انسان کے خون میں جو اکثر پگڈنڈیوں پر چلنے اور نئے مقامات دیکھنے کی بے چینی بہتی ہے اصل میں یہ ہی جوہر ہے جو دوسرے جانداروں کے مقابلے انسان کو ایک خاص مقام عطا کرتا ہے۔ اگر یہ بے چینی اس کے رگ و پَے میں نہ ہوتی تو نہ یہ دنیا کو کھوج پاتا اور نہ اتنی اقوام اس دنیا میں بستیں۔ نہ یہ شاندار عمارتیں بنی ہوتیں اور نہ تارکول کی شاندار وسیع سڑکیں ہزاروں میلوں تک پھیلی ہوتیں اور نہ سولر یونٹ آپ کے گھروں اور شاہراہوں کو ہر پل روشن رکھتے۔
میرے خون میں بھی بے چینی کی کشتی گزرے زمانوں کے پُراسرار بادبان کھولے بہتی چلی جاتی ہے کہ کل کے سوا آج ممکن نہیں ہے۔ مجھے شاندار عمارتیں اور لوگوں سے بھرے بازار اپنی طرف نہیں بلاتے۔ مجھے ویران شہر اور خاموش ماضی کے مزار اپنی طرف بلاتے ہیں۔ میں جب ان خاموش گلیوں اور پرانی بستیوں کے آثار پر چلتا ہوں تو گزرے زمانے اور میں آمنے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہ گزرے زمانے اپنے شب و روز کے قصے سنانے لگتے ہیں کہ جن میں ساون کی جھڑیاں بھی لگتی ہیں اور خزاں کی ویرانی بھی درد کی بیلوں کی طرح اگتی ہے۔
میں جب سفر کے ساتھی نیک محمد سومرو کے ساتھ بے نظیرآباد (نوابشاہ) سے نکلا تو اگرچہ سویرا ہوگیا تھا مگر سورج ابھی نہیں نکلا تھا۔ جاڑوں کے ابتدائی دنوں کی ٹھنڈک کی نشانی کے طور پر دھند کی ایک موٹی تہہ راستے کے دونوں طرف پھیلی ہوئی ہریالی پر چھائی ہوئی تھی۔ میں نے گہری سانسیں لیں اور پھیپھڑوں میں ہریالی کی خوشبو میں بسی ہوئی تازی ہوا کو بھر دیا۔ تازہ آکسیجن سے منظرنامہ اور نکھر گیا۔ ہم جب سکرنڈ، سعید آباد سے ہوتے ہالا پہنچے اور ہوٹل سے ناشتہ کرکے باہر آئے تو دن چڑھ آیا تھا۔ ہالا کا چھوٹا سا مصروف شہر اپنا دن گزارنے کے راستے پر چل پڑا تھا۔
آپ اگر قومی شاہراہ سے مغرب میں نکلنے والی صاف ستھری ’درگاہ سڑک‘ پر چل پڑیں تو شہر کے شمال اور مغربی کونے پر آپ کو مخدوم نوح سروری کی درگاہ ملے گی۔ مخدوم محمد الزمان طالب المولیٰ جیسے ادب دوست انسان بھی اسی شہر کی مٹی میں مدفون ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہالا کے مخدوم ہاؤس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی تھی اور آج تک ہالا کے مخدوم صاحبان کی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہی وفاداریاں رہتی آئی ہیں۔
درگاہ روڈ پر اگر آپ تھوڑی توجہ سے دیکھیں تو آپ کو پرانے زمانے کی عمارتیں اور لکڑی کے شاندار دروازے دیکھنے کو مل جائیں گے۔ میں آپ کو اس تیسرے ہالا کے قدیم شہر کی سفری کہانی سنانے والا ہوں۔ مگر پہلے ہم جس راستے پر چل رہے ہیں اس پر چل کر مخدوم نوح سروری کی شاندار درگاہ پر چلتے ہیں۔ جہاں درگاہ کے سیمنٹ کے بنے ہوئے صاف ستھرے آنگن میں بہت سارے ہرے بھرے درخت ہیں، جن کی چھاؤں میں دوسرے شہروں سے آنے والے مسافر درگاہ کی زیارت بھی کرتے ہیں اور تھکان بھی دُور کرتے ہیں۔
