• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

نور مقدم قتل کیس: کب، کیا ہوا؟

مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 22 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جو آج سنایا گیا۔
شائع February 24, 2022 اپ ڈیٹ February 25, 2022

نور مقدم قتل کیس میں عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے جبکہ والدین کو بری کر دیا گیا۔

عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت جبکہ ان کے گھر کے چوکیدار افتخار اور مالی جان محمد کو 10، 10 سال کی سزا سنائی ہے۔

اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے مقدمے کا فیصلہ سنایا جس میں 12 میں سے تین ملزمان کو سزا سنائی گئی جبکہ باقی 9 افراد کو بری کر دیا گیا۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے بعد 22 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنایا گیا ہے۔

کیس میں مجموعی طور پر 12 ملزمان شامل تفتیش رہے جن میں سے 4 ملزمان یعنی مرکزی ملزم ظاہر جعفر، اُن کے والد ذاکر جعفر، سیکیورٹی گارڈ افتخار اور مالی جان محمد زیرِ حراست رہے۔

ملزمان پر 14 اکتوبر 2021 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی اور مقدمے کا فیصلہ فرد جرم عائد ہونے کے لگ بھگ 17 ہفتے بعد سنایا گیا۔

نور مقدم کے قتل کا واقعہ گزشتہ سال عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل 20 جولائی کو پیش آیا تھا۔

20 جولائی 2021: لرزہ خیز قتل

20 جولائی 2021 کو سابق سفیر شوکت مقدم کی 27 سالہ بیٹی نور مقدم اسلام آباد میں ایک رہائش گاہ پر مردہ حالت میں پائی گئی تھی۔

اس وقت پولیس نے کہا تھا کہ اسے گولی مارنے کے بعد 'ذبح' کیا گیا تھا۔

جیسے ہی قتل کی خوفناک تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں، پاکستانیوں نے آن لائن اور ذاتی طور پر احتجاج کیا اور ٹوئٹر پر #JusticeforNoor ٹرینڈ کرنے لگا تھا۔

21 جولائی: ظاہر جعفر کی گرفتاری

پولیس نے معروف کاروباری شخص کے بیٹے ظاہر ذاکر جعفر کو قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گرفتار کیا اور تین روز کی جسمانی تحویل حاصل کی۔

ایک روز قبل نور مقدم کے والد کی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 (قتل) کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی تھی جس میں ظاہر جعفر اور دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں شوکت مقدم نے کہا تھا کہ پولیس انہیں ظاہر جعفر کے گھر لے کر گئی جہاں انہیں پتا چلا کہ ان کی بیٹی کو تیز دھار ہتھیار سے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اور اس کا سر قلم کیا گیا ہے۔

انہوں نے اپنی بیٹی کے قتل کے الزام میں ظاہر جعفر کے خلاف قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا طلب کی ہے۔

23 جولائی: تفتیش کاروں کا مجرمانہ ریکارڈ کیلئے امریکا، برطانیہ سے رجوع

جیسا کہ لوگوں نے ماضی میں ظاہر کے مبینہ پرتشدد رجحانات کے بارے میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا، سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن عطا الرحمٰن نے کہا کہ انہوں نے متعلقہ حکام کو لکھا ہے کہ وہ ظاہر جعفر کے برطانیہ میں جنسی ہراسانی اور عصمت دری کے مقدمات میں ملوث ہونے، جس کی وجہ سے وہ ملک سے جلا وطن ہوئے تھے، کے بارے میں معلومات کی تصدیق کے لیے امریکا اور برطانیہ سے رابطہ کریں۔

24 جولائی: جسمانی ریمانڈ میں 2 روز کی توسیع

تفتیشی افسر نے مقامی عدالت میں سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملزم کو حراست میں لینے کے بعد اس کے پاس سے ایک پستول، چاقو، چھری اور ایک آہنی ہتھیار برآمد کیا ہے۔

عہدیدار نے بتایا کہ ظاہر جعفر نے نور مقدم کا سر قلم کرنے سے پہلے اسے آہنی ہتھیار کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

عدالت نے ظاہر کے جسمانی ریمانڈ میں دو روز کی توسیع کی۔

25 جولائی: ظاہر کے والدین، گھریلو ملازمین کی گرفتاری

— فائل فوٹو / وائٹ اسٹار
— فائل فوٹو / وائٹ اسٹار

پولیس نے تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پاکستان پینل کوڈ کی مزید چار دفعات ایف آئی آر میں شامل کیں جو بنیادی ثبوتوں کو چھپانے سے متعلق ہیں اور ظاہر جعفر کے والدین اور اہلخانہ کے گارڈ کو گرفتار کرلیا۔

