• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ایف آئی اے کا فارکس فرم کا لائسنس منسوخ کرنے کا مطالبہ

شائع March 5, 2022
کمپنی کے مالکان کے نام بھی بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے چاہئیں — فائل فوٹو: ایف آئی اے فیس بک
کمپنی کے مالکان کے نام بھی بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے چاہئیں — فائل فوٹو: ایف آئی اے فیس بک

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے لاہور دفتر کی جانب سے ادارے کے سربراہ کو خط لکھا گیا ہے جس میں کرنسی چینجر کا لائسنس منسوخ کرنے اور اس کمپنی کے مالک کا نام منی لانڈرنگ اور دیگر غیر قانونی کاروبار کرنے کے الزام میں بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر محمد رضوان نے خط میں کہا کہ نوبل ایکسچینج کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ گلبرگ کے مرکزی بازار میں قائم ہے، جہاں غیر قانونی طور پر غیر ملکی کرنسی ایکسچینج اور آئی ایم وی ٹی ایس کا کام کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی کارروائی کے باوجود ڈالر کی اڑان جاری

انہوں نے کہا کہ ادارے نے چھاپے کے دوران کمپنی کے ملازمین عثمان علی اور عدیل مشتاق کو گرفتار کر کے ایک کروڑ 60 لاکھ روپے کی غیر ملکی کرنسی برآمد کی ہے۔

محمد رضوان نے کہا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے کہ ایک کروڑ 60 لاکھ روپے ورکنگ کیپیٹل (کام کرنے کے لیے سرمایہ) نہیں بلکہ بے نامی جرائم کے لیے استعمال کیے جانے والا سرمایہ تھا۔

لاہور کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ کمپنی کے مالکان غیر قانونی اور خفیہ طور پر حوالہ ہنڈی کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں اور اپنے کاروباری مقامات کالے دھن کے سرمایہ کاروں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نوبل ایکسچینج کی تمام 15 برانچز اور فرنچائزز آئی ایم وی ٹی ایس اور ایف سی وائے کی غیر قانونی فروخت اور خریداری کے لیے ایک ہی طریقہ کار کا استعمال کر رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کو سائبر کرائم قانون کا غلط استعمال روکنے کی ہدایت

ایف آئی اے لاہور نے کہا کہ بدنام زمانہ ’ڈبل شاہ‘ اسکینڈل سے حاصل ہونے والی 84 کروڑ روپے کی رقم کا بڑا حصہ نوبل ایکسچینج میں شامل کیا گیا تھا۔

خط میں مزید کہا گیا کہ اس ایکسچینج کمپنی کو بلاخوف منی لانڈرنگ کے کاروبار کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔

ایف آئی اے لاہور نے خط میں درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان مذکورہ کمپنی کے لائسنس منسوخ کا معاملہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو منتقل کیا جائے۔

مزید تجویز پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کمپنی کے مالکان کے نام بھی بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے چاہئیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024