مخدوم لطف اللہ سرور نوح کی ولادت فروری کے ٹھنڈے دنوں میں 1500ء میں ہالکنڈی، ٹوڑی میں ہوئی۔ مخدوم صاحب سہروردی طریقے کے ’اویسی‘ بزرگ تھے۔ مخدوم نوح کو ’سرور پیر‘ اور ’سرور شاہ‘ کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ان کے اختیار کیے گئے طریقے کو ’سلسلہ سہروردیہ اویسیہ سروریہ‘ کہا جاتا ہے۔ مخدوم صاحب کی شفقتیں اور کرامت عالم آشکار ہیں اور یہ بھی اعزاز ان کی شان میں ہے کہ، برِصغیر میں مخدوم نوح سروری وہ پہلے عالم تھے جنہوں نے قرآن شریف کا پہلا فارسی ترجمہ کیا۔ مخدوم نوح سروری نے 1586ء میں اس فانی زمانے کو ہالکنڈی کے مقام پر الوداع کہا۔
مخدوم نوح سروری کی یہ شاندار درگاہ اور خوبصورت مسجد ہالا نوان میں ہے جس کی بنیاد مخدوم محمد زماں نے 1795ء میں رکھی تھی۔ درگاہ کا ایک چبوترہ اسی برس میر فتح علی خان تالپور نے تعمیر کروایا تھا، جبکہ مقبرے کے شمال میں جو شاندار چھت والی خوبصورت مسجد ہے وہ میر کرم علی خان نے تعمیر کروائی تھی۔ درگاہ کے گرد جو دیگر تعمیرات ہیں وہ 1810ء میں مخدوم پنیو لدھو نے تعمیر کروائی تھیں۔
ابھی صبح کا وقت ہے میں مسجد کے صحن میں دیوار سے ٹیک لگائے ان کاشی کی اینٹوں کے خوبصورت پھولوں اور رنگوں کو دیکھتا ہوں جن سے مسجد کی چھت بنی ہے۔ یہ پھول پتیاں، رنگ اور ان کی ترتیب ان زمانوں کی کیفیت بیان کرتی ہے کہ احترام اور محبت کا اظہار اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے۔ درگاہ پر معتقدین کی آمد شروع ہوگئی ہے کہ حیات کی اس زرخیز مٹی میں میوے دار درخت کم ہی اگتے ہیں اور بے ثمر اور ٹنڈ منڈ درختوں کی بہتات ہے جو زندگی کی تپتی دھوپ اور جاڑوں کی تیز ٹھنڈی یخ بستہ ہواؤں سے تحفظ کم ہی فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے دل و دماغ میں مایوسیوں کے وجود سے جنم لینے والے تشنگیوں کے ریگزاروں پر امیدوں کی بدلیاں برسانے کے لیے انسانی وجود یہاں آ نکلتے ہیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ وسائل کی بندر بانٹ نے انسان کو کتنا بے بس بنادیا ہے۔ ان مقامات پر کچھ لوگ تو ایسے بھی دیکھنے کو ملیں گے جن کے پیر ننگے اور تن پر لباس پھٹا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی بڑی بیماری نے آگھیرا ہو یا اولاد بیمار پڑجائے تو وہ کہاں جائیں گے؟ یہ وجود ایسی کیفیت میں ہوتے ہیں کہ ان کے درد سے بھری بے بس آنکھوں میں دیکھنے کے لیے پہاڑ جتنا جگر چاہیے ہوتا ہے۔ جو کم سے کم مجھ میں تو نہیں ہے۔ میں مسجد کے آنگن سے اٹھا اور درگاہ کے وسیع آنگن میں آگیا۔