دریں اثنا وفاقی دارالحکومت انتظامیہ نے تھراپی ورکس کے دفتر کو سیل کردیا جہاں ظاہر جعفر مبینہ طور پر بطور کونسلر کام کرتا تھا۔

26 جولائی: ظاہر جعفر کا نور مقدم کو قتل کرنے کا اعتراف

پولیس نے دعویٰ کیا کہ ظاہر جعفر نے جرم کا اعتراف کرلیا ہے اور اس کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں مزید دو روز کی توسیع کر دی گئی۔

27 جولائی: پولیس نے موبائل فون برآمد کرلیے

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ظاہر جعفر اور نور مقدم دونوں کے موبائل فونز ظاہر جعفر کی رہائش گاہ سے دیگر شواہد کے ساتھ برآمد کرلیے گئے۔

ظاہر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی اور گھریلو ملازم کو ان کے دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا جس نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔

اسی روز ان چاروں کے لیے ضمانت کی درخواستیں بھی جمع کرائی گئیں۔

28 جولائی: ظاہر کے جسمانی ریمانڈ میں 3 دن کی توسیع

سرکاری پراسیکیوٹر نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ مرکزی ملزم کا مزید تین روزہ ریمانڈ دے کیونکہ انہیں ویڈیو کے فرانزک تجزیے کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ لاہور بھیجا جانا تھا۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد توسیع دے دی۔

جعفر خاندان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم اس ظلم کی واضح طور پر مذمت کرتے ہیں اور ظاہر اور اس کے انتہائی قدم کی ہمیشہ کے لیے مذمت کرتے ہیں'۔

30 جولائی: پولی گراف، دیگر ٹیسٹ کیے گئے

ظاہر جعفر کے پنجاب کے فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) لاہور میں پولی گراف سمیت دو ٹیسٹ کروائے گئے تاکہ ان کے بیانات اور قتل کے سلسلے میں جمع کیے گئے شواہد کی تصدیق کی جا سکے۔

ظاہر جعفر اور نور مقدم کے موبائل فونز وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھیجے گئے تھے تاکہ ان کو غیر قانونی ٹیسٹ اور حذف شدہ ڈیٹا کی بازیابی کے لیے کھولا جاسکے۔

31 جولائی: جسمانی ریمانڈ میں دو روز کی توسیع

سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والی 'نئی تفصیلات اور کرداروں' کی تفتیش کے لیے استغاثہ کی جانب سے مزید وقت طلب کرنے کے بعد عدالت نے ظاہر کے جسمانی ریمانڈ میں دو روز کی توسیع کردی۔

2 اگست: ظاہر جعفر کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور

— فائل فوٹو / ڈان نیوز
— فائل فوٹو / ڈان نیوز

جب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ملزم کے حوالے سے اپنی تفتیش مکمل کر لی ہے اور اب اسے اس کی جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے تو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے ظاہر جعفر کو 14 روز کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔

5 اگست: ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

ظاہر جعفر کے والدین کی جانب سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں، عدالت نے اپنے 'عارضی جائزہ' میں کہا کہ ملزمان نے نہ صرف جرم کی حوصلہ افزائی کی بلکہ شواہد کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔

کچھ روز بعد ان کے اور ان کے ملازم کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید دو ہفتوں کے لیے توسیع کر دی گئی۔

14 اگست: ڈی این اے، فنگر پرنٹس سے قتل میں ملوث ہونا ظاہر

پولیس نے دعویٰ کیا کہ ظاہر جعفر کا ڈی این اے ٹیسٹ اور فنگر پرنٹس نے قتل میں اس کے ملوث ہونے کو ظاہر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک ویڈیو پر فوٹو گرامٹری ٹیسٹ کیے گئے جس میں نور کو اپنی جان بچانے کی کوششیں کرتے ہوئے دیکھا گیا اور جہاں ملزم اس کا پیچھا کر رہا تھا جس سے تصدیق ہوئی کہ یہ اصلی ہے۔

15 اگست: تھراپی ورکس کا مالک، 5 ملازم گرفتار

عدالت نے تھراپی ورکس کے 6 عہدیداروں بشمول مالک طاہر ظہور کو پولیس کی جانب سے 'شواہد چھپانے' کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد ایک روز کے جسمانی ریمانڈ میں دے دیا۔

