• KHI: Maghrib 6:30pm Isha 7:46pm
  • LHR: Maghrib 6:02pm Isha 7:23pm
  • ISB: Maghrib 6:07pm Isha 7:30pm
  • KHI: Maghrib 6:30pm Isha 7:46pm
  • LHR: Maghrib 6:02pm Isha 7:23pm
  • ISB: Maghrib 6:07pm Isha 7:30pm

بیرونِ ملک دستاویزات کی تصدیق کے مشکل عمل سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟

تصدیق کا یہ عمل انتہائی پریشان کن، مہنگا اور غیر منظم ہوتا ہے اور آپ کو زبردستی اس کا حصہ بننا پڑتا ہے۔
شائع February 23, 2022

اگر آپ بھی ان لاکھوں پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جو بیرونِ ملک کام کرتے ہیں یا رہائش پذیر ہیں تو آپ کو بھی اپنے رہائشی ملک میں دستاویزات کی تصدیق کے بھیانک تجربے سے گزرنا پڑا ہوگا۔

آپ میں سے اکثر لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ تصدیق کا یہ عمل انتہائی پریشان کن، مہنگا اور غیر منظم ہے اور آپ کو زبردستی اس کا حصہ بننا پڑتا ہے۔

عموماً جن دستاویزات کی تصدیق کی ضرورت پڑتی ہے ان میں شناخت کے ثبوت سے لے کر تعلیمی اسناد تک کئی دستاویزات شامل ہوسکتے ہیں جن کی نوکری یا امیگیرشن یا کسی اور ضرورت کے تحت تصدیق کروانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

میں پاکستانی شہری ہوں اور مشرق وسطیٰ میں رہائش پذیر ہوں۔ اپنی شادی کے بعد مجھے اہلیہ کے ڈیپینڈنٹ ویزا کے لیے اپنی شادی کے دستاویزات کی تصدیق کروانے کی ضرورت پڑی، میں نے اس دوران جو کچھ سیکھا وہ یہاں بیان کررہا ہوں۔

سب سے پہلے تو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے میرج رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ (ایم آر سی) حاصل کرنا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نکاح نامے سے تھوڑی مختلف چیز ہے، نادرا کے ایم آر سی کے حصول کے لیے نکاح نامہ ہونا لازمی ہے۔ نادرا سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے مقامی یونین کونسل کے دفتر جانا ہوتا ہے جو نکاح نامے کو رجسٹر کرتے ہیں جس کے بعد اس نکاح نامے کو نادرا میں جمع کروا کر ایم آر سی حاصل کیا جاسکتا ہے جس سے شادی کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ اس پورے عمل میں چند ہفتے لگتے ہیں۔

نادرا سے ایم آر سی جاری ہونے کے بعد اسے اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کے دفتر یا پھر بڑے شہروں میں اس کے کیمپ آفس میں لے جانا ہوتا ہے۔ یہاں بھی میاں بیوی میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔ اس مرحلے پر ایک فارم پُر کرنا ہوتا ہے اور فیس جمع کروانی ہوتی ہے۔ یہاں عام طور پر ایک طویل انتظار ہوتا ہے، حالانکہ دستاویز کی تصدیق وزارتِ خارجہ سے چند دنوں میں کردی جاتی ہے۔

وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایم آر سی کی تصدیق ہونے کے بعد اسے میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کی جانب سے متعلقہ سفارت خانے میں لے جایا جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ کاغذی کارروائی اور بھاری فیس آپ کا انتظار کررہی ہوتی ہے۔

سفارت خانے کی جانب سے سرٹیفیکیٹ کی تصدیق ہونے کے بعد اسے پاکستان سے باہر منتقل کیا جاسکتا ہے جہاں مزید تصدیق اور فیس کی ادائیگی کرکے آپ اس سرٹیفیکیٹ کو پاکستان سے باہر استعمال کرسکتے ہیں۔

اگر آپ کے خیال میں یہ تمام عمل صرف شادی سے متعلق دستاویزات کے لیے ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ درحقیقت تقریباً تمام ہی دستاویزات، چاہے وہ برتھ سرٹیفکیٹ ہو، تعلیمی یا پروفیسشل اسناد ہوں یا پھر دیگر دستاویزات، انہیں بیرونِ ملک استعمال سے قبل بیوروکریسی کی اس بھول بھلیاں سے گزارنا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ جب بھی میں کسی دوسرے ملک میں منتقل ہوتا ہوں تو مجھے ہر دستاویز کے لیے ان تمام مراحل سے پھر گزرنا پڑتا ہے۔

