ماسکو نواز باغیوں نے مشرقی یوکرین سے شہریوں کا انخلا شروع کردیا
مشرقی یوکرین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نے روس کے حملے اور یورپ میں جنگ کے خدشات کو اس وقت مزید بڑھا دیا جب ایک انسانی امدادی قافلہ گولہ باری کا نشانہ بنا جبکہ روس نواز باغیوں نے تنازعات کے علاقے سے شہریوں کو نکالنا شروع کردیا۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق کریملن نے اپنے فوجی دستوں کی تیاری کے لیے بڑے پیمانے پر جوہری مشقوں کا اعلان کیا تھا اور صدر ولادیمیر پیوٹن نے روس کے قومی مفادات کے تحفظ کا عہد کیا جسے وہ مغربی خطرات کی گھیراؤ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
البتہ فوری طور پر تشویش مشرقی یوکرین پر مرکوز رہی کیونکہ لوہانسک اور ڈونیٹسک کے علاقوں میں ماسکو نواز باغیوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے شہریوں کو روس منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:روسی افواج کے انخلا کے دعوے پر امریکا اور برطانیہ نے شکوک کا اظہار کردیا
یہ اعلان روس کے حملے کے بارے میں مغربی انتباہات کا مقابلہ کرنے اور اس کے بجائے یوکرین کو جارح کے طور پر دکھانے کی ماسکو کی کوششوں کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
ڈونیٹسک کی باغی حکومت کے سربراہ ڈینس پوشیلین نے کہا کہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو پہلے وہاں سے نکالا جائے گا اور روس نے ان کے لیے سہولیات تیار کر رکھی ہیں۔
انہوں نے ایک ویڈیو بیان میں الزام لگایا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی علاقے میں ایک فوری حملے کا حکم دینے جا رہے ہیں۔
اس کے بیان کے فوراً بعد،حکام نے ڈونیٹسک کے ایک یتیم خانے سے بچوں کو منتقل کرنا شروع کردیا اور دوسرے رہائشی روس کے لیے بسوں میں سوار ہو گئے، پیٹرول اسٹیشنوں پر لمبی لائنیں لگ گئیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خود ہی نکلنے کے لیے تیار ہو گئے۔
مزید پڑھیں:روس کا یوکرین کی سرحد سے کچھ افواج کو واپس بلانے کا اعلان
دوسری جانب ولادیمیر پیوٹن نے اپنے ہنگامی امور کے وزیر کو حکم دیا کہ وہ یوکرین کی سرحد سے متصل علاقے روستوف کے لیے روانہ ہو جائیں، تاکہ انخلا کو منظم کرنے میں مدد ملے۔
ساتھ ہی انہوں نے اپنے حکام کو حکم دیا کہ وہ ہر انخلا کرنے والے کو 10 ہزار روبل (تقریباً 130 ڈالر) کی ادائیگی کی جائے، جو جنگ سے تباہ شدہ ڈونباس میں اوسط ماہانہ تنخواہ کے نصف کے برابر ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے کسی بھی حملے کی منصوبہ بندی کی تردید کی، وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے کہا کہ ان کا ملک ڈونباس میں ایسی کوئی کارروائی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔
انہوں نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ہم تنازعات کے صرف سفارتی حل کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:روس یوکرین پر حملے کیلئے جھوٹا بہانہ بنا سکتا ہے، امریکا
ادھر رابطوں کی غیر مستحکم لائن کے اطراف اقوام متحدہ کا ایک قافلہ لوہانسک کے علاقے میں باغیوں کی گولہ باری کی زد میں آیا جس میں باغیوں نے ملوث ہونے سے انکار کیا اور یوکرین پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا۔
تاہم علیحدگی پسند حکام نے لائن کے ساتھ یوکرینی فورسز کی جانب سے مزید گولہ باری کی اطلاع دی جبکہ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ صورتحال ممکنہ طور پر بہت خطرناک ہے۔