23 اگست: تمام 6 افراد کی ضمانت

ان کی گرفتاریوں کے ایک ہفتے کے بعد تمام 6 افراد کو ضمانت مل گئی اور ہر ایک کو 50 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔

ایک اور پیش رفت میں ظاہر جعفر کے والدین اور ملازمین کے جوڈیشل ریمانڈ میں 6 ستمبر تک توسیع کی گئی۔

26 اگست: نور مقدم کے والد کا ضمانت کے خلاف عدالت سے رجوع

نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی جس میں تھراپی ورکس کے 6 ملازمین بشمول اس کے مالک کو ضمانت دیے جانے کو چیلنج کیا گیا۔

یکم ستمبر: تھراپی ورکس کی مدد طلب

دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ ظاہر جعفر نے 20 جولائی کو اپنے والد کو بتایا کہ اس نے متاثرہ لڑکی کے ساتھ کیا کیا اور جواب میں ملزم کے والد نے تھراپی ورکس سے رابطہ کیا اور اپنے بیٹے کو گھر سے نکالنے میں ان کی مدد طلب کی۔

حکام نے بتایا کہ ملزم کے والد نے تھراپی ورکس کے ملازمین سے کہا کہ وہ اسے اپنے کلینک میں منتقل کریں اور اعلان کریں کہ وہ مریض ہے کیونکہ اس سے اس کا دفاع مضبوط ہوگا۔

علیحدہ طور پر تھراپی ورکس کے مالک نے مقامی عدالت میں ایک درخواست جمع کرائی تاکہ ظاہر جعفر کے خلاف ان کی ٹیم کے ایک رکن پر حملہ اور زخمی کرنے کے لیے فوجداری مقدمہ درج کیا جا سکے۔

4 ستمبر: ظاہر شرابی تھا، پاگل نہیں تھا، سربراہ تھراپی ورکس

تھیراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) طاہر ظہور احمد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نور کا مبینہ قاتل ظاہر شرابی تھا مگر وہ پاگل نہیں تھا۔

سی ای او نے کہا کہ ظاہر جعفر 2013 میں فزیو تھراپی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے تھراپی ورکس آیا تھا، اس وقت اس میں کسی بیماری کی کوئی علامت نہیں دکھی تھی۔

9 ستمبر: پولیس نے چالان پیش کردیا

پولیس نے چالان اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں جمع کرا دیا۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کہا کہ چالان کی کاپیاں اگلی سماعت میں 23 ستمبر کو تمام مشتبہ افراد کے موجود ہونے پر تقسیم کی جائیں گی۔

عدالت نے ظاہر جعفر، اس کے والدین اور ان کے تین گھریلو ملازمین کے جوڈیشل ریمانڈ میں بھی اگلی سماعت تک توسیع کردی۔

چالان کے مطابق نور مقدم کے قتل میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کی وجہ سے زندگی بچانے کے 6 مواقع ضائع کیے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ 'اگر ظاہر جعفر کے ساتھیوں نے مدد کی ہوتی تو اس کی جان بچائی جا سکتی تھی'۔

11 ستمبر: عدالت میں ضمنی چالان جمع

11 ستمبر کو پولیس نے تفتیش مکمل کرتے ہوئے عدالت میں ضمنی چالان جمع کروایا۔

اس چالان میں ملزم ظاہر جعفر کے بیان سمیت 18 گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کروائی گئی۔

پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان کے مطابق ’ملزم نے والد کو واقعے کا بتایا تو انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہمارے بندے آکر تمہیں وہاں سے نکال دیں گے۔‘

ضمنی چالان کے ساتھ ڈی این اے رپورٹ بھی منسلک تھی جس میں مقتولہ کے ریپ کی تصدیق کی گئی۔

پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’ملزم کے والد اگر پولیس کو بروقت اطلاع دیتے تو مقتولہ کی جان بچائی جاسکتی تھی، ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر نے جرم چھپانے میں اپنے بیٹے کی مدد کی۔‘

13 ستمبر: نور کے دوستوں کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر احتجاج

— فائل فوٹو/طاہر نصیر
— فائل فوٹو/طاہر نصیر

جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کے والدین کی گرفتاری کے بعد ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی تو نور مقدم کے دوستوں نے عدالت کے احاطے کے باہر احتجاج کیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔

17 ستمبر: ظاہر کے والدین کے وکیل نے دلائل مکمل کیے

ظاہر کے والدین، ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے وکیل نے قتل کیس میں ان کی ضمانت کی درخواستوں پر اپنے دلائل مکمل کیے۔

سماعت کے دوران جج نے ریمارکس دیے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پولیس تفتیش کے دوران شواہد کو جوڑنا نہیں جانتی۔

23 ستمبر: عدالت نے چالان کی کاپیاں تقسیم کیں

عدالت نے ظاہر ذاکر جعفر، ان کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی، تین گھریلو ملازمین افتخار، جان محمد اور جمیل اور طاہر ظہور، امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمرعباس اور 6 تھراپی ورکس ملازمین سمیت 12 ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے لیے 6 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے سماعت کی جس میں موجودہ ملزمان میں چالان کی کاپیاں تقسیم کی گئیں۔

29 ستمبر: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی، جس کے بعد ملزمان کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

6 اکتوبر: ملزمان کی جانب سے درخواستیں دائر کرنے کے بعد فرد جرم مؤخر

عدالت نے ملزمان کے خلاف فرد جرم کو مؤخر کر دیا جو کہ 6 اکتوبر کو عائد ہونا تھی، لیکن ملزمان نے نئی درخواستیں دائر کی تھیں جس میں چالان کی کاپی کے ساتھ کچھ دستاویزات طلب کی گئیں۔

دریں اثنا ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی نے 29 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اپنی ضمانت کی درخواست مسترد کیے جانے کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

7 اکتوبر: فرد جرم عائد کرنے کیلئے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر

عدالت نے ملزمان کی جانب سے کیس میں ڈیجیٹل ثبوت کی کاپی فراہم کیے جانے کی درخواست کو مسترد کرنے کے بعد ان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی۔

13 اکتوبر: ظاہر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے عدالت سے رجوع

ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی نے ملزمان پر 14 اکتوبر کو فرد جرم عائد کرنے کے سیشن کورٹ کے حکم کو کالعدم قرار دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔

ان کی درخواستوں میں کہا گیا کہ انہوں نے نچلی عدالتوں میں درخواستیں دائر کی ہیں، جس میں ثبوتوں کی کاپیاں اور دفاع کی تیاری کے لیے وقت طلب کیا گیا ہے، لیکن ایڈیشنل سیشن جج نے دونوں درخواستیں خارج کر دیں۔

بعد میں ذاکر جعفر نے اپنی درخواست واپس لے لی۔

14 اکتوبر: ظاہر جعفر سمیت 12 ملزمان پر فرد جرم عائد

عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت 12 افراد پر فرد جرم عائد کردی۔

ظاہر جعفر کے علاوہ عدالت نے ظاہر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی، ان کے 3 گھریلو عملے، افتخار، جان محمد اور جمیل، تھراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور 5 ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس پر بھی فرد جرم عائد کی۔

کارروائی کے دوران ظاہر جعفر نے نور کے والد سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ 'میری جان کو خطرہ ہے، مجھ پر رحم کریں۔'

18 اکتوبر: عصمت آدم جی کی ضمانت خاتون ہونے کی بنیاد پر منظور

سپریم کورٹ نے 18 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا دو ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم نامہ برقرار رکھتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی کی ضمانت خاتون ہونے کی بنیاد پر منظور کر لی۔

تاہم عدالت نے آئی ایچ سی کے 29 ستمبر کے حکم کو معطل کرنے کے لیے درخواست گزار کی درخواست کو مسترد کر دیا جس میں آئی ایچ سی نے ظاہر کے والدین کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ہم ہائی کورٹ کے احکامات میں مداخلت نہیں کریں گے۔

20 اکتوبر: ٹرائل کا باقاعدہ آغاز

اسلام آباد کی سیشن عدالت میں ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہوا جس میں پہلے گواہ کے طور پر سب انسپکٹر محمد رضا اپنی گواہی ریکارڈ کرائی جنہوں نے واقعے کی ایف آئی آر درج کروائی تھی۔

اس کے بعد ملزم کے وکیل نے ان سے جرح کی ۔

3 نومبر: ظاہر جعفر کمرہ عدالت سے زبردستی بے دخل

ظاہر جعفر کو پولیس نے 3 نومبر کو عدالت سے زبردستی نکال دیا جب اس نے کارروائی میں خلل ڈالا اور جج کے سامنے نامناسب باتیں کیں۔

