ہراساں کرنے پر افغان مہاجرین کمشنریٹ کے دو افسران نوکری سے برطرف
وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کشمالہ طارق نے افغان مہاجرین کمشنریٹ کے 2 افسران کو دو خواتین ساتھیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا قصوروار قرار دیتے ہوئے ملازمت سے برخاست کرنے کا حکم دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے دونوں ملزمان پر 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا اور رقم ہراساں کی گئی دونوں خواتین کو ادا کرنے کا حکم دیا۔
وفاقی محتسب نے مجاز اتھارٹی کو ہدایت کی کہ وہ ایک ہفتے کے اندر احکامات پر عملدرآمد کرا کر انہیں اس بارے میں اپ ڈیٹ کرے۔
مزید پڑھیں: خاتون کو 'جنسی ہراساں' کرنے پر کے ایم سی کے دو عہدیدار معطل
انہوں نے افغان مہاجرین کمشنریٹ کے چیف فنانس افسر اور ایک پراجیکٹ ڈائریکٹر کے خلاف دو خواتین کی ہراسانی سے متعلق مشترکہ شکایت موصول ہونے کے بعد انٹرنیٹ کالنگ سروس اسکائپ پر سماعت کی۔
شکایت کنندگان نے الزام لگایا تھا کہ ملزمان انہیں جنسی طور پر ہراساں کر رہے تھے اور دونوں کے 'ناجائز مطالبات کے سامنے جھکنے' سے انکار کرنے پر انہیں کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ابتدائی طور پر شکایت کی سماعت صوبائی انسداد ہراساں کرنے والی محتسب رخشندہ ناز نے کی جنہوں نے دونوں فریقین کے شواہد ریکارڈ کیے تھے، کیس 4 اکتوبر 2021 کو وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کشمالہ طارق کو بھیجا گیا تھا کیونکہ افغان مہاجرین کمشنریٹ وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے۔
کشمالہ طارق نے فیصلہ دیا کہ شکایت کنندگان کے شواہد سے ملزمان کے ہاتھوں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی حقیقت درست ثابت ہوتی ہے، شکایت کنندگان کی جانب سے پیش کیے گئے گواہوں نے ان الزامات کی تصدیق کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: خود کو برہنہ کر کے خاتون کو جنسی ہراساں کرنے والا شخص فرار
انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان کی جانب سے ایسا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ شکایت کنندگان نے کسی سابقہ دشمنی، رنجش یا عداوت کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمات درج کرائے ہوں۔
انہوں نے چار صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ مذکورہ عوامل کی غیر موجودگی میں ہم اس بات کے قائل نہیں ہو سکے کہ شکایت کنندگان نے اپنی عزت اور ساکھ کو خطرے میں ڈال کر اپنے مرد ساتھیوں کے خلاف جھوٹی شکایات درج کرائی ہوں گی۔
فیصلے میں مزید کہ گیا کہ یہ عام فہم بات ہے کہ کوئی بھی خاتون ادارے میں کسی مرد ساتھی کے خلاف جنسی ہراسانی کی جھوٹی شکایت درج کروانے کا خطرہ مول نہیں لیتی، کیونکہ آگے چل کر ایسی شکایت اس کی اپنی عزت، سالمیت اور ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔
وفاقی محتسب نے کہا کہ فائل میں موجود فریقین کے تمام شواہد سے وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ شکایت کنندگان کی ہراسانی کی شکایت ان ملزمان کے خلاف ثابت ہوتی ہے جو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کے لیے نسبتاً کمزور اور کم عمر خواتین شکایت کنندہ کے خلاف مضبوط پوزیشن میں رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: آزاد کشمیر: طلبہ کو 'جنسی ہراساں' کرنے والا پولیس کانسٹیبل گرفتار
انہوں نے مزید کہا کہ شکایت کنندگان نے ملزمان کے خلاف افغان مہاجرین کمشنریٹ کو درخواستیں بھی دی تھیں لیکن چونکہ ملزم کے اعلیٰ افسران سے قریبی تعلقات تھے لہٰذا انہوں نے شکایات پر کوئی توجہ نہیں دی۔
کشمالہ طارق نے کمشنر کے کردار پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ کمشنر کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کے ایکٹ 2010 کے مطابق اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ افغان مہاجرین کمشنریٹ نے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، مندرجہ بالا طرز عمل کے لیے افسر اس فورم کی ناراضی کا مستحق ہے جس کے تحت انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ ہراساں کرنے جیسے معاملات کی تحقیقات کی جا سکے۔
محتسب نے کمشنر کو ہدایت کی کہ وہ ملازمین کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے دفتر کے احاطے کے ساتھ ساتھ باہر بھی سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں اور ساتھ ہی احاطے کی نمایاں جگہوں پر قانون کے تحت ضابطہ اخلاق آویزاں کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر ملازم کو اس عمل سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی کی طالبات کو ہراساں کرنے والےملزمان گرفتار
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ کمشنر ادارے کا سربراہ ہے اور اس حیثیت میں ان کا فرض ہے کہ وہ دفتری نظم و ضبط اور کام کرنے والی خواتین کے لیے سازگار ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے تمام اقدامات کرے۔
انہوں نے کہا کہ کمشنر کو دفتر میں عارضی انتظامات کرنے کی بھی ضرورت تھی تاکہ شکایت کنندگان اور ملزم اس معاملے کی انکوائری کے دوران ایک ہی جگہ پر نہ رہیں۔