البرٹ ولیم ہیوز سندھ گزیٹیئر میں اس ہالا شہر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ہالا نواں کو پہلے مرتضیٰ آباد کہا جاتا تھا۔ یہاں 1860ء میں میونسپل کمیٹی بنی تھی، 1873ء میں حاصل کیا ہوا محصول 2 ہزار 756 روپے تھا جبکہ خرچ 2 ہزار 646 روپے تھا۔ یہاں کی کُل آدم شماری 4 ہزار 96 نفوس پر مبنی ہے۔ یہاں ڈپٹی کلیکٹر کا بنگلہ، ماتحت جج کا دربار، ایک خوبصورت باغ، مختیار کار کا ڈیرہ، ڈسپینسری، مسافر خانہ، دھرم شالا اور لڑکیوں کا اسکول بھی ہے۔ ہالا میں مخدوم نوح کی درگاہ کا یہ تیسرا مزار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے اس بزرگ کے مزار کی جگہ 2 بار دریائے سندھ کا پانی آجانے سے تبدیل کی گئی مگر اب اس کی آخری آرام گاہ نئے ہالا میں قائم ہے‘۔
اس کے بعد ہیوز یہاں کی مشہور کاشی، جنڈی اور کپڑے بُننے کی صنعتوں کا ذکر کرتا ہے۔ مگر اس اہم ذکر سے پہلے ہم، ’پُرانے ہالا‘ اور ’ہالکنڈی‘ کے متعلق تھوڑا جان لیں کیونکہ ان تینوں بستیوں کی وجہ سے ذہن پر جو تھوڑی سی دھند ہے وہ چھٹ جائے گی۔ ان تینوں بستیوں کی تاریخ کو جاننے کے لیے ہمیں ہالا سے ’ہالا پرانا‘ جانا ہے جو یہاں سے 3 کلومیٹر جنوب مغرب میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر موجود ہے۔
ہالا کے مصروف راستوں سے ہوتے ہوئے ہم شہر سے باہر نکلے۔ شہر سے باہر آئے تو گاڑیوں کا دھواں اور شور و غل پیچھے رہ گیا۔ سکون تھا جو راستے کے دونوں اطراف دریائے سندھ کی زرخیز سفید دودھ جیسی مٹی کے پوروں میں بستا تھا۔ جس زمین پر تارکول کی سڑک بچھی تھی اور کھیت اُگے تھے ان زمینوں سے ایک زمانے میں سندھو دریا کا مٹیالا پانی زوروں سے بھنور بناتا بہتا تھا۔
ہم جب ہالا پرانا پہنچے تو اس چھوٹے سے شہر میں ماضی اور حال ساتھ جیتے تھے مگر تھوڑا غور سے دیکھنے کے بعد گزرے زمانوں کی سوندھی ان دیکھی خوشبو اس شہر کی گلیوں اور عمارتوں میں بستی تھی۔ یہاں رہنے والوں کے اندر کو تھوڑا کریدیں تو ان کی باتوں میں سے گزرے زمانوں کی یادوں کی ندیاں بہتی ہیں۔
اس قدیم بستی سے ہماری ملاقات کرانے والے سندھ کے مشہور ادیب و محقق محترم حبیب سنائی صاحب ہمارے انتظار میں تھے۔ ہم گلیوں اور ویران بازاروں سے چلتے اور گزرے زمانوں کی باتیں کرتے ایک قدیم مسجد میں پہنچے۔
حبیب سنائی صاحب کے مطابق 'یہ کلہوڑا دور میں تعمیر کی گئی مسجد ہے البتہ اس کی مرمت ہوتی رہی ہے۔ مسجد کی چھت لکڑی کی ہے اور اس کے شہتیروں پر پھول پتیوں کی انتہائی شاندار نقش و نگاری موجود ہے، مگر وقت نے ان پھول پتیوں سے گہرے رنگ چھین لیے ہیں۔ بس پھیکے رنگ ہیں جو ان شاندار رنگوں اور چمک کے شاہد ہیں جو کبھی ان شہتیروں پر موجود تھے۔ مسجد کے بعد ہم باتیں کرتے دریائے سندھ کے پشتے پر آئے جو ہالا پرانا کے مغرب میں ہے۔ پشتے کے نیچے دریائے سندھ کا موجودہ راستہ ہے اور اس راستے میں بہت کم پانی ہے جس کی سطح پر کچھ کشتیاں چلتی ہیں اور دریا کنارے بسنے والی بستیوں کے لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں‘۔