آخر اس تصدیق کی ضرورت کیوں ہے؟

کئی برسوں تک لیگلائزیشن، اوتھنٹیکیشن یا جسے پاکستان میں عموماً اٹیسٹیشن کہا جاتا ہے، بین الاقوامی سطح پر عوامی دستاویزات کی تصدیق کا روایتی طریقہ رہا ہے۔ کئی ممالک میں مقامی سرکاری دستاویزات کی تصدیق کو ضروری نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس کی بنیاد وہ قانونی ضابطہ ہے کہ دستاویزات خود اپنی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دستاویزات کو اصل ہی سمجھا جائے گا جب تک اس کے برعکس کوئی چیز ثابت نہ کردی جائے۔

جیسے جیسے لوگوں کی ہجرت میں اضافہ ہوا ویسے ویسے قومی ریاستوں کو احساس ہوا کہ غیر ملکی دستاویزات پر اس مذکورہ قانونی اصول کا اطلاق کرنے سے ان دستاویزات کی اصلیت کا اندازہ لگانے والوں اور اس پر انحصار کرنے والوں پر غیر ضروری دباؤ پڑے گا۔

اس بات کو نامناسب سمجھا گیا کہ جن لوگوں کے سامنے یہ غیر ملکی دستاویزات پیش کیے جائیں وہ صرف انہیں دیکھ کر ان کے اصل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں۔ اس وجہ سے قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک سُست اور مہنگا طریقہ کار متعارف کروایا گیا جس میں مختلف مقامی محکموں اور سفارتی مشنز سے تصدیق کو شامل کیا گیا۔

غیر ملکی دستاویزات کی تصدیق کا یہ نظام پاکستان سمیت دیگر ممالک میں استعمال کیا جارہا ہے۔

اپوسٹائل کنونشن

وقت کے ساتھ ساتھ سفارتی مشنز میں تصدیق کے منتظر دستاویزات کا انبار جمع ہونا شروع ہوگیا اور حکومتوں کو محسوس ہوا کہ یہ عمل عالمگیریت کے لیے درست نہیں ہے اور اس حوالے سے کئی شکایات بھی سامنے آنے لگیں۔

اس کے بعد کونسل آف یورپ نے ہیگ کانفرنس آن پرائیویٹ انٹرنیشنل لا سے درخواست کی کہ اس مسئلے پر غور کیا جائے اور ایک ڈرافٹ کنونشن تیار کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں ’1961ء ہیگ کنونشن ابولشنگ دی ریکوائرمنٹ آف لیگلائزیشن آف فارن پبلک ڈاکومنٹس‘ (1961 Hague Convention Abolishing the Requirements of Legalisation of Foreign Public Documents) سامنے آیا جسے ’اپوسٹائل کنونشن‘ (Apostille Convention) کہتے ہیں۔

اس کنونشن کے تحت معاہدے میں شامل ممالک میں دستاویزات کی تصدیق اور لیگلائزیشن کے تقاضوں میں نرمی کی گئی۔ اس کے تحت اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ مقامی طور پر تصدیق شدہ (جو عمومی طور پر نوٹرائزیشن کی صورت میں ہوتی ہے) اور اپوسٹائلڈ دستاویزات کو معاہدے میں شامل دیگر ممالک میں بغیر لیگلائزیشن کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں دستاویزات کو سفارتی مشن تک لے جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔

ہمارے خطے میں بھارت، عمان اور بحرین نے اس کنونشن کی توثیق کی ہے۔ کچھ سال پہلے تک اس معاہدے میں 108 ممالک شامل تھے جبکہ اب ان کی تعداد 121 ہوچکی ہے۔ معاہدے میں شامل قابلِ ذکر ممالک میں امریکا، یورپی یونین کے ممالک، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے

اس وقت پاکستان اپوسٹائل کنونشن کا رکن ملک نہیں ہے۔ یعنی پاکستانی دستاویزات کے یا پاکستان میں استعمال ہونے والے غیر ملکی دستاویزات کی تصدیق کے لیے بیوروکریسی کے کئی مراحل کو طے کرنا ہوگا، رقم خرچ کرنی ہوگی اور سب سے اہم یہ کہ انتظار کرنا ہوگا۔

اپوسٹائل رکن ملک کے دستاویزات کو پاکستان میں استعمال کرنے یا پاکستانی دستاویزات کو کسی دوسرے ملک میں استعمال کرنے کے لیے بھی کئی مراحل سے گزرنا پڑے گا۔

