’سرخ سلام‘ میں سرخوں کی ان کہی کہانیاں (تیسری قسط)
کامران اصدر علی کی کتاب سرخ سلام پر پہلا بلاگ 14 جنوری کو باندھا تھا۔ مگر دوسرے بلاگ میں مہینے کا وقفہ آگیا۔ یہ جو قسطوں اور وقفوں میں کالم یا بلاگ لکھے جاتے ہیں اس میں مشکل یہ ہے کہ اب وہ دن ہوا ہوئے جب کالموں اور کتابوں اور ان پر تبصروں کا انتظار رہتا تھا۔
اگر ایک دو لوگ پڑھ کر تبصرہ یا کال کرلیں تو دل شاد ہوتا ہے اور مزید قلم گھسیٹنے کے لیے راغب ہوتا ہے۔ مگر سرخ سلام پر جو ردِعمل سامنے آیا وہ توقع سے زیادہ تھا۔ مرحوم بلکہ مدفون کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی تاریخ پر سرخ سلام کے اوراق الٹتے ہوئے فراق گورکھپوری کی زبان میں ’دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکر رہ گئیں‘۔
گزشتہ بلاگ میں اس جملے پر قلم رکا تھا کہ کالعدم کمیونسٹ پارٹی کا جو ڈھانچہ پارٹی کے سیکریٹری سجاد ظہیر کے بھارت جانے کے بعد بکھرا اور پھر نومبر 1960ء میں لاہور کے شاہی قلعہ میں حسن ناصر کی موت کے بعد جو زیرِ زمین پارٹی سرگرم تھی کیا وہ مرکزی تھی یا صوبائی؟ پھر اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی سطح پر جو پارٹی کمیٹیاں تھیں انہیں کب، کہاں اور کس نے نامزد کیا؟
چلیں تسلیم کہ شدید سختیوں اور پابندیوں کے سبب پورا پارٹی نیٹ ورک اور اس کی ذمہ داریاں نبھانے والے زیرِ زمین کام کر رہے تھے مگر جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد تو کمیونسٹ پارٹی پر غیر اعلانیہ پابندی اٹھ چکی تھی اور 3 دہائیوں تک روپوش رہنے والے بیشتر کامریڈ سرگرم تھے۔ حوالے کے لیے چین نواز کامریڈ طفیل عباس، معراج محمد خان اور روس نواز کامریڈ پروفیسر جمال نقوی، جام ساقی جیسے سکہ بند پارٹی کارڈ ہولڈرز سے بات کی جاسکتی تھی۔
پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ زیرِ زمین پارٹی کی تاریخ عینی شاہدوں یا ان کے وارثوں سے مکالمہ کیے بغیر نہیں لکھی جاسکتی پھر یہ بھی ضروری ہے کہ آپ پارٹی کے حوالے سے جن سے مکالمہ کر رہے ہیں کیا وہ معتبر اور کمیٹڈ رہے ہیں یا نہیں۔ معذرت کے ساتھ کامران اصدر نے اپنی کتاب میں کم و بیش 200 کے قریب کامریڈوں، ان کی آل اولاد یا ان کے ہمدردوں سے گفتگو کی، مگر ان میں سے بیشتر یا تو منحرف ہوگئے تھے یا پھر غیر معتبر کہلائے جاتے ہیں۔
1948ء میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے قیام، پنڈی سازش کیس کے بعد پارٹی پر پابندی لگنے اور پھر پارٹی کے سیکریٹری سجاد ظہیر کی 1955ء میں رہائی اور بھارت روانگی کے بارے میں ڈاکٹر جعفر احمد کی مرتب سید سبط حسن کی کتاب ’مغنی آتش نفس، سجاد ظہیر‘ میں یہ روداد بڑی ایمانداری اور دلشنیں انداز میں لکھ دی گئی ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں صرف ایک سید سبط حسن ہی تھے جن کا لکھا حرفِ آخر کہا جائے گا۔ یقیناً کامران اصدر نے اس سے استفادہ کیا مگر 1955ء میں پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد اس بدقسمت پارٹی اور اس کے خون تھوکتے کامریڈوں پر کیا گزری، اس کی تفصیل جاننے کی ہمارے کامریڈ اصدر علی نے شعوری کوشش نہیں کی کہ اصل فساد تو اس کے بعد شروع ہوا۔
اس کا ایک سبب تو یہی ہے کہ حسن ناصر کی موت کے بعد جو خوف و دہشت کا سماں تھا اس میں بیشتر پارٹی کارڈ ہولڈر یا تو ملک چھوڑ گئے یا گھر بیٹھ گئے، یا پھر معذرت کے ساتھ اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل سے خوفزدہ ہوکر مخبری اختیار کرکے پارٹی کے خودساختہ رہنما بن بیٹھے۔
کامران اصدر علی اپنی کتاب میں اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا طویل مکالمہ چین نواز پارٹی کے کامریڈ، طفیل عباس سے ہوا۔ حیرت ہے کہ اصدر علی نے پارٹی پر 1955ء میں پابندی لگنے کے بعد کا احوال ان سے کیوں نہیں لیا۔ اسی طرح ماسکو نواز، پارٹی کے سوبھوگیان چندانی، عابد حسن منٹو اور پروفیسر جمال نقوی، منہاج برنا (جو کتاب کی تحقیق کے دوران زندہ تھے) سے بھی مکالمے کی زحمت نہیں کی۔