میں نے پہلی بار دریائے سندھ کی وسعت، سحر اور پُراسراریت کو اپنے اندر لوبان کے دھویں کی طرح پھیلتے محسوس کیا۔ دریا جو حیات کا پیغام ہیں، جن کے بہاؤ اور کنارے پُراسراریت سے بھرے ہوتے ہیں، کئی لوک کہانیاں ہیں جن کو دریا جنم دیتے ہیں، دن رات کے جتنے پہر ہیں ان سب پہروں میں دریا کے اپنے رنگ اور اپنی خوبصورتی ہے۔ میں نے پشتے سے مغرب کی طرف دیکھا جہاں دُور جنگل تھے اور ایک ہری لکیر کی طرح نظر آتے تھے مگر مجھے کنارہ کہیں نظر نہیں آیا۔ میں سوچتا ہوں جب دریا آزاد تھا، کوئی ڈیم کوئی بیراج نہیں تھا، تو ان دنوں میلٹنگ سیزن کے دوران یہاں سے دریا کی وسعت اور بہنے کی کیفیت کیا ہوگی؟
حدِ نظر تک مٹیالہ پانی اور اس پر چلتی ہوئی بادبانی کشتیاں، پلّا مچھلی کے شکار کے لیے مٹکوں پر تیرتے ملاح، مصروف گھاٹ، آتے جاتے لوگ۔ میں نے محترم حبیب سنائی سے ہالا پرانا اور ہالکنڈی کے گزرے دنوں سے متعلق پوچھا تو ایک طویل جواب آیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہالکنڈی شہر کافی قدیم تھا، محققین کے مطابق اس شہر کی بنیاد سمہ دور (1522ء سے 1351ء) میں پڑی۔ ارغونوں، ترخانوں، مغلوں کے زمانے میں یہ شہر اپنے عروج پر رہا، میر علی شیر قانع نے اس کو عالموں اور بزرگوں کی بستی کہا تھا اور 14ویں صدی عیسوی میں ہالکنڈی سہروردی طریقہ کے بزرگوں کا مسکن رہا۔
’ہالکنڈی اور ہالا کی اہمیت یہاں کے مشہور گھاٹ کی وجہ سے بھی تھی۔ گزرے زمانوں میں آپ اس بستی کو وہ جگہ سمجھیں جسے جنوبی سندھ سے شمالی سندھ اور شمالی سندھ سے جنوبی سندھ جانے والے اسی گھاٹ کو دریا پار کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مرزا شاہ حسن ارغون جب جام فیروز سے لڑ جھگڑ کر بکھر جا رہا تھا تو اسی گھاٹ کو پار کرکے دریائے سندھ کے دائیں کنارے سے بائیں کنارے آیا تھا۔ کلہوڑا دور کے آخر میں دریائے سندھ کے پانی نے ہالکنڈی کو نگل لیا، چونکہ ہالا پرانا جہاں ابھی ہم بیٹھے ہیں یہ ہالکنڈی کی جڑواں بستی تھی تو ہالکنڈی کے زوال کے بعد ہالکنڈی کا نیا وجود پرانا ہالا کے روپ میں نروار ہوا‘۔
ہالکنڈی کے بعد ہالا پرانا کو دریائے سندھ سے خطرہ ہونے لگا، دریا جو اپنے کناروں کی بستیاں اجاڑ رہا تھا وہ اس پانی دیوتا کی ایک کروٹ تھی جو وہ لینے والا تھا۔