  • پہلے مرحلے میں دستاویزات کو نوٹری یا متعلقہ اٹیسٹنگ اتھارٹی کے پاس لے جانا ہوگا،
  • اس کے بعد اسے اس ملک کی وزارتِ خارجہ میں لے جانا ہوگا جس ملک میں وہ دستاویزات جاری ہوئے ہیں،
  • اس مرحلے کے بعد دستاویزات کو اس ملک کے سفارتی مشن میں جمع کروانا ہوگا جس ملک میں انہیں استعمال کرنا ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک دردِ سر

عالمی ادارہ محنت کے مطابق اس خطے میں سب سے زیادہ مزدور پاکستان سے ہی دیگر ممالک جاتے ہیں۔ دسمبر 2019ء تک ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد پاکستانی باضابطہ طریقے سے ملازمت کے لیے 50 سے زائد ممالک میں گئے۔ ان اعداد و شمار میں اضافے کی توقع ہے کیونکہ اقوامِ متحدہ کے مطابق عالمی نقل مکانی کے رجحانات نے آبادی میں اضافے کے اعداد و شمار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے (2019ء میں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 27 کروڑ 20 لاکھ کے قریب تھی جبکہ اس سے قبل 2010ء میں یہ 22 کروڑ 10 لاکھ تھی)۔

اگرچہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد خلیج تعاون تنظیم کے رکن ممالک کا رخ کرتی ہے تاہم ایک خاطر خواہ تعداد یورپ، شمالی امریکا اور آسٹریلیا بھی جاتی ہے۔

نتیجے کے طور پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس مسئلے سے دوچار ہے۔ انہیں مجبوراً اس پیچیدہ اور وقت طلب مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ عرصے میں سیکیورٹی خدشات کے باعث سفارتی مشنز نے دستاویزات کی تصدیق کا کام ایجنٹس کو ٹھیکے پر دے دیا ہے جس کی وجہ سے اس کام پر آنے والی لاگت اور وقت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سے بے ایمان ایجنٹوں کے ہتھے چڑھنے کا خطرہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔

سمندرپار پاکستانیوں کو اپنے دستاویزات کی تصدیق کے لیے عموماً پیسے خرچ کرکے پاکستان آنے یا پھر ایک طویل مرحلے سے گزرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

کچھ معاملات میں ایجنٹ کی خدمات بھی نہیں لی جاسکتیں اور اس کے لیے پاور آف اٹارنی فراہم کرنی پڑتی ہے، لیکن پھر وہی بات کہ پاور آف اٹارنی کے دستاویز کو بھی انہی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔

تصدیق کا یہ عمل لوگوں کے علاوہ تجارت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ پاکستان کی 5 بڑی برآمدی منڈیوں میں امریکا، برطانیہ اور جرمنی شامل ہیں۔ یہ تینوں اپوسٹائل کنونشن کے رکن ہیں۔ دوسری طرف چین کنونشن کا فریق تو نہیں ہے لیکن یہ معاہدہ ان دستاویزات پر لاگو ہوتا ہے جو ہانگ کانگ اور مکاؤ سے جاری ہوئے ہوں یا وہاں انہیں استعمال کرنا ہو۔

اگر پاکستان بھی اس کنونشن میں شامل ہوجاتا ہے تو کسی بھی رکن ملک کی جانب سے تصدیق شدہ دستاویزات پاکستان میں اور پاکستان کی جانب سے تصدیق شدہ دستاویزات کسی بھی رکن ملک میں قابلِ قبول ہوں گے۔ یوں تصدیق کے طویل مرحلے سے بچا جاسکے گا جس میں مختلف محکمے اور سفارتی مشن شامل ہوتے ہیں۔

یوں پاکستانی دستاویزات کو بیرونِ ملک اور غیر ملکی دستاویزات کو پاکستان میں استعمال کرنا بہت آسان ہوجائے گا اور اس سے وقت اور پیسے کی بھی بچت ہوگی۔

وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی مشنز کو خدمات کی فراہمی میں بہتری لانے کی تاکید کی گئی ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ دستاویزات کی تصدیق کے عمل کو بھی آسان کیا جائے تاکہ ان لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچے جنہیں ہر عمومی کاغذی کارروائی کے لیے بھی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔


تصویر: گیگو ڈیزائن/ شٹر اسٹاک


یہ مضمون 16 فروری 2022ء کو ڈان پرزم میں شائع ہوا۔

علی نوید ارشد

لکھاری کیلام لا میں پارٹنر ہیں اور فرم کے اسلام آباد آفس کی سربراہی کرتے ہیں۔ اس سے قبل وہ بین الاقوامی قانونی فرم کرٹس، میلٹ-پریوسٹ، کولٹ اینڈ موسل کے مڈل ایسٹ آفس میں سینئر وکیل تھے۔ ان کے پاس پاکستان اور جی سی سی ممالک میں کام کرنے کا وسیع تجربہ موجود ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