کمیونسٹ پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کے خدوخال 68ء-1967ء میں واضح ہونے لگے تھے اور اس کا عینی شاہد یہ طالب علم ہے جو فرسٹ ایئر کا طالب علم بن کر اس وقت کی ماسکو نواز پارٹی کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ اس وقت پارٹی خود تقسیم در تقسیم سے گزر رہی تھی۔
چین نواز پارٹی کا معاملہ سیدھا اور صاف تھا۔ ایوب مارشل لا کے آخری دور میں جب بڑے پیمانے پر عوامی تحریک چلی تو طلبہ اور مزدور محاذ پر کام کرنے والی قیادت کے بیشتر رہنما یا تو بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی میں چلے گئے یا پھر نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ میں چلے گئے۔
پنڈی سازش کیس سے شہرت پانے والے سابق میجر محمد اسحٰق کی ہشت نگر تحریک کے سرکردہ رہنماؤں اور حامیوں نے آخر تک مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مولانا عبد الحمید خان بھاشانی کا ساتھ نبھایا اور معراج محمد خان اور شمیم زین الدین جیسے شعلہ بیاں اور کمیٹڈ رہنماؤں نے پیپلز پارٹی میں پناہ لی۔
چین نواز پارٹی کا ڈھانچہ، قیادت اور کیڈر کن کامریڈوں کے ہاتھوں میں تھا، اس سے یہ طالب علم آگاہ نہیں کہ یوں بھی یہ بڑا مارا ماری کا دور تھا اور ہم باہر کے آدمی تھے۔ مگر ماسکو نواز پارٹی میں اکھاڑ پچھاڑ ہمارے سامنے کی بات تھی جب ہم ایک طرح دار کامریڈ ڈاکٹر قمر عباس ندیم کی سرپرستی میں ڈاؤ میڈیکل کالج پہنچے جو 50 کی دہائی سے پاکستانی کامریڈوں کا لینن گراڈ کہلایا جاتا تھا۔
کمیونسٹ پارٹی کے اسٹوڈنٹس ونگ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قائدین ڈاکٹر محمد سرور، ڈاکٹر ہارون احمد، ڈاکٹر ادیب رضوی اور پھر ڈاکٹر شیر افضل ملک اور ڈاکٹر محبوب 1970ء کی دہائی میں اپنی اننگ پوری کرچکے تھے۔ مگر ڈاؤ میڈیکل کالج میں موجود ان کے وارثوں نے طلبہ محاذ پر ماسکو نواز پارٹی کا پرچم سنبھالا ہوا تھا۔
مگر المیہ یہ تھا کہ خود ماسکو نواز پارٹی بھی 2 دھڑوں میں تقسیم تھی۔ ڈاکٹر شیر افضل ملک، ڈاکٹر محبوب، بی ایم کٹی، ماسکو نواز پارٹی کے اصلی وارثان یعنی امام علی نازش، پروفیسر جمال نقوی اور سائیں عزیز اللہ کے بارے میں شدید تحفظات رکھتے تھے۔ مگر بہرحال اصل ماسکو نواز پارٹی تو امام علی نازش اور جمال نقوی کی ہی تھی۔
امام علی نازش برسوں سے زیرِ زمیں تھے، پاکستان میں پارٹی کی اصل کمان سائیں عزیز اللہ اور جمال نقوی کے ہاتھ میں تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی فرنٹ پر اجمل خٹک اور میر غوث بخش بزنجو جیسے قومی سطح کے لیڈر نیشنل عوامی پارٹی میں ہوتے ہوئے ایک حد تک پارٹی ڈسپلن میں تھے۔
یہاں آکر قلم رک گیا کہ جن کرداروں کا ذکر آگے چل کر کروں گا ان کی اکثریت گمنامی اور خاموشی کی زندگی گزار کر کبھی کی رخصت ہوئی۔ بڑی ہی معذرت کے ساتھ ہمارے کامران اصدر علی نے کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ لکھنے کا جو بیڑہ اٹھایا اس میں وہ حسن ناصر کی موت کے بعد پارٹی کے بکھرنے کے اسباب اور ان سرکردہ کامریڈوں کو سامنے لانے میں ناکام رہے جس کی توقع ان سے کی جاتی تھی۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ یہاں تک کی براہِ راست معلومات سید سبط حسن کی تحریر سے ہمیں پہلے ہی مل جاتی ہے۔ مستقبل میں جو پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کے ساتھ سلوک ہوا، اس کا سبب بھی یہی ہے کہ کوئی بتانے یا تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کرتا کہ حسن ناصر کی موت کے بعد اصلی تے وڈی پارٹی کن راستوں سے گزرتی ہوئی ایک ایسی کھائی میں جاگری کہ اس کا ملبہ جس کے ہاتھ لگا، اس نے اسی پر اپنی نام نہاد پارٹی کا ڈھانچہ کھڑا کردیا۔
کوشش کروں گا کہ آئندہ کامران اصدر کی کتاب میں موجود اس حصے پر لکھوں جو انہوں نے ادبی محاذ پر لکھا ہے، کیونکہ وہ نہ تو اتنا معتبر کہلایا جائے گا اور نہ ہی وہ ایسا ہے کہ جس سے ترقی پسند تحریک کا اصل چہرہ سامنے آیا۔
تبصرے (4) بند ہیں