میں اس بہاؤ کی تبدیلی کی مختصر سی کہانی آپ کو محمد حسین پنوھر صاحب کی زبانی سنانا چاہوں گا، وہ لکھتے ہیں کہ ’کلہوڑا دور میں آبپاشی سے ہونے والی زراعت 20 لاکھ ایکڑ پر مشتمل تھی، مگر ان دنوں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریاؤں کے بہاؤ میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے 1756ء سے دریائے سندھ میں تبدیلی آنے لگی۔ دریا نے اپنا نیا بہاؤ ہالا سے حیدرآباد کے مغرب سے بنایا اور پرانا بہاؤ جو ہالا سے اڈیرو لال، نصرپور، شیخ بھرکیو، پرانی بدین اور رحمکی بازار سے کوری کریک تک جاتا تھا اس کو چھوڑ دیا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے 500 سے زیادہ نئی نہریں ہالا سے اوپر اور مغرب میں جاری ہوئیں جبکہ اتنی ہی نہریں ہالا سے نیچے جنوب اور مشرق میں خشک ہوئیں۔ اس کی وجہ سے آبپاشی پر ہونے والی زراعت جو 20 لاکھ ایکڑ پر تھی وہ گھٹ کر 10 لاکھ ایکڑ ہوگئی‘۔
اس بہاؤ کی تبدیلی کی وجہ سے ہالکنڈی دریا برد ہوا اور لوگ ہالا پرانا میں آکر رہے۔ 1800ء میں نیا ہالا آباد ہوا اسی طرح دونوں شہر آباد رہے، اگر نیا ہالا برتنوں اور کاشی کے کاموں کی وجہ سے مشہور تھا تو ہالا پرانا جنڈی کے کام اور کپڑے بننے کی کھڈیوں کی وجہ سے مشہور رہا۔
ایڈورڈ ہملٹن ائٹیکن سندھ گزیٹیئر میں تحریر کرتے ہیں کہ ’یورپ اور بمبئی سے کپڑے کی آمد میں اضافے نے یہاں کی کھڈیوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ ایک ایسی صنعت ہے جو بہت سارے لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ان کھڈیوں پر جو چیزیں بُنی جاتی ہیں ان میں سُوسی (کپڑے کی قسم)، کمبل، چادریں، اور دوسرا کپڑا شامل ہے۔ جبکہ سوسی بنانے کے لیے نصرپور میں 400 اور ہالا میں 500 کھڈیاں ہیں جو کپڑا بُننے میں مصروف رہتی ہیں۔ ساتھ میں یہاں ’جنڈی‘ پر بھی خوبصورت کام ہوتا ہے جو سارے ہندوستان میں ’سندھ ورکس‘ کے نام سے بکتا ہے۔ جنڈی کے کام میں سرخ، پیلا، سیاہ اور ہرا رنگ کثرت سے استعمال ہوتا ہے البتہ جہاں ضرورت محسوس کی جاتی ہے وہاں دوسرے رنگ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جنڈی کا یہ کام گلاسوں، کپوں، چھوٹی ڈبیوں اور پیالوں پر بھی کیا جاتا ہے مگر سب سے زیادہ یہ کام چارپائی کے پایوں، جھولے اور کرسیوں پر ہوتا ہے اور ’سندھ ورکس یا ہالا ورکس‘ کے نام سے مشہور ہے‘۔
ہیوز اسی حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ ’سوسی ہالا ڈسٹرکٹ میں سالانہ 6 ہزار روپے تک کی بنائی جاتی ہے جس سے شلوار قمیض اور کُرتے بنتے ہیں۔ ہالا میں کاشی کا شاندار کام ہوتا ہے جس میں برتن، تھالیاں، پلیٹیں، چوکے (چھت ڈھانپنے کی مخصوص اینٹیں)، صراحیوں پر پھول پتیوں اور رنگوں کا کام ہوتا ہے۔ ان چیزوں کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہ ایک صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ کراچی میں جو دسمبر 1869ء میں صنعتی نمائش ہوئی تھی اس میں ہالا کے ان کاموں کے کاریگروں کو بہت سارے انعامات اور سرٹیفکیٹ ملے تھے۔‘
