میڈیکل افسر ہراسانی کیس: سینئر افسران، یونیورسٹی حکام عدالت میں طلب
سندھ ہائی کورٹ نے شہید بینظیر آباد (سابقہ نواب شاہ) ضلع کے سینئر افسران کو پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنس فار ویمن کی ہاؤس آفیسر پر مبینہ تشدد کے واقعے سے متعلق رپورٹس کے ساتھ چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار عبدالرزاق نے ایک خط میں پولیس اور مقامی حکام کو یونیورسٹی کے 3 عہدیداروں کے ہاتھوں ہاؤس آفیسر پروین رند پر مبینہ تشدد کے واقعے کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے نواب شاہ کے ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کے ساتھ ساتھ شہید بینظیر آباد کے ڈپٹی کمشنر اور یونیورسٹی کے رجسٹرار کو 15 فروری کو متعلقہ رپورٹس کے ساتھ چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی۔
سول سوسائٹی کا احتجاج
مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے کارکنوں نے گزشتہ روز دادو، جامشورو، شہید بینظیر آباد اور نوشہرو فیروز اضلاع کے مختلف علاقوں میں پروین رند سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالیں اور انہیں مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور جان سے مارنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں:میڈیکل کی طالبہ کی پراسرار موت، سندھ حکومت کی عدالتی تحقیقات کیلئے درخواست
مظاہرین نے ان لوگوں کی گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا جنہوں نے مبینہ طور پر میڈیکل کی دو طالبات نمرتا چندانی اور نوشین کاظمی کو بلیک میل کیا اور انہیں بالترتیب 2019 اور 2021 میں ہاسٹل کے کمروں میں خودکشی کرنے پر مجبور کیا تھا۔
ضلع دادو کے ٹاؤن جوہی میں ایک بڑی ریلی نکالی گئی، شرکا نے مختلف سڑکوں پر مارچ کرنے کے بعد مقامی پریس کلب پر ایک مظاہرہ کیا، دو دیگر ریلیاں میہڑ ٹاؤن میں اور تین ریلیاں ضلع کے خیرپور ناتھن شاہ میں نکالی گئیں۔
دادو میں نکالی گئی ریلی کے شرکاء نے اپنی طالبات کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکامی پر نواب شاہ اور لاڑکانہ کی تمام میڈیکل یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا۔
مقدمہ واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے، پروین رند
اس سے قبل پروین رند نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان پر مسلسل دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن کے تین اہلکاروں کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لے لیں۔
مزید پڑھیں:سندھ یونیورسٹی: طالبہ کی مبینہ خودکشی پر آئی جی کا نوٹس
ان کا کہنا تھا کہ مشتبہ افراد کو یونیورسٹی انتظامیہ اور مقامی سیاسی شخصیات کی مدد اور تحفظ حاصل ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس ہراساں کرنے اور قتل کی کوشش کی ایف آئی آر میں نامزد ملزمان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کر رہی۔
پروین رند نے دعویٰ کیا کہ اندرون سندھ کی میڈیکل یونیورسٹیوں کی خواتین طالبات کو ہراساں کرنا بہت عام ہوگیا ہے لیکن میڈیا میں صرف چند کیسز کو ہی نمایاں کیا گیا۔