سندھ کی جامعہ میں طالبات کی خودکشی کے معاملے پر وائس چانسلر کے کردار سے متعلق رپورٹ طلب
سندھ ہائی کورٹ نے دو طلبہ کی خودکشی سے ہلاکت کے معاملے میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل یونیورسٹی ( ایس ایم بی بی ایم یو ) لاڑکانہ کی وائس چانسلر کے کردار کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی کو 8 مارچ تک ابتدائی سفارشات جمع کروانے کی ہدایت کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس آفتاب احمد گورر اور عدنان الکریم میمن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے مشاہدہ کیا کہ وائس چانسلر پروفیسر انیلا عطا الرحمٰن نے اپنی جبری رخصت پر عبوری حکم امتناعی حاصل کرنے پر اصرار کیا ہے، لیکن پہلے ابتدائی رپورٹ جمع کروائی جائے تاکہ کیس میں درخواست گزار کا کردار معلوم کیا جاسکے۔
انیلا عطا الرحمٰن نے 12 فروری کو جاری ہونے والے اعلامیے کے خلاف اپنے وکیل کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
مذکورہ نوٹی فیکیشن کے تحت انہیں 45 روز کے لیے جبری رخصت پر بھیج دیا گیا تھا اور ان کی جگہ پروفیسر ڈاکٹر حاکم علی ابڑو کو ایس ایم بی بی ایم یو کے قائم مقام وائس چانسلر کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔
مزید پڑھیں: سندھ: جبری رخصت کے بعد دو جامعات کے وائس چانسلرز کے خلاف تحقیقات کا آغاز
بینچ کی جانب سے چیف سیکریٹری سندھ ، سیکریٹری برائے یونیورسٹیز اور بورڈ ڈیپارٹمنٹ، ڈاکٹر آبرو اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو 8 مارچ کو عدالت کے رو برو پیش ہونے کی ہدایت دی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نےدلیل دی کہ سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹ لاز (ترمیمی) ایکٹ 2018 کئے تحت ترمیم شدہ ایس ایم بی بی ایم یو ایکٹ 2008 ایسی کوئی شق شامل نہیں ہے جس کے تحت یونیورسٹی کے وی سی کو جبری رخصت پر جانے کی ہدایت کی جائے اور متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے قانون کےخلاف کی گئی کارروائی کو مسترد کیا جائے۔
انہوں نے دلیل دی کہ مجازی حکام (سیکریٹریز آف یونیورسٹیز اینڈ بورڈ) کو صرف سنگین بدتمیزی، نا اہلی، بدعنوانی، بجٹ کی شقوں میں خلاف ورزی، اخلاقی پستی اور بد انتظامی کے مقدمات سے متعلق اختیار دیا گیا ہے، اور زیر غور کیسز اس سے متعلق نہیں ہے۔
تاہم، وکیل نے زور دیا کہ دونوں طلبہ، ڈاکٹر نمرتا اور ڈاکٹر نوشین شاہ کی مبینہ خودکشی کے واقعات نے مجازی حکام کو ایکٹ 2008 کی ذیلی دفعہ 9 کے سیشن (10) کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرنے کی ترغیب دی تھی۔
مزید پڑھیں: طالبات ہراسانی کیس: لاڑکانہ یونیورسٹی کی وائس چانسلر عہدے سے برطرف
انہوں نے کہا کہ ایکٹ کے تحت یونیورسٹی کے قانون میں بھی ترمیم کی گئی تاہم اس سلسلے میں کی گئی پوری مشق مفروضوں پر مبنی تھی اور درخواست گزار کو جبری رخصت پربھیجے جانے سے متعلق ریکارڈ میں بھی کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ موجودہ کارروائی میں شامل سوالات یہ تھے کہ کیا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو متعلقہ قوانین کے تحت رخصت پر جانے کی ہدایت کی جا سکتی ہے اور کیا درخواست گزار حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی کے زیرِ تفتیش ہے۔
تاہم، عدالت نے کمیٹی کو ہدایت کی گئی کہ وہ 12 فروری 2022 کو دائر کردہ ریفرنس کے حوالے سےآ ئندہ سماعت پر اپنی ابتدائی سفارشات عدالت میں پیش کریں۔
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار نے عبوری حکم نامہ حاصل کرنے پر اصرار کیا ہے پہلے ابتدائی رپورٹ پیش کی جائے تاکہ مذکورہ تحقیقات میں درخواست گزار کے کردار کا پتہ لگایا جا سکے۔
یاد رہے ستمبر 2019 میں بی ڈی ایس فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا چندانی اپنے ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی تھیں اور ایم بی بی ایس کے چوتھے سال کی طالبہ نوشین کاظمی نے بھی مبینہ طور پر نومبر 2021 میں اپنے ہاسٹل کے کمرے کے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی تھی۔