یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت کے لیے درخواست
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یورپی یونین میں یوکرین کی شمولیت کی درخواست پر دستخط کر دیے ہیں۔
ڈان اخبار میں خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کی شائع رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت روس کی جانب سے اپنے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کرنے کے 5 دن بعد سامنے آئی ہے جس کے خلاف بڑے پیمانے پر بین الاقوامی سطح پر مذمت اور 27 رکنی یورپی یونین سمیت دیگر کی جانب سے فوجی مدد کی پیشکش کی جارہی ہے۔
ولودیمیر زیلنسکی کے دفتر کے سربراہ آندرے سیبہا نے اپنے آفیشل فیس بُک پیج پر کہا کہ دستاویزات برسلز بھیج دی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تناؤ میں کمی کے لیے یوکرین اور روس کے درمیان پیرس میں مذاکرات
صدر ولودیمیر زیلنسکی کی تصاویر فیس بک پر پوسٹ کی گئیں، ان کے ساتھ وزیر اعظم ڈینس شمیہل اور پارلیمنٹ کے چیئرمین رُسلان اسٹیفانچوک بھی موجود تھے۔
فیس بک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’اب تاریخ رقم کی جا رہی ہے‘۔
تاہم یہ درخواست علامتی ہے، اس عمل میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
یورپی یونین کی رکنیت کے لیے تمام رکن ممالک کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کیا جانا لازمی ہے۔
یوکرین کئی برسوں سے مقامی بدعنوانی کے سبب کمزور پڑچکا ہے، اس وجہ سے یوکرین کے لیے یورپی یونین میں شمولیت کی منظوری کے معیار تک پہنچنا انتہائی مشکل ہے۔
مزید پڑھیں: یوکرین پر حملہ کرنے پر روسی مندوب کی 'معذرت'
یوکرین نے ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر مالیت کی کرپٹو کرنسی جمع کرلی
بلاک چین انالسز فرم ’الیپٹک‘ کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ یوکرین کی حکومت نے بٹ کوائن اور دیگر ڈیجیٹل ٹوکنز کے عطیات کے لیے سوشل میڈیا پر اپیلیں پوسٹ کرنے کے بعد تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر مالیت کی کرپٹو کرنسی جمع کرلی ہے۔
ڈان اخبار میں خبر رساں ایجنسیوں کی شائع رپورٹ کے مطابق روس کے ملک پر حملے کے بعد یوکرین کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ہفتے کے روز کرپٹو کرنسی کے عطیات کی اپیل کی، جس میں بٹ کوائن اور ایتھر سمیت ٹوکنز کے لیے ڈیجیٹل والیٹس کے ایڈریسز پوسٹ کیے گئے۔
یوکرین کے نائب وزیر اعظم اور ڈیجیٹل تبدیلی کے وزیر میخائیلو فیڈروف نے ٹوئٹر پر اپیل کرتے ہوئے لکھا کہ ’یوکرین کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں، ہم اب کرپٹو کرنسی کے عطیات قبول کر رہے ہیں‘۔
انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے کہا کہ روسی افواج نے جنوب مشرقی یوکرین کے 2 چھوٹے شہروں اور ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کے اردگرد کے علاقے پر قبضہ کر لیا، لیکن ماسکو کی سفارتی اور اقتصادی تنہائی بڑھنے کے ساتھ ہی دیگر محاذوں پر اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