9 نومبر: سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ پیش

عدالت میں جمع کرائی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ میں نور کی فرار ہونے کی کوششوں کو بیان کیا گیا۔

استغاثہ نے عدالت میں سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ جمع کرایا جس میں نور کے قتل کے واقعات کو ریکارڈ کیا گیا تھا۔

ٹرانسکرپٹ میں کہا گیا کہ فوٹیج میں نور کو ظاہر کے گھر کی پہلی منزل سے ہاتھ میں سیل فون لے کر چھلانگ لگاتے اور گراؤنڈ فلور گیلری کے ساتھ گرل پر گرتے ہوئے دیکھا گیا۔

پھر وہ لڑکھڑا کر مین گیٹ کی طرف بڑھی اور باہر جانا چاہتی تھی لیکن سیکیورٹی گارڈ اور مالی کو اسے روکنے کے لیے دروازہ بند کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

ٹرانسکرپٹ کے مطابق ظاہر جعفر نے پہلی منزل سے بھی چھلانگ لگائی، نور کی جانب بھاگا اور پھر اسے گیٹ کے ساتھ ایک کیبن میں بند کردیا۔

اس نے نور کا موبائل فون اس سے چھین لیا اور اسے گھسیٹ کر واپس گھر کے اندر لے گیا۔

یکم دسمبر: میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا مطالبہ

ظاہر جعفر کے وکیل نے ملزم کی ذہنی صحت کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔

ظاہر جعفر کے وکیل نے عدالت میں درخواست دائر کی جس میں ان کی ذہنی حالت کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ ظاہر شدید دماغی بیماری میں مبتلا ہے جس کا تعین مقننہ اور مقامی اور بین الاقوامی قانون کے احکامات کے مطابق مجاز میڈیکل بورڈ کے ذریعے کیا جانا ضروری ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ جب ٹرائل کورٹ نے 14 اکتوبر 2021 کو ملزم کے خلاف فرد جرم عائد کی تو ظاہر نے ان الزامات کا جواب نہیں دیا کیونکہ وہ ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو سمجھنے سے قاصر تھا، جو چارج شیٹ اور آرڈر شیٹ سے واضح ہے۔

5 جنوری: میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست مسترد

عدالت نے ظاہر کی ذہنی حالت پر میڈیکل بورڈ بنانے کی درخواست مسترد کر دی۔

عدالت نے ظاہر کی قانونی ٹیم کی جانب سے دائر درخواست کو مسترد کر دیا جس میں ان کی ذہنی صحت کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ایک دن بعد جاری اپنے تحریری حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ یہ درخواست صرف مجرمانہ ذمہ داری سے چھٹکارا پانے کے لیے دی گئی تھی۔

15 جنوری: نور مقدم کے والد کی عدالت میں گواہی

نور کے والد شوکت مقدم نے عدالت میں گواہی دی اور ظاہر جعفر کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا۔

شوکت مقدم نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے ظاہر کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے عدالت کے سامنے کہا کہ میری بیٹی کو ناحق قتل کیا گیا۔

بعد ازاں مدعا علیہ کے وکلا نے ان سے جرح کی۔

20 جنوری: ظاہر جعفر طبی طور پر فٹ قرار

عدالت کو راولپنڈی سینٹرل جیل اڈیالہ کے ڈاکٹروں کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں ظاہر جعفر کو طبی لحاظ سے مکمل طور پر فٹ قرار دیا گیا۔

اس سماعت کے موقع پر ظاہر جعفر کو پولیس اہلکار اسٹریچر پر لائے۔

اس سے پچھلی سماعت میں ملزم کے وکیل نے ملزم کے میڈیکل چیک اپ کی درخواست کی تھی، جس میں پولس اہلکار ظاہر جعفر کرسی پر بٹھا کر کمرہ عدالت میں لائے تھے۔

25 جنوری: تفتیشی افسر کی جرح کے بعد وضاحت جاری

اسلام آباد پولیس نے ایک تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے قتل کیس میں پیش رفت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ کچھ میڈیا رپورٹس نے کارروائی اور تفتیشی افسر کے دفاعی وکیل کے سوالات کے جوابات کی غلط تشریح کی۔

یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب تفتیشی افسرنے ظاہر جعفرکے وکیل کے ذریعہ جرح کے دوران عدالت کو بتایا کہ نیشنل فرانزک سائنس ایجنسی (این ایف ایس اے) کو چاقو پر ظاہر کی انگلیوں کے نشانات نہیں ملے، جو کہ جائے وقوع سے برآمد ہونے والا جرم کا ہتھیار تھا، اور یہ کہ جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس کی پتلون پر خون کے دھبے نہیں تھے۔