محترم حبیب سنائی نے بتایا کہ ’ہالا پرانا ایک اور ہنر کی وجہ سے بھی مشہور تھا۔‘
’یہ پیھوں یا پیئوں بنانے کے حوالے سے بڑا مشہور تھا، (پیھوں سے مراد چاول کو ابال کر جس طرح جو کا دلیہ بنتا ہے اسی شکل میں لے آتے تھے، عید یا خوشی کے دنوں میں اسے میٹھے کے طور پر چینی ملا کر پکاتے ہیں)۔ بلکہ 80ء کی دہائی تک بھی یہاں 30 کے قریب ’اُکھر‘ (وہ جگہ جہاں ایک مقررہ طریقے کے تحت پیھوں بنتے ہیں) تھے جہاں یہ بنتے تھے۔ شمالی سندھ سے ’سگداسی‘ اور جنوبی سندھ سے ’رتڑیا‘ اور ’کانگڑا‘ قسم کے چاول منگوائے جاتے تھے اور ان کو بڑے دیگچوں میں ابالا جاتا تھا۔ پھر اس کے بعد اسے سوکھانے کے لیے چھلیوں میں رکھ کر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ جس چھلی کے چاولوں سے پانی نچڑ جاتا تھا تو گرم توے پر ان کو بھونا جاتا تھا اور جب چاولوں سے ٹوٹنے کی آوازیں آنے لگتیں تو ان کو پتھر کی بڑی اوکھلی میں ڈالتے تھے اور اوپر سے لکڑی کا بڑا وزنی ہتھوڑا ان چاولوں پر گرتا رہتا تھا۔ وہ چاولوں کو دبا دیتا اور چاول پچک کر اپنی مخصوص شکل لے لیتے، پھر ان کو صاف کرنے کے بعد بوریوں میں بھر کر بازار میں بھیجا جاتا۔‘
ہم جانتے ہیں کہ ہالا جیسی قدیم اور ہنرمند بستیوں کے لیے یہ ایک مختصر سی ملاقات بہت کم ہے، بلکہ اس ملاقات سے ہالا کو جاننے کی تشنگی مزید بڑھ جاتی ہے۔ مگر ہم قدیم زمانے سے موجود ان کاریگریوں کے لیے ضرور لوٹ آئیں گے جہاں دریائے سندھ کی دودھ جیسی مٹی سے چیزیں وجود میں آتی ہیں اور اس پر زندگی سے بھرپور رنگوں کی ہولی ان کو خوبصورت اور لازوال بنادیتی ہیں۔
ہم نے جب حبیب سنائی سے جانے کے لیے اجازت لی تو دوپہر نے ڈھلتے سورج سے ہار مان لی تھی۔ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ ہر آنے والے وقت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ جو فن وقت کا ساتھ دے پاتے ہیں اور نیا روپ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ وقت اور حیات کے کارواں کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ جو فن کچھ معروضی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے ساتھ نہیں دے پاتے وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ حیات کا یہی اصول ہے۔
حوالہ جات:
۔ ’سندھ گزیٹیئر‘۔ البرٹ ولیم ھیوز۔ 2017ء۔روشنی پبلیکیشن، حیدرآباد
۔ ’سندھ گزیٹیئر‘۔ ایڈورڈ ہملٹن ائٹیکن۔ 2006ء۔ روشنی پبلیکیشن، حیدرآباد
۔ ’ہالا جا رنگ ھزار‘۔ محمد حبیب سنائی۔ 2009ء۔ مٹیاری کتاب دوست پروگرام، مٹیاری
۔ ’ہالاکنڈی کھاں ہالا پرانا تائیں‘۔ محمد حبیب سنائی۔ 2018ء۔ مارئی اکیڈمی، حیدرآباد
۔ ’تاریخ درگاہ شریف ہالا‘۔ مخدوم جمیل الزمان صدیقی۔ 2020ء۔ طالب المولیٰ اکیڈمی۔ ہالا
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں