• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

عالمی یومِ خواتین پر ملیے پاکستان کی 6 باہمت خواتین سے

اگر خواتین خود پر اعتماد اور یقین کا اظہار نہیں کریں گی تو دیگر لوگوں کے لیے بھی ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا مشکل ہوگا۔
شائع March 8, 2022

جب ہم خواتین رول ماڈلز کے بارے میں سوچتے ہیں تو ذہن میں خود ہی پاکستان کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی یا پھر وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن مرحومہ عاصمہ جہانگیر کا نام آتا ہے۔ ان ناموں میں معروف شاعرہ اور سی ایس ایس افسر پروین شاکر، مشہور شہری منصوبہ ساز پروین رحمٰن اور یاسمین لاری یا پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کا نام بھی شامل ہوتا ہے۔

لیکن صرف سیاست اور سماجیات میں ہی نہیں بلکہ کاروباری شعبے میں بھی کچھ خواتین ایسی ہیں جو اس لائق ہیں کہ انہیں جانا جائے۔ ان خواتین نے ملٹی نیشنل اداروں، بینکوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں، شپنگ/ لاجسٹکس، ڈیری کے شعبے اور دیگر ایسے شعبوں اور اداروں میں خود کو منوایا ہے جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے۔

عالمی یومِ خواتین کے تناظر میں ہم ایسی 6 پاکستانی خواتین کا تعارف پیش کررہے ہیں جو نوجوان خواتین کو متاثر کررہی ہیں۔

ارونا حسین

منیجنگ ڈائریکٹر سی لینڈ مارکٹنگ یورپ

اگر آپ ارونا حسین سے واقف نہیں ہیں تو آپ بہت کچھ نہیں جانتے۔ یہ خاتون ایک لیجنڈ ہیں جنہوں نے مردوں کی اجارہ داری والی لاجسٹک اور شپنگ کی صنعت میں اپنی جگہ بنائی۔

انہوں نے اپنا کریئر 2000ء میں مرسک کے انٹرنیشنل لیڈرشپ پروگرام سے شروع کیا۔ رفتہ رفتہ وہ اس شعبے کے بارے میں سیکھتی گئیں اور ملک میں اور بیرون ملک نئی ذمہ داریوں پر فائز ہوتی گئیں۔ 7 برسوں میں وہ اس ادارے کے لاجسٹکس کے شعبے کی سی ای او بن چکی تھیں۔

وہ ایک چوٹی کی ملٹی نیشنل لاجسٹکس کمپنی کی پاکستان میں پہلی سی ای او تھیں۔ کچھ وقفے کے بعد وہ 2016ء میں وہ دوبارہ مرسک کا حصہ بنیں۔ اس کے بعد سے وہ ان کے لاجسٹکس ڈویژن کی سی ای او پھر مشرق وسطیٰ میں کمپنی کی سی او او رہیں۔ جنوری 2019ء میں وہ مرسک پاکستان کی منیجنگ ڈائریکٹر بنیں۔ اس وقت وہ بحیثیت منیجنگ ڈائریکٹر مرسک ہی کی ایک کمپنی سی لینڈ یورپ کی سربراہی کررہی ہیں۔

ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ ملک اسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی درست نمائندگی موجود ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں خواتین پر بہت زیادہ معاشرتی دباؤ موجود ہے اور یہ صورتحال صرف اس وقت بدل سکتی ہے جب مرد اور خواتین دونوں ایک درست توازن کے حصول کے لیے کام کریں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مردوں کو خاص طور پر اس حوالے سے آگے آنا چاہیے اور برابری اور مساوات کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواتین کے ساتھ کام کرنا چاہیے، خواتین کو بھی اس حوالے سے زور دینا چاہیے۔ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم روزانہ اپنے گھروں میں، اپنے محلوں میں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں اور اپنے کام کی جگہوں پر تعصب کو ختم کریں‘۔

عائشہ سروری

ڈائریکٹر پبلک افیئرز کمیونیکیشن اینڈ سسٹین ایبلٹی (برائے پاکستان و افغانستان)، کوکا کولا

عائشہ سروری نے امریکا کی سان ہوزے اسٹیٹ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ یو ایس ایڈ، یو ایس آئی پی، ورلڈ بینک، ایڈم اسمتھ انٹرنیشنل، سی این این، این پی آر، بِل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور ڈی ایف آئی ڈی کے ساتھ بھی کام کرچکی ہیں۔ اس وقت وہ کوکا کولا کمپنی کے ساتھ بطور ڈائریکٹر پبلک افیئرز، کمیونیکیشن اینڈ سسٹین ایبلٹی (برائے پاکستان و افغانستان) منسلک ہیں۔

اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ خوش قسمت تھیں کہ انہیں ایسے بہترین مینٹور ملے جنہوں نے اس وقت ان کے لیے مواقع پیدا کیے جب ان کے لیے کئی دروازے بند تھے۔

عائشہ کا کہنا ہے کہ ’تاہم اہمیت صرف دو چیزوں کی ہے، پہلی چیز ہے محنت اور دوسری چیز آپ کی ساکھ۔ یہ دو چیزیں ہی آپ کی حفاظت کرتی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرا سفر مشکل رہا، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میں طاقت کی حرکیات کے حوالے سے بہت حساس تھی اور میں ان مردوں کو برداشت نہیں کرسکتی تھی جو اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے بھی مشکل تھا کہ ہمارا معاشرہ خواتین کو کام کرنے کے حوالے سے تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ سماجی طور پر اور بطور والدین آپ ہی کو سارا بوجھ برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ کو صرف پیسے سے مطلب ہے، جیسے یہ کوئی بُری چیز ہو‘۔

اس شعبے میں قدم رکھنے کی خواہش مند نوجوان خواتین کے لیے عائشہ کا یہ پیغام ہے کہ ’نوجوان خواتین کو اپنے اطراف سے باخبر ہونا چاہیے۔ پاکستان میں کام کرنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے اور تناؤ کا باعث بھی۔ یہ بات درست ہے کہ اس کا صلہ بھی اچھا ملتا ہے، آزادی ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے کوشش ضرور کرنی چاہیے، تاہم اس کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کو عموماً کم تنخواہیں دی جاتی ہیں، تنخواہوں کا یہ فرق حقیقی ہے، اور اگر کبھی کوئی تنازع سامنے آئے تو بہت کم اداروں میں ہی قانون پر عمل کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے‘۔

نوشین احمد جی

ڈائریکٹر ایچ آر، سیمنز

نوشین احمد جی کا فارماسیوٹیکل، فنانس اور اکاؤنٹنگ کے شعبوں کا متنوع کریئر تقریباً 2 دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہیں کاروبار کے 2 اہم اجزا یعنی بزنس پراسیسز اینڈ پریکٹیسز اور ہیومن کیپیٹل میں مہارت حاصل ہے۔

اس وقت وہ سیمنز انجینیئرنگ پاکستان میں ہیڈ آف پیپل اینڈ کلچر ہیں۔ ہیومن ریسورس (ایچ آر) کی سربراہ کے طور پر وہ ادارے کی ضروریات کے تجزیے میں مہارت رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی تعلیم حاصل کرنے سے لے کر بزنس ڈیولپمنٹ، اسٹریٹجی، فنانشل پلاننگ کے شعبوں میں کام کرنے کے بعد اب ایک معروف ادارے میں ایچ آر کی سربراہی کرنے کا سفر بہت ہی پُرجوش تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں دنیا کے مختلف خطوں میں رہی ہوں، میں امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی رہی ہوں لیکن مجھے سب سے زیادہ گھانا پسند آیا۔ میری کامیابی میں میرے گھر والوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ میں جب بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتی ہوں تو اس بات کو یقینی بناتی ہوں کہ میں کچھ نہ کچھ ضرور سیکھوں۔

نوشین احمد جی کے مطابق وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کی زندگی میں ساتھ دینے والے مرد رہے۔ ان کے والد نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی تینوں بیٹیاں بہترین تعلیم حاصل کریں اور انہوں نے اپنی بیٹیوں کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔ نوشین نے بتایا کہ ان کے شوہر ان کے مینٹور ہیں اور انہوں نے کامیابیوں کی سیڑھی چڑھنے میں نوشین کی مدد کی۔

نوشین کا کہنا تھا کہ ’ہمارے کام کرنے کی جگہوں پر عموماً مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن میں نے چند ناپسندیدہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ اچھے مرد ہی دیکھے ہیں۔ خواتین کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم عزت اور تکریم کے حصول کے لیے اپنے کام کی جگہوں پر زیادہ سے زیادہ پروفیشنل رہیں۔ میں نے یہ بہت پہلے ہی سیکھ لیا تھا کہ جب آپ دوسروں کی عزت کرتے ہیں تو بدلے میں آپ کی بھی عزت کی جاتی ہے‘۔

اس یومِ خواتین پر نوشین احمد جی نوجوان خواتین کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ کامیابی کا مطلب بلندی پر پہنچنا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کامیابی کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہونا چاہیے جن میں کریئر، خاندان، دوستوں اور صحت کے ساتھ سب سے ضروری چیز خوشیاں بھی شامل ہیں‘۔

منیزہ بٹ

پارٹنر، کے پی ایم جی

آڈٹ کی دنیا میں منیزہ بٹ کسی مشہور شخصیت سے کم نہیں ہیں۔ وہ دنیا کی بڑی آڈٹ اور ایڈوائزری فرمز میں سے ایک کے پی ایم جی کی پارٹنر ہیں۔ وہ 1996ء میں کے پی ایم جی سے منسلک ہوئیں اور 2000ء میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنیں۔ اس کے صرف 8 سال بعد ہی وہ فرم کی پارٹنر بن چکی تھیں۔

وہ پاکستان میں چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کی 4 بڑی فرمز میں سے ایک میں پہلی خاتون پارٹنر تھیں۔ ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنسی کے شعبے میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے جس وجہ سے وہ ٹیمز اور بورڈ رومز میں خود کو بالکل الگ ہی محسوس کرتی تھیں۔

منیزہ کے مطابق ورکنگ ویمن کے لیے واقعی مشکلات موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اپنی ذاتی اور پروفیشنل زندگی کا انتظام مشکل کام ہے۔ لیکن ہمت اور عزم کے ساتھ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو عبور کیا جاسکتا ہے۔ آپ کا حوصلہ ہی آپ کے راستے بناتا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’خواتین ہی ہمارے معاشرے کی تخلیق کار ہیں اور ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور انہیں قائدانہ کردار دینے کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ خواتین اکثر اپنی قابلیت کے حوالے سے غیر سنجیدہ ہوتی ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو نظر انداز کرتی ہیں اور چونکہ وہ بہت زیادہ خواتین کو قائدانہ حیثیت میں نہیں دیکھتیں اس وجہ سے وہ خود کو بھی اس حیثیت میں تصور نہیں کرپاتیں۔

’میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ اگر آپ اپنے مقصد کے ساتھ مخلص ہیں اور اپنے شعبے میں سبقت لے جاتے ہیں تو آپ کو اپنی کامیابیاں سمیٹنے میں بھی اعتماد کا اظہار کرنا چاہیے۔ اگر خواتین خود اس اعتماد اور یقین کا اظہار نہیں کریں گی تو دیگر لوگوں کے لیے بھی ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا مشکل ہوگا۔ لہٰذا اپنی صنف کو بہادری کے ساتھ قبول کریں اور اسے اپنے خوابوں کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہ سمجھیں‘۔

عنبر تانیہ انصاری

ہیڈ آف مارکیٹنگ، کمیونیکیشنز اینڈ پی آر، اینگرو کارپوریشن

عنبر تانیہ انصاری ایک پاکستانی نژاد امریکی ہیں جو گزشتہ 16 سال سے پاکستان میں کام کررہی ہیں۔ اینگرو کارپوریشن میں کام کرنے سے قبل وہ پاکستان کی ایسٹ منیجمنٹ انڈسٹری میں کئی شعبوں کی سربراہی کرچکی ہیں اور پاکستان کی معروف ترین ایسٹ منیجمنٹ کمپنیوں کی منیجمنٹ کمیٹیوں میں بھی رہ چکی ہیں۔ وہ ایک تخلیقی فرد ہیں جو کہ گلوبل ڈائیورسٹی اینڈ انکلوژن بینچ مارکنگ میں سرٹیفائڈ ہیں۔ وہ ایک سلور شیڈو ٹرینر بھی ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ دنیا کے 80 مختلف ممالک میں ٹریننگ دے سکتی ہیں۔

اپنے سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے کا تجربہ بہت زبردست رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بہت چیلنجنگ، نتیجہ خیز اور بعض اوقات سراسر مایوس کن ہوتا ہے لیکن یہ سب کچھ اس حاصل یا نتیجے کا حصہ ہے جس میں معاشی آزادی، اختیار، اعتماد اور مختلف طرح کے لوگوں سے ملنا اور ان سے سیکھنا شامل ہے۔ اسی وجہ سے یہ حاصل قابلِ قبول ہے۔

ان کے مطابق بحیثیت خاتون مردوں کی اجارہ داری والے کارپوریٹ سیکٹر میں ان کا تجربہ بھی ویسا ہی رہا جیسا اکثر خواتین کا ہوتا ہے۔ یعنی یہ اطمینان بخش تو تھا لیکن منصفانہ نہیں۔ ان کے مطابق ’حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت خاتون آپ کو شعوری اور لاشعوری تعصبات سے نمٹنا پڑتا ہے۔ خوش قسمتی سے میں ایک ایسی کمپنی میں کام کرتی ہوں جہاں جب کوئی خاتون کسی معاملے پر بات کرتی ہے تو اسے سنا جاتا ہے اور ہراسانی اور امتیازی رویے کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا‘۔

