وزیر اعظم کے دورہ روس سے قبل پاکستان کا یوکرین سے اظہار یکجہتی
پاکستان کی جانب سے متوازن راہ اختیار کرتے ہوئے ایسے وقت میں یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے، جب وزیر اعظم عمران خان 23 فروری کو روس کے 2 روزہ دورے پر روانہ ہونے والے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کی نائب وزیر خارجہ ایمائن زیپر نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ یوکرین میں موجود پاکستانی سفیر میجر جنرل (ر) نوئل اسرائیل کھوکھر نے ان سے ملاقات کی اور یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرنے پر پاکستان کی شکر گزار ہوں۔
اس ملاقات کے وقت کو انتہائی معنیٰ خیز قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ملاقات یوکرین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کے دوران وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس سے چند روز قبل ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم 23 فروری کو روس کے دو روزہ دورے پر روانہ ہوں گے، دفترخارجہ
تجزیہ کار اسے پاکستان کی جانب سے تعلقات میں توازن کے ایک عمل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ایک دہائی سے زائد عرصے سے یوکرین کے دارالحکومت کیف میں پاکستان کے سفیر ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں۔
پاکستان اور یوکرین کے درمیان خاص طور پر دفاعی پیداوار کے شعبے میں دفاعی تعاون بڑھ رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کے تبادلے اور مشترکہ منصوبوں کی بنیاد پر کئی منصوبے زیر تکمیل ہیں۔
سال 2020 میں یوکرین نے آئی ایل-78 ائیر ریفیولر کی مرمت کا ٹھیکا حاصل کیا جبکہ یوکرینی ساختہ ٹی-80 یو ڈی ٹینکس پاکستان کی آرمرڈ کور کا اہم حصہ ہیں۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم رواں ماہ پیوٹن کی دعوت پر روس کا دورہ کریں گے، وزیرخارجہ
اس کے علاوہ پاکستان کے لیے یوکرین، گندم کی درآمد کے لیے ایک بڑی منڈی کے طور پر سامنے آیا ہے۔
سال 21-2020 میں پاکستان نے یوکرین سے تقریباً 12 لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی۔
یوکرین اور روس کے درمیان کشیدگی میں کوئی بھی اضافہ بالآخر پاکستان کی غذائی تحفظ کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
وزیراعظم کا دورہ روس
وزیراعظم عمران خان کل (23 فروری کو) روس کے 2 روزہ دورے پر روانہ ہوں گے، جو کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی دعوت پر ہو رہا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘روسی صدر ولادیمیرپیوٹن کی دعوت پر وزیراعظم عمران خان 23 اور 24 فروری 2022 کو سرکاری دورہ کریں گے’۔
بیان میں کہا گیا کہ ‘وزیراعظم کے ساتھ کابینہ کے اراکین سمیت ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی ہوگا، دو طرفہ سربراہی ملاقات دورے کا اہم جز ہوگی’۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کا دورہ روس انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا، چینی دانشور
یہ اعلان روس اور یوکرین کے درمیان ممکنہ جنگ کے خدشے کی وجہ سے دورے سے متعلق بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال اور اندرون ملک بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کے دوران سامنے آیا۔
تقریباً 23 برسوں میں کسی پاکستانی وزیر اعظم کا روس کا یہ پہلا دورہ ہو گا، آخری مرتبہ سابق وزیراعظم نواز شریف 1999 میں ماسکو گئے تھے۔
یہ دورہ وزیراعظم عمران خان کی اس فون کال کے نتیجے میں ہورہا ہے جو انہوں نے 17 جنوری کو روسی صدر کو مغربی ممالک میں توہین مذہب کے واقعات پر تنقید کرنے پر سراہنے کے لیے کی تھی۔
اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹ کیا تھا کہ انہوں نے صدر ولادیمیر پیوٹن کو خصوصاً ان کے اس پر زور بیان کی تعریف کرنے کے لیے فون کیا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی ہمارے نبی ﷺ کی توہین کرنے کا بہانہ نہیں ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پہلے مغربی رہنما ہیں جنہوں نے ہمارے پیارے نبی ﷺکے لیے مسلمانوں کے جذبات سے متعلق ہمدردی اور حساسیت کا مظاہرہ کیا۔
روسی صدر نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس اظہار کی تعریف کی جس سے خاص طور پر روس کی تقریباً ڈھائی کروڑ مسلمان آبادی کے پیش نظر اس تاثر کو تقویت ملی کہ وہ مسلمانوں کے مسائل سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
سرد جنگ کے سابق حریفوں کے درمیان تعلقات گزشتہ تقریباً 12 برسوں میں بتدریج بہتر ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، روس کا افغان تصفیے کیلئے تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
افغانستان میں ہونے والی پیش رفت، جغرافیائی سیاسی ماحول میں تبدیلی اور دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے بارے میں روس کے خدشات دونوں ممالک کے درمیان قربت کا سبب بنے۔
دونوں فریقین کے درمیان حالیہ برسوں میں ہونے والی اعلیٰ سطحی سرگرمیوں اور اس رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے قائم کردہ ادارہ جاتی میکانزم سے دوطرفہ تعلقات میں بہتری نظر آتی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری بالخصوص 2 پیش رفت بنیں جن میں سے ایک 2014 میں دو طرفہ دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط اور دوسری 2017 میں روس کی حمایت سے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت تھی۔
مزید پڑھیں:روسی صدر کا وزیراعظم عمران خان کو فون، افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال
دونوں فریقین کا مؤقف ہے کہ ان کے تعلقات باہمی احترام، اعتماد اور متعدد بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر نظریات کے تبادلے سے علامت ہیں۔
اگرچہ اسلام آباد اور ماسکو کے تعلقات بدستور سلامتی پر مرکوز ہیں لیکن ساتھ ساتھ اقتصادی تعاون کو وسعت دینے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
روس خاص طور پر توانائی کے شعبے میں دلچسپی رکھتا ہے اور امکان ہے کہ وہ 1100 کلومیٹر طویل پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرے گا جس کا منصوبہ کراچی سے قصور تک گیس کی منتقلی کے لیے بنایا گیا ہے۔
دونوں فریق فی الحال پراجیکٹ کے شیئر ہولڈنگ اور سہولت کے معاہدوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