اسلام آباد پولیس نے واضح کیا کہ تفتیشی افسر سے پوچھے گئے سوالات مخصوص تھے اور ان سے 'ہاں' یا 'نہیں' میں جواب دینے کو کہا گیا تھا اور میڈیا رپورٹنگ میں اصل سیاق و سباق شامل نہیں تھا۔

پولیس نے بتایا کہ گرفتاری کے وقت ظاہر جعفر کی قمیض مقتولہ کے خون سے رنگی ہوئی تھی۔

2 فروری: مقدمہ چلانے کے لیے نئے ایس ایس پی کا تقرر

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (آپریشنز) سید علی اکبر شاہ کو ایس ایس پی انوسٹی گیشن کے طور پر مقدمہ چلانے کی ہدایت کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا، انہیں ایس ایس پی عطا الرحمٰن کی جگہ سینٹرل پولیس آفس میں تعینات کیا گیا تھا۔

پولیس کے ترجمان نے کہا کہ عطا الرحمٰن کو تفتیشی ونگ کی مناسب تیاریوں کے ساتھ سماعتوں میں پیش نہ ہونے پر عہدے سے ہٹایا گیا۔

8 فروری: ظاہر جعفر کی آئی جی، آئی او کے خلاف درخواستیں خارج

عدالت نے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل اور آئی او کے خلاف ظاہر کی جانب سے دائر 2 درخواستیں خارج کر دیں اور مقتولہ کے زیر استعمال موبائل فون کی ملکیت کی تصدیق کی ہدایت کی۔

ظاہر جعفر کے وکیل نے پولیس حکام کے خلاف اس تاثر کو دور کرنے کے لیے وضاحت جاری کرنے پر کارروائی کی استدعا کی کہ قتل کیس کی تفتیش میں خامی ہے۔

9 فروری: ظاہر کا جھوٹے کیس میں پھنسائے جانے کا دعویٰ

ظاہر جعفر کے وکلا نے عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 (ملزم سے جانچ پڑتال کا اختیار) کے تحت جاری کردہ سوالنامے کے جوابات پیش کیے، جس میں ملزم نے مؤقف اختیار کیا کہ اسے اور اس کے والدین کو اس مقدمے میں غلط پھنسایا گیا، اس کے خلاف ریاستی مشینری اور میڈیا کا استعمال کیا گیا اور کیس کی تحقیقات اور شواہد اکٹھے کرنے پر بھی اعتراضات اٹھائے۔

اس نے دعویٰ کیا کہ نور نے اپنے گھر پر پارٹی منعقد کرنے پر اصرار کیا تھا اور نور کو اس نے نہیں بلکہ پارٹی میں موجود کسی اور نے اسے قتل کیا تھا۔

بعد کی سماعت میں شوکت مقدم کے وکیل نے ان دعووں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ظاہر کی رہائش گاہ پر کوئی پارٹی منعقد نہیں کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایسی کسی پارٹی کی کوئی فوٹیج نہیں ہے۔

21 فروری: ملزمان کے وکلا کے دلائل مکمل

عصمت آدم جی، تھیراپی ورکس کے 5 ملازمین اور اس کے چیف ایگزیکٹو افسر کے وکیل نے اپنے حتمی دلائل مکمل کر لیے۔

تھراپی ورکس کے 5 ملازمین کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے ان کی بریت کی درخواست کی، انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہ ملازمین جائے وقوع سے شواہد کو ہٹانے کے مجرم ثابت نہیں ہوئے۔

تھراپی ورکس کے سی ای او کے وکیل نے استدلال کیا کہ تھراپی ورکس کے عملے کو شک کا فائدہ دیا جانا چاہیے کیونکہ استغاثہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اس کے علاوہ عصمت آدم جی کے وکیل نے انہیں بری کرنے کی درخواست کی۔

22 فروری: فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ

عدالت نے تمام فریقین کے حتمی دلائل کے بعد قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، فیصلے کا اعلان 24 فروری کو (آج) ہونا تھا۔

سماعت کے بعد شوکت مقدم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملزم کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ اتار چڑھاؤ کے باوجود وہ تحقیقات سے مکمل طور پر مطمئن ہیں، انہوں نے دباؤ میں کام کرنے پر پولیس کی تعریف بھی کی۔