کارپوریٹ سیکٹر میں قدم رکھنے والی نوجوان خواتین کے لیے عنبر تانیہ انصاری کا یہ پیغام ہے کہ اس حوالے سے دقیانوسی خیالات کو چیلنج کریں جیسے خواتین کیا کچھ کرسکتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’دیگر خواتین کے ساتھ کام کرنے والی خواتین کے حوالے سے موجود تعصبات کو ختم کریں۔ خود کو ایسا پروفیشنل بنائیں جس کے ساتھ آپ خود کام کرنا چاہیں۔ اگر کبھی آپ کو واضح طور پر یہ نظر آرہا ہو کہ خود کو ثابت کرنے کے لیے آپ کو کسی مرد سے زیادہ محنت کرنی پڑ رہی ہے تو اس صورتحال سے مایوس مت ہوں کیونکہ کبھی نہ کبھی ایسی صورتحال ضرور پیش آئے گی۔ جب ایسا ہو تو آپ کو اپنی کوشش جاری رکھنی ہوگی تاکہ آپ کے بعد آنے والی خواتین کے لیے راستہ آسان ہوسکے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میرا یقین کیجیے کہ آج ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے، ہم سے پہلے آنے والی خواتین نے ہمیں یہاں تک پہنچانے کے لیے ان سے زیادہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ ہمارے پاس ایسے مرد و خواتین مینٹور ہونے چاہیے جو ہمارے لیے آسانی پیدا کرسکیں تاکہ تمام تر تعصبات سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے‘۔

ثانیہ ستار

ہیڈ آف کارپوریٹ کمیونیکیشنز، سسٹین ایبلٹی اینڈ اسپیشل پراجیکٹس، فرائز لینڈ کیمپینا

ثانیہ ستار جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی گریجوئیٹ ہیں اور ماضی میں یونی لیور کے ساتھ بطور برانڈ ایکٹیویشن منیجر، کمیونیکیشنز منیجر اور پھر ڈیجیٹل ریکروٹمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ میں کام کرچکی ہیں۔ وہ 2018ء میں فرائز لینڈ کیمپینا سے منسلک ہوئیں جہاں وہ اس وقت کارپوریٹ کمیونیکیشنز کی سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب آپ وہ کام کرتے ہیں جو آپ کو پسند ہوتا ہے تو حقیقت میں آپ اپنی زندگی میں ایک روز بھی کام نہیں کرتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’فراز لینڈ کیمپینا کی ٹیم نے یہاں کام کرنے کا ایک مثالی ماحول ترتیب دیا ہے۔ یہاں کام کرنا ایک بہت ہی زبردست تجربہ ہے۔ میں اپنے ساتھیوں کا بہت ہی احترام کرتی ہوں اور یہ جزبہ میرے ساتھیوں کے علاوہ صرف ان کے لیے ہے جن سے میں مل چکی ہوں یا اب بھی ملتی رہتی ہوں۔ ان کی زندگیاں، ان کی کہانیاں اور ہماری کمپنی ان کی زندگیوں میں بہتری لانے اور معاشرے کی تیاری پر جس حد تک توجہ دیتی ہے اسے دیکھتے ہوئے مجھے بہت فخر ہوتا ہے‘۔

خواتین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خواتین اس وقت دستیاب افرادی قوت کا نصف ہیں۔ اس وجہ سے ’توازن پیدا کرنا نہ صرف درست عمل ہے بلکہ ان کمپنیوں کے لیے بہتر بھی ہے جو ٹیلنٹ کے معیار، گہرائی اور وسعت کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس طرح معاشرے اور اداروں کا مفاد بھی کسی حد تک یکساں ہوجاتا ہے‘۔

اس یومِ خواتین پر ثانیہ نوجوان خواتین کو جو مشورہ دے رہی ہیں اس کی بنیاد ان کا برسوں کا تجربہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی مراحل بہت مشکل ہوسکتے ہیں اور ایسا ہونا سمجھ بھی آتا ہے ’لیکن اس مشکل کو کبھی بھی اپنے عزائم کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں‘۔


یہ مضمون 07 مارچ 2022ء کو ڈان امیجز پر شائع ہوا۔

طوبی مسعود
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