• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

جے یو آئی (ف) کی سپریم کورٹ سے ریفرنس جواب کے بغیر واپس بھیجنے کی درخواست

شائع March 27, 2022
جے یو آئی (ف) کا خیال ہے کہ متنازع ریفرنس پر عدالت کا کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو متاثر کرے گا —فائل فوٹو: سپریم کورٹ
جے یو آئی (ف) کا خیال ہے کہ متنازع ریفرنس پر عدالت کا کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو متاثر کرے گا —فائل فوٹو: سپریم کورٹ

جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ماننا ہے کہ اپنی سیاسی جماعت سے انحراف کرنے والے رکن کو بطور سزا تاحیات نااہل کرنے کا فیصلہ ان کے حلقے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا مؤقف ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے پر صدارتی ریفرنس بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ اس میں آرٹیکل 63 (5) کے تحت دیا گیا اپیل کا حق بھی واپس لینے کا مطالبہ شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم بینچ کی ہدایات پر اپنے تحریری جوابات جمع کرائے۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے پر نااہلی نہیں، سپریم کورٹ بار

مذکورہ بینچ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر ریفرنس کے ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کر رہا ہے۔

جے یو آئی (ف) کی جانب سے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’ووٹوں کی گنتی ہوئے بغیر‘ منحرف اراکین کے خلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت تاحیات نااہلی جیسے شدید نتائج سے پہلے سے کمزور جمہوریت مزید مجروح ہوگی۔

جے یو آئی (ف) کا خیال ہے کہ متنازع ریفرنس پر عدالت کا کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو متاثر کرے گا اس لیے عدالت عظمیٰ کو قرار دینا چاہیے کہ ریفرنس آئین کی دفعہ 186 کے دائرہ کار سے متجاوز اور پارلیمان کو مجروح کرنے کی کوشش ہے اور بغیر جواب کے واپس بھیج دینا چاہیے۔

جے یو آئی (ف) نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ صدر چاہتے ہیں کہ عدالت اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرے اور عدم اعتماد کی صورت میں قانون سازوں کے لیے ایسا قانون تیار کیا جائے جو صرف پی ٹی آئی کی خواہش کے مطابق ہو۔

مزید پڑھیں: رکن کے ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا کہ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کی توہین ہے، چیف جسٹس

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، حکمراں جماعت کی وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے کور کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے اور آئین و حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی عمل کا حصہ بن رہے ہیں۔

صدارتی ریفرنس پر اپنے جواب میں پی پی پی نے واضح کیا کہ پاکستان، انٹرنیشنل کویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہے اس لیے ریاستوں کی نہ صرف آئینی ذمہ داری ہے کہ بنیادی حقوق کا نفاذ یقینی بنائیں بلکہ ان ہدایات کی پابندی کرنے یا ان پر عمل درآمد کرنے سے انکار کرنے کی ذمہ داری بھی ہے جو ’شہری اور سیاسی آزادی کے استعمال میں رکاوٹیں یا پابندیاں لگاتے ہیں‘۔

پیپلز پارٹی کے جواب میں کہا گیا کہ آرٹیکل 4 کے تحت تمام شہریوں بشمول اراکین قومی اسمبلی کو آزادی، نقل و حرکت اور سلامتی کا حق حاصل ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024