• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

تحریک عدم اعتماد: اپوزیشن کا حکومتی اتحادیوں کو ’بڑی پیشکش‘ کرنے کا ارادہ

شائع March 6, 2022
احسن اقبال نے کہا کہ حکومتی اتحادیوں کو ساتھ لے کر وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے — فوٹو: اے پی پی
احسن اقبال نے کہا کہ حکومتی اتحادیوں کو ساتھ لے کر وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے — فوٹو: اے پی پی

اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہیں، 9 جماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پیپلزپارٹی(پی پی پی) نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تاریخ کے اعلان سے قبل حکومتی اتحادیوں کے ساتھ مزید ’ٹھوس شرائط‘ پر مذاکرات کے لیے کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم حزب اختلاف کے کیمپ میں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) میں موجود کچھ عناصر یہ چاہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد اتحادیوں کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش کی جائے کیونکہ ان کے خیال میں انہیں مطلوبہ تعداد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایم این ایز کی حمایت حاصل ہے۔

مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی )ف( کی اعلیٰ قیادت نے اس منصوبے کے لیے حکومتی اتحادیوں خصوصاً چوہدری برادران کی حمایت حاصل کرنے پر اتفاق کیا اور نتیجتاً پی ڈی ایم انہیں ایک بہتر پیکج آفر کرنے جا رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طور پر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اقدام کو آگے بڑھانے سے پہلے حکومتی اتحادیوں کو ساتھ لے کر وسیع البنیاد اتفاق رائے پیدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کرلیا‘

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کی قیادت نے تحریک پیش کرنے میں جلد بازی نہ کرنے اور اتحادیوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے مزید کوششیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے، انہیں عوام میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کے حوالے سے زمینی حقائق سے آگاہ کیا جائے اور ان کے ساتھ انتخابات کے بعد کی دیگر چیزوں پر کام کیا جائے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ اپوزیشن کے پاس وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے مطلوبہ تعداد پہلے ہی موجود ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ انہیں اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔

احسن اقبال نے کہا کہ اتحادی جانتے ہیں کہ اگر وہ عمران خان کی پی ٹی آئی کے ساتھ رہے تو وہ اگلا الیکشن نہیں جیت سکتے جس کی مقبولیت کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں اتحادیوں نے اپنے آپشنز کھلے رکھے ہیں اور ہمیں قوی امکان لگتا ہے کہ وہ آخر کار مستقبل کی سیاست میں متحرک رہنے کے لیے ہمارے ساتھ شامل ہوں گے۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم کا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پوری اپوزیشن کا قبل از وقت انتخابات پر اتفاق رائے ہوگیا ہے، تازہ انتخابات اب اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اختلافی نکتہ نہیں ہے، پی ڈی ایم اور پی پی پی قیادت نے اس پر اتفاق کیا ہے اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اعلان کیا ہے کہ عمران خان کو گھر بھیجنے کے بعد نئے انتخابات ہوں گے۔

پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو عبوری وزیراعظم بنائے جانے کی تجویز سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ یہ معاملہ ابھی طے ہونا باقی ہے، ایک بار جب مشترکہ اپوزیشن مرکز میں پی ٹی آئی حکومت کا تختہ الٹ دے گی تو وہ باہمی مشاورت سے عبوری وزیر اعظم کا تقرر کرے گی۔

میاں شہباز شریف نے حال ہی میں عبوری وزیر اعظم کے عہدے سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو سبوتاژ کرنے سے روکنے کے لیے پہلے اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر غور کیے جانے سے متعلق سوال پر احسن اقبال نے کہا کہ ہم سب سے پہلے وزیر اعظم کو نشانہ بنا رہےہیں اور ہمارے قانونی ماہرین اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ اسپیکر کوئی غیر قانونی رکاوٹ پیدا نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کے منصوبے کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس بند کرنے کا فیصلہ

دریں اثنا پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے فون پر بات کی اور تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں میں پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا۔

شہباز شریف نے بھی اپنی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ پر پارٹی کے سینئر ارکان سے ملاقات کی اور پی ٹی آئی کے قانون سازوں اور اتحادیوں سے رابطوں کی تفصیلات طلب کیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف مہم میں تیزی آنے کے بعد سے منظر عام سے غائب ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے اسلام آباد میں میڈیا کو بتایا کہ ان کی پارٹی کے لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔

خورشید شاہ نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے لگ بھگ 13 ایم این ایز عمران خان کی ’ناکامیوں کا بوجھ‘ اٹھانے کو تیار نہیں ہیں اور وہ اپوزیشن کو ووٹ دیں گے۔

مسلم لیگ ق، ترین گروپ کی اپنے سیاسی کارڈ کے استعمال میں احتیاط

مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین ابھرتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنے کارڈ کھیل رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ق) نے چوہدری پرویز الٰہی کو اپوزیشن کی تجاویز پر فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا، اپوزیشن شریفوں اور چوہدریوں کے درمیان برسوں سے موجود اعتماد کی کمی کو دور کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کی تیاری جاری ہے، جلد اعلان کریں گے، شہباز شریف

دوسری جانب جہانگیر ترین علاج کے لیے لندن میں موجود ہیں، اطلاعات کے مطابق ان کی صحت سنبھل گئی ہے اور وہ آئندہ چند روزمیں اپنے حامی قانون سازوں سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرکے حکمت عملی طے کریں گے۔

ادھر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا میں گرم ان قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا کہ جہانگیر ترین اگلے ہفتے کے اوائل میں واپس آرہے ہیں۔

جہانگیر ترین کا دعویٰ ہے کہ انہیں پنجاب سے تقریباً 10 ایم این ایز اور 2 درجن سے زائد ایم پی ایز کی حمایت حاصل ہے۔

وزیرداخلہ کا انتباہ

دوسری جانب وزیر داخلہ شیخ رشید نے خبردار کیا ہے کہ اگر اپوزیشن نے حکومت گرانے کی کوشش کی تو پورا ’سیٹ اپ لپیٹا جاسکتا ہے‘۔

ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے وزیرداخلہ نے دعویٰ کیا کہ حکومت شیڈول سے 6 ماہ قبل اگلے عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں اپوزیشن سے بات کرنے کو تیار ہے، تاہم اگر اپوزیشن وزیر اعظم کو (عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے) گھر بھیجنے کی کوشش کرتی ہے تو پورا سیٹ اپ سمٹ سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اپوزیشن میں ڈیڈ لاک ہوگیا ہے، شیخ رشید کا دعویٰ

اس بیان سے ان کا اشارہ مارشل لا کی جانب ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس سارے سیاسی تماشے کو ختم کرنے کے لیے ملٹری ٹیک اوور کی ضرورت نہیں ہوگی۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو اپوزیشن کے 3 سے 5 ایم این ایز حکومت کی حمایت کر سکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024