• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

چین یا امریکا؟ کسی ایک ملک کا انتخاب پاکستان کے لیے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟

شائع March 14, 2022
لکھاری سابق سیکرٹری خارجہ اور ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں
لکھاری سابق سیکرٹری خارجہ اور ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں

ملک بھر میں پالیسی امور پر ہونے والی بحث میں یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ کیا پاکستان امریکا اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھ سکتا ہے؟

سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ سوال پوچھا کیوں جاتا ہے۔ بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست اور خاص طور پر امریکا اور چین کی مسابقت اب ایک نئی سرد جنگ کی طرح لگنے لگی ہے۔ اور اگر اس مسابقت میں مزید شدت آتی ہے تو اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ دنیا 2 کیمپوں میں تقسیم ہوجائے گی اور جلد یا بدیر ممالک کو 2 میں سے کسی ایک کیمپ کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان ان 2 طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن نہیں رکھ سکتا اور اسے فوری طور پر چینی کیمپ کو اختیار کرلینا چاہیے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکا ناقابلِ بھروسہ ساتھی ہے جبکہ چین ایک آزمایا ہوا دوست ہے۔ اس کے علاوہ امریکا نے جنوبی ایشیا میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو اپنا اسٹریٹجک اتحادی بنالیا ہے جبکہ پاکستان امریکا کے سفارتی اور معاشی دباؤ کا سامنا کررہا ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کو چین اور امریکا دونوں کی ضرورت بننا ہوگا

اس دلیل میں 2 باتوں کو فرض کیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ کہ 2 کیمپ وجود میں آچکے ہیں اور پاکستان چینی کیمپ میں جاچکا ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر پاکستان چین کے کیمپ میں چلا جائے تو یہ سفارتی، سیاسی اور معاشی میدان امریکی دباؤ کا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکے گا۔

غور کیا جائے تو یہ دونوں ہی باتیں درست معلوم نہیں ہوتیں۔ پہلی بات تو یہ کہ دنیا اب اس طرح کیمپوں میں تقسیم نہیں ہوگی جس طرح سرد جنگ کے دوران امریکی اور سوویت کیمپوں میں ہوئی تھی۔ امریکا اور سوویت یونین کی نسبت امریکا اور چین ایک دوسرے پر بہت زیادہ منحصر ہیں۔ 2021ء میں امریکا اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت 650 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی تھی جبکہ چین کے پاس ایک کھرب ڈالر سے زائد کی امریکی سیکیورٹیز بھی موجود ہیں۔

یورپ، خلیج اور یہاں تک کہ مشرقی ایشیا میں بھی کئی امریکی اتحادی چین کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات رکھتے ہیں اور وہ 2 سپر پاورز کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی ایک کے فائدے اور دوسرے کے نقصان کے طور پر دیکھنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

کوئی بھی ملک کسی ایک طاقت سے تعلقات رکھنے کے لیے دوسری طاقت سے تعلقات منقطع کرنا نہیں چاہتا۔ موجودہ دور میں بین الریاستی تعلقات کی بنیاد باہمی مفاد اور مسائل کی بنیاد پر بننے والے اتحاد ہوتے ہیں۔ یعنی ایسا ہونا بھی ممکن ہے کہ دو ممالک کسی ایک مسئلے پر اتحادی ہوں اور کسی دوسرے مسئلے پر ایک دوسرے کے مخالف۔

مزید پڑھیے: چین- امریکا تعلقات کا مستقبل کیا ہے؟

اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین پاکستان کا قابلِ بھروسہ دوست ہے، اس نے ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری کا احترام کیا ہے اور بین الاقوامی فورمز پر ہماری حمایت کی ہے۔ چین نے اس وقت ہماری معیشت میں اربوں کی سرمایہ کاری کی جب کوئی بھی یہ کام کرنے کے لیے راضی نہیں تھا۔ بہرحال اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم چین سے امید رکھیں کہ وہ ہماری سیاسی اور معاشی غلطیوں کا بوجھ اٹھائے۔

درحقیقت خود چین یہ چاہتا ہے کہ بھارت کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی اور امریکا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے لیے کوشاں رہا جائے تاکہ پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں۔ مختصراً یہ کہ چین چاہتا ہے کہ ہم امریکا اور چین دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھیں۔ یہاں توازن کا مطلب برابری یا برابر فاصلہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر تعلق کو اپنے قومی مفادات کے تناظر میں دیکھا جائے۔

پاکستان نے امریکا کے ساتھ طویل عرصے تک قریبی تعلقات کا لطف اٹھایا ہے۔ آزادی کے فوراً بعد جب ہندوستان کی جانب سے پاکستان کی بقا کو خطرے کا سامنا تھا تو ہماری قیادت نے اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے اور زراعت اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے امریکا کا اتحادی بننا بہتر سمجھا۔ اس کے بعد سے ہزاروں پاکستانی طالب علموں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا کا رخ کیا اور 10 لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے امریکا کو اپنا گھر بنایا۔ ہماری برآمدات کا سب سے بڑا حصہ امریکا ہی جاتا ہے اور دہائیوں تک امریکا کے ساتھ ہونے والی تجارت کا توازن ہمارے حق میں ہی رہا۔ اس کے علاوہ امریکی کمپنیاں بھی مستقل طور پر پاکستان میں موجود ہیں۔

لہٰذا پاکستان کے لیے چین اور امریکا دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا معقول معلوم ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک کے مقابلے میں دوسرے کا انتخاب کریں گے تو ہماری معاشی کمزوریوں اور اختلافات کی وجہ سے ہمیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

مزید پڑھیے: چین امریکا جنگ اور بنتے بگڑتے بین الاقوامی اتحاد

اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ توازن قائم کرنا مشکل ہوگا، چاہے وہ امریکا کی زیرِ قیادت ڈیموکریسی سمٹ ہو یا چین کے زیرِ اہتمام سرمائی اولمپکس۔ تاہم جب تک پاکستان اپنے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے گا، چین اور امریکا دونوں ہی ان فیصلوں کو سمجھ سکیں گے۔

پاکستان سمیت ہر ملک کو اپنے قومی مفادات کے حصول کا حق حاصل ہے۔ متحدہ عرب امارات اور کچھ دوسرے عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ یہ ان کے قومی مفاد میں ہے۔ اسرائیل امریکا کا قریبی اتحادی ہے لیکن اس کے چین کے ساتھ مضبوط اقتصادی تعلقات ہیں۔ پھر ہندوستان بھی امریکا کا اتحادی ہونے کے باوجود، روس کے ساتھ اپنے روایتی طور پر مضبوط تعلقات میں کسی قسم کی کمی نہیں لایا ہے۔

اس وجہ سے پاکستان کو چین اور امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں چاہے یہ توازن کتنا ہی نازک کیوں نہ ہو۔ اگر یہ توازن قائم نہ کیا گیا تو یہ دونوں میں سے کسی ایک کو پاکستان کا دشمن بنانے کے مترادف ہوگا جس کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔


یہ مضمون 22 فروری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

اعزاز احمد چوہدری

لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز اسلام آباد کے ڈی جی اور کتاب ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024