نوکوٹ واقعہ: ڈین این اے رپورٹ میں لڑکیوں کے ’گینگ ریپ‘ کا انکشاف
گزشتہ ماہ 9 فروری کو سندھ کے علاقہ نوکوٹ میں مبینہ طور پر اغوا کے بعد مبینہ ریپ کا شکار ہونے والی دو لڑکیوں کے ڈی این اے رپورٹس میں انہیں تین ملزمان کی جانب سے ’گینگ ریپ‘ کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق متاثرہ لڑکیوں اور ان کو ریپ کا نشانہ بنانے والے ملزمان کے ڈی این اے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایس ایس پی میرپورخاص اسد چوہدری کے مطابق ڈی این اے رپورٹس کے نتائج میرپورخاص پولیس کے حوالے کردیے گئے۔
ڈی این اے کے ٹیسٹس جامشورو کی لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے مالیکیولر بائیولاجی لیبارٹری میں کیے گئے، اس کے لیے 33 لوگوں کے نمونے حاصل کیے گئے تھے۔
گزشتہ ہفتے پولیس نے سات ملزمان کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا تھا لیکن تفتیشی افسر میڈیکل رپورٹ اور چالان پیش کرنے میں ناکام رہے تھے، جس پر عدالت نے تفتیشی افسر کو ملزمان کی میڈیکل رپورٹ کے ساتھ ان کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ مذکورہ واقعہ میں ٹنگڑی برادری کے درجنوں مسلح افراد نے محمد حنیف راجپوت گاوؑں پر حملہ کرکے ایک 20سالہ اور 14 سالہ لڑکی کو ہتھیاروں کے زور پر اغوا کیا اور دونوں کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: میرپورخاص: شادی سے 3 دن قبل اغواء ہونے والی لڑکی قتل
واقعہ کے بعد متاثرہ لڑکیوں کے والدین اور ان کے رشتہ دار نوکوٹ تھانے پر پولیس کی مدد لینے اور مقدمہ درج کروانے کے لیے پہنچے مگر پولیس نے ان کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا تھا۔
متاثرہ خاندان نے میرپورخاص نوکوٹ روڈ پر دھرنا دیا تھا،جس کے بعد واقعے کی میڈیا کوریج کے بعد پولیس کو 24 گھنٹوں بعد حرکت میں آنے پر مجبور کیا، پولیس نے لڑکیوں کو رہا کروا کر مقدمہ دائر کیا تھا۔
متاثرہ لڑکیوں نے انکشاف کیا تھا کہ مسلح افراد نے نفیس نگر پولیس چوکی کے انچارج گلزار ٹنگڑی کی مدد سے انہیں اغوا کرکے انہیں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔
لڑکیوں کے بیان کے بعد گزار ٹنگڑی کو بعد میں معطل کیا گیا تھا لیکن وہ ڈی ایس پی انکوائری سے بچ گئے تھے تھا اور انہیں محض چار مارچ کو تبدیل کرکے دوبارہ مٹھی کا ڈی ایس پی تعینات کا گیا تھا۔
پولیس نے بڑھتے ہوئے دباوؑ کے پیش نظراور خاص طور پر سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے نوٹس لینے کے بعد تمام 24 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے ڈی ایس پی اور نفیس نگر پولیس چوکی کے انچارج کی جانب سے بھی سنگین غفلت پائی تھی۔