• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

اپوزیشن، مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہوئی؟

شائع March 29, 2022
آصف زرداری شریفوں کی جانب سے چوہدری کو مزید پرکشش پیشکش نہ کرنے پر پریشان تھے — فائل فوٹو: ٹوئٹر
آصف زرداری شریفوں کی جانب سے چوہدری کو مزید پرکشش پیشکش نہ کرنے پر پریشان تھے — فائل فوٹو: ٹوئٹر

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد حکمران جماعت نے چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کر کے اپنا ’ترپ کا پتا‘ ظاہر کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو حکمران جماعت کے اہم اتحادی کی حمایت کھو دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ چوہدریوں کو غیر پُرکشش پیشکش کی گئی تھی جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کرنے کی کوشش میں اتحادیوں نے اپوزیشن کی حمایت نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: طارق بشیر چیمہ وزارت سے مستعفی، تحریک عدم اعتماد میں وزیراعظم کےخلاف ووٹ دینے کا اعلان

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایک سینیئر رہنما، جو مسلم لیگ (ق) سے ہونے والی بات چیت کا حصہ تھے، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنما نواز شریف اور ان کی بیٹی پر مسلم لیگ (ق) کے مطالبات ماننے میں لچک نہ دکھانے کا الزام لگا رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت (موجودہ اسمبلیوں کی بقیہ مدت تک کے لیے) وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ اور آئندہ انتخابات میں 20 نشستیں حاصل کرنا چاہتی تھی۔

رہنما نے کہا کہ (ق) لیگ کے مطالبات پر پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری راضی ہوگئے تھے، لیکن نواز شریف اور مریم نواز اس پر تیار نہ تھے۔

انہوں نے بتایا کہ باپ، بیٹی نے پیغام پہنچایا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد پرویز الہٰی کو صرف 3 سے 5 ماہ کی عبوری مدت کے لیے پنجاب کا اعلیٰ عہدہ دیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: (ق) لیگ نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا، شہباز گل

اس کے علاوہ ان کے درمیان آئندہ انتخابات پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی نہیں ہوسکی۔

آصف زرداری، شریفوں کی جانب سے چوہدری کو مزید پُرکشش پیشکش نہ کرنے پر پریشان تھے جس کا نتیجہ بالآخر مسلم لیگ (ق) کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کی حمایت کے اعلان کی صورت میں نکلا جنہوں نے اتحادیوں کو وہ دے دیا جو وہ چاہتے تھے۔

ایک اور اپوزیشن رہنما کا کہنا تھا کہ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی جارحانہ کوششوں کے باوجود شریفوں اور چوہدریوں کے درمیان اعتماد کے خلا کو پُر نہیں کیا جاسکا۔

مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت پرویز الہٰی کی ’سیاسی چالبازیوں‘ کے حوالے سے بھی تحفظات کا شکار تھی۔

انہوں نے بتایا کہ قیادت میں یہ تشویش بڑھ رہی تھی کہ اگر پرویز الہٰی کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ دے دیا گیا تو وہ مسلم لیگ (ن) کی قیمت پر اپنی جماعت کو مضبوط کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی 14سال بعد چوہدری برادران سے ملاقات، عدم اعتماد کیلئے مدد مانگ لی

دوسری جانب یوسف رضا گیلانی نے ڈان کو بتایا کہ مشترکہ اپوزیشن چوہدریوں کے حوالے سے مایوس نہیں ہوئی اور ہم اب بھی ان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کےلیے درکار تعداد موجود ہے، اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ اتحادی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کریں، ہم پُرامید ہیں کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت ہمارے ساتھ شمولیت اختیار کرلے گی۔

مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سیکریٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری کا بھی یہی کہنا تھا کہ اپوزیشن اب بھی چوہدریوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ وزیر اعظم کی حمایت کے اپنے فیصلے کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

دریں اثنا چوہدریوں میں بھی اتحاد کا حصہ رہنے کے فیصلے کے حوالے سے دراڑ پائی جارہی ہے کیوں کہ چوہدری شجاعت مسلم لیگ (ن) سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں جبکہ پرویز الہٰی، وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی وجہ سے پی ٹی آئی کو بہتر آپشن سمجھتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024