وزیر اعظم کی اہلیہ کے خلاف نازیبا گفتگو، مسلم لیگ (ن) کی گرفتار کارکن کی حمایت
وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف نازیبا گفتگو کرنے کے الزام میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے گرفتاری کے ایک دن بعد ایک سوشل میڈیا کارکن کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے 2 روز قبل مسلم لیگ (ن) کے ایک کارکن صابر محمود ہاشمی کو سوشل میڈیا پر وزیر اعظم عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور فوج کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلانے پر گرفتار کیا تھا۔
ایف آئی اے نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے سیکشن 20، 21 (ڈی) کے تحت صابر ہاشمی کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
توقع ہے کہ ایف آئی اے آنے والے دنوں میں مزید مشتبہ افراد پر ہاتھ ڈالے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر فوج مخالف مہم: پہلےکیس میں پی ٹی آئی کارکن گرفتار
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جیل بھیجے گئے کارکن صابر ہاشمی کی حمایت کی ہے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری، صابر ہاشمی کے خلاف مقدمے کی نوعیت جاننے کے لیے ایف آئی اے آفس پہنچے۔
طلال چوہدری نے ایف آئی اے سے مطالبہ کیا کہ وہ وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے مرحومہ بے نظیر بھٹو اور عمران خان کی جانب سے سابق اہلیہ ریحام خان کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کرنے کا بھی نوٹس لے۔
دوسری جانب (ن) لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے بھی صابر ہاشمی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صابر ہاشمی کو اغوا کیا گیا، کیا عمران خان مقدس گائے ہیں کہ ان کی ناکامیوں اور کرپشن پر تنقید نہیں کی جاسکتی؟ ایف آئی اے کو اس حکومت کے ہاتھوں استعمال نہ کیا جائے جس کے دن گنے جاچکے ہیں، ہماری پوری جماعت صابر ہاشمی کے ساتھ کھڑی ہے۔
یہ تاثر بڑھتا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور حکمران جماعت پی ٹی آئی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ایک دوسرے کے رہنماؤں کے خلاف لفظی لڑائی تیز کر دی ہے اور رہنماؤں کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیانات دینا معمول بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فوج مخالف مہم میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن
دونوں جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کا دعویٰ ہے کہ وہ تضحیک آمیز رجحانات میں ملوث نہیں ہیں اور اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا کے مرکزی سربراہ عاطف رؤف نے ڈان کو بتایا کہ 'ہمارے پاس 3 ہزار سوشل میڈیا رضاکاروں کی ایک ٹیم ہے اور ان میں سے ایک کو بھی تنخواہ نہیں دی جاتی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیم کی طرف سے ہمارے مخالفین کی قیادت کے بارے میں ایک بھی قابل اعتراض ٹرینڈ نہیں بنایا گیا اور ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہماری ٹیم میں سے کوئی بھی کسی منفی اور غلط ٹرینڈ میں حصہ نہ لے۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر نامعلوم افراد ایسے منفی ٹرینڈز کے پیچھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات عام صارفین منفی رجحانات میں حصہ لیتے ہیں۔
عاطف رؤف کا کہنا تھا کہ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک پارٹی کی قیادت کے بارے میں منفی رجحان دوسری پارٹی کے خلاف ردعمل پیدا کرتا ہے اور ایسی صورت میں عام سوشل میڈیا صارفین بحث و مباحثے میں الجھ جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: متنازع سائبر کرائم بل منظور
وزیر اعلیٰ پنجاب کے ڈیجیٹل میڈیا کے ترجمان اظہر مشوانی نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم میں تقریباً 800 رضاکار ہیں جنہوں نے کبھی کسی قابل اعتراض منفی ٹرینڈ کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور نہ ہی کوئی قابل اعتراض ٹرینڈ شروع کیا، انہوں نے کہا کہ ہم ان 800 افراد کی ذمہ داری لے سکتے ہیں لیکن پارٹی کے حامیوں کی نہیں جو اس طرح کے رجحانات میں ملوث ہیں۔
اظہر مشوانی کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ملک کی پہلی جماعت ہے جس کی سوشل میڈیا پر زبردست موجودگی تھی، اس لیے مسلم لیگ (ن) نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر منفی ٹرینڈز میں ملوث افراد کے خلاف ان کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر کارروائی کی جائے۔
قبل ازیں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے وزیراعظم کی اہلیہ کے بارے میں جھوٹی کہانیوں کو آگے بڑھانے پر بعض حلقوں کو ذمے دار قرار دیا تھا اور اس منفی مہم میں شریک لوگوں کو کہا تھا کہ وہ ایک غیر سیاسی خاتون کو سیاست میں گھسیٹنے جیسے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز رہیں۔
فرخ حبیب کا یہ تبصرہ ایک خبر کے بعد سامنے آیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ بشریٰ بی بی اس وقت وزیر اعظم عمران خان سے اختلافات کے بعد لاہور میں ایک دوست کے گھر رہ رہی ہیں۔