وزارتِ داخلہ کی بلوچستان میں دہشت گرد گروپس کے دوبارہ منظم ہونے کی تصدیق
وزارت داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ بلوچستان میں ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے ذریعے پاکستان مخالف دہشت گرد گروپس کے دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران پیپلز پارٹی کی ایم این اے ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ اسلم سومرو کے سوال پر جمع کرائے گئے تحریری جواب میں ہوا۔
انہوں نے پوچھا تھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ ’پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیمیں سیستان کے ذریعے بلوچستان میں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں اور اگر یہ سچ ہے تو اس پر ایکشن پلان کے ساتھ اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں‘۔
سوال کے جواب میں وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ ’جی ہاں، بلوچستان میں سیستان کے ذریعے پاکستان مخالف گروپس منظم ہو رہے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں دہشت گرد حملوں کے بعد ملک بھر میں ہائی الرٹ
وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے منسوب جواب میں حکومت کی جانب سے اس رجحان کو کم کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے جواب کے مطابق نیشنل انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کمیٹی (این آئی سی سی) کو مؤثر اور بروقت جوابی اقدامات کے لیے تمام وفاقی اور صوبائی انٹیلی جنس گرڈز کو مربوط کرنے کے لیے ادارہ جاتی شکل دے دی گئی ہے۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ سرحد کے مؤثر انتظامات اور مغربی سرحد پر باڑ لگانے سے بھی اس سلسلے کو روکا جائے گا۔
وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کے لیے مسلسل انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جارہے ہیں جبکہ انسداد دہشت گردی کی صلاحیتوں کو بھی بڑھایا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: قانون نافذ کرنے والے اداروں پر نظر رکھنے کیلئے نئی انسداد دہشت گردی پالیسی تیار
جواب میں ناراض بلوچ قبائلیوں سے مفاہمت سے متعلق حالیہ حکومتی اقدامات کی یاد دہانی بھی کروائی گئی۔
مذکورہ اقدامات میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے خصوصی سماجی و اقتصادی ترقیاتی پیکجز اور نوجوانوں کو تعمیراتی سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے ساتھ ساتھ ’احساس پروگرام‘ کے ذریعے معاشرے کے پسماندہ طبقے کے مسائل کا حل شامل ہے۔
کالعدم دہشت گرد تنظیموں، جن میں بلوچ علیحدگی پسند، کالعدم تحریک طالبان پاکستان، خود ساختہ داعش (آئی ایس) گروپ شامل ہیں، نے حال ہی میں صوبے کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگز کر کے اپنی کارروائیوں کو تیز کردیا ہے۔
رواں سال کے آغاز سے اب تک یہ گروپس تقریباً 7 بڑے حملے کر چکے ہیں، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 22 افراد جاں بحق ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر داخلہ کی سینیٹ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر وضاحت
مذکورہ تنظیموں کی جانب سے 2 فروری کو ایک ہی وقت نوشکی اور پنجگور میں فرنٹئیر کور کے کیمپس میں دو بڑے حملے کیے گئے، حملہ آور جدید اسلحے اور آلات سے لیس تھے۔
حملوں میں مسلح افواج اور حملہ آور دونوں کو ہی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا، واقعے میں ایک افسر سمیت 9 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے جبکہ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 20 دہشت گرد مارے گئے تھے۔