ہے۔ صدیوں پرانا یہ انداز آج بھی جاری ہے۔ بہرکیف مقامی احباب کی معیت میں ہم نے زخ پر بیٹھ کر دریا سیوک کا ایک حصہ پار کیا۔ یہ ایک لاجواب ایڈونچر تھا جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پرانے ادوار میں کتنی محنت اور مشکل سے لوگ دور دُور کے سفر کرتے ہوئے ان علاقوں میں پہنچتے ہوں گے۔

پایون میں جی بی اسکاؤٹس کا ریسٹ ہاؤس
پایون میں جی بی اسکاؤٹس کا ریسٹ ہاؤس

سیلنگ کا پرانا پل
سیلنگ کا پرانا پل

سیلنگ کا نیا پل
سیلنگ کا نیا پل

زخ پر پل پار کرنا بہت مہارت کا کام ہے
زخ پر پل پار کرنا بہت مہارت کا کام ہے

صدیوں سے دریائے سیوک اور زخ کا چولی دامن کا ساتھ ہے
صدیوں سے دریائے سیوک اور زخ کا چولی دامن کا ساتھ ہے

جلد ہی خپلو کی طرف واپسی کا قصد کیا اور 20 منٹ میں دوبارہ شہر پہنچ گئے۔ سفر کی کچھ تھکان موجود تھی لیکن کوہ نورد ابھی اور بھی منزل طے کرنا چاہتے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس مرتبہ گاڑی کے بجائے پیدل ٹریکنگ کرکے خپلو شہر کے وسط میں ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی پر موجود خانقاہ کا دیدار کرنا تھا۔

خانقاہ چقچن کی طرف مڑنے والے راستے سے دائیں جانب اوپر جایا جائے تو خانقاہ تھوقسی کھر تک آدھے گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد پہنچا جاسکتا ہے۔ راستے میں جمی برف سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ باقاعدہ ٹریکنگ بوٹس کا انتخاب کیاجائے۔

تھوقسی کھر خانقاہ کو 700 سال قبل حضرت امیر کبیر ہمدانی رحمہ اللہ نے تعمیر کروایا۔ خانقاہ لکڑی کی بنی ہوئی ہے جبکہ خانقاہ چقچن کی مانند اس پر لکڑی کی کندہ کاری کی گئی ہے۔ خانقاہ کے ساتھ ہی خپلو ویو پوائنٹ بھی بنایا گیا ہے جہاں سے خپلو شہر اور عظیم الجثہ پہاڑوں کو دیکھنا بہت ہی بھلا لگتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے پورا شہر آپ کے قدموں میں لاکر رکھ دیا گیا ہو۔ موسمِ سرما میں ہرسو پھیلی سفید برف کی چادر اور خانقاہ کے کناروں کو چیرتی تیز ہوا اور اس سے پیدا ہوتی سنسناہٹ کا مزہ وہی لے سکتا ہے جو جان جوکھوں میں ڈال کر موسمِ سرما میں خپلو کے اس مقام کا قصد کرے۔

خپلو محل
خپلو محل

خپلو کے ایک نالے کا منظر
خپلو کے ایک نالے کا منظر

خپلو ویو پوائنٹ سے نظر آنے والا ایک خوبصورت منظر
خپلو ویو پوائنٹ سے نظر آنے والا ایک خوبصورت منظر

تھوقسی کھر 700 سال قبل تعمیر ہونے والی ایک مسجد ہے
تھوقسی کھر 700 سال قبل تعمیر ہونے والی ایک مسجد ہے

تھوقسی کھر کا ایک اور منظر
تھوقسی کھر کا ایک اور منظر

تھوقسی کھر کو جانے والا راستہ
تھوقسی کھر کو جانے والا راستہ

مسجد تھوقسی کھر
مسجد تھوقسی کھر

میں خوش نصیب ہوں کہ موسمِ سرما میں بلتستان کے ان مقامات کی خوبصورتی کو محسوس کرکے قلمبند کررہا ہوں۔ ان علاقوں میں ونٹر ٹؤرازم اگلے چند سالوں تک بہت سے مسائل اور مشکل حالات کے پیش نظر بظاہر مشکل نظر آتی ہے لیکن اربابِ اختیار کو چاہیے کہ ان علاقوں کی خوبصورتی کو آسائشوں کے ساتھ جوڑ کر ونٹر ٹؤرازم کا آغاز کریں تاکہ اس زمین کی خوبصورتی پوری دنیا کو بخوبی معلوم ہوسکے۔

نصر احمد بھٹی

لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