امریکی صدر، سعودی فرمانروا کا توانائی کی فراہمی، ایران اور یمن جنگ پر تبادلہ خیال
امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی فرمانروا سلمان نے ٹیلی فونک گفتگو میں ایران اور یمن کے حالات سمیت تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور توانائی کی فراہمی پر تبادلہ خیال کیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’دونوں سربراہان نے عالمی سطح پر توانائی کی فراہمی یقینی بنانے کا عزم کیا۔
سعودی خبر رساں ادارے ’ایس پی اے‘ نے کہا کہ اوپیک آئل پروڈکشن گروپ میں سب سے زیادہ خام تیل برآمد کرنے والے ملک کے سربراہ شاہ سلمان نے پیٹرولیم مارکیٹوں میں توازن اور استحکام برقرار رکھنے کے حوالے سے بات کی۔
انہوں نے روس سمیت او پیک پلس گروپ کے تمام اتحادیوں کے درمیان تیل سپلائی کے حوالے معاہدہ کرنے ضرورت پر بھی زور دیا۔
گزشتہ ہفتے اوپیک پلس گروپ نے تیل کی پیداوار میں متعدل اضافے پر اتفاق کیا تھا، گروپ موجودہ ہدف پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر خام تیل کے سرفہرست صارفین کی کالز کا جواب دینے سے احتیاط کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی سیکریٹری خارجہ کا سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کا دفاع
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رواں سال عالمی سطح پر خام کی تیل کی قیمت میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جو فی بیرل 100 ڈالر تک جانے کا امکان ہے، اس کی اہم وجہ کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ 'اومیکرون' کے سبب طلب میں کمی ہے
انٹرنیشنل برینٹ آئل تقریباً ایک فیصد اضافے کے بعد 91.55 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچا ہے۔
نومبر میں ہونے والے امریکی کانگریس کے انتخابات سے قبل تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بائیدن انتظامیہ کے لیے خطرے کا باعث ہیں جس کے بعد وہ سینیٹ اور امریکی نمائندوں کی ایوان میں مختصر اکثریت حاصل کر پائیں گے۔
گزشتہ سال جو بائیڈن انتظامیہ نے ایشیا اور چین سمیت تمام بڑے صارفین کے ساتھ تیل کے ذخائر میں کمی کرتے ہوئے قیمت کم کرنے کی کوشش کی تھی تاہم یہ کمی وقتی ثابت ہوئی۔
ٹیلی فونک گفتگو سے باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ ’عالمی توانائی کی مارکیٹ میں سپلائی یقینی بنانے کے لیے سعودی عرب نے تاریخی کردار ادا کیا ہے تاکہ مستحکم اور لچکدار معیشتوں کے فروغ میں تعاون کیا جاسکے۔'
مزید پڑھیں: امریکی سینیٹرز نے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کی تجویز مسترد کردی
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع نے بتایا کہ ’امریکی صدر نے اس پر غور کیا کہ جغرافیائی سیاست اور عالمی سطح پر بحالی کے لیے یہ عمل اب خاصہ اہم ہے‘۔
یوکرین میں جاری کشیدگی کی ایک وجہ تیل بھی ہے، روس کی جانب سے یوکرین کی سرحدودں پر مزید ایک لاکھ فوجی تعینات کردیے گئے ہیں۔
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے انتظامیہ نے اتحادیوں اور شراکت داروں سے رابطہ کیا جس میں تبادلہ خیال کیا گیا کہ ’اس موقع پر جب روس نے راستے بند کردیے ہیں اور یوکرین میں گیس کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے، توانائی کی ترسیل کس طرح کی جائے‘۔
بیان میں کہا گیا کہ کال پر بائیڈن نے یمن کے حوثی گروپ کے حملوں کے خلاف اپنے دفاع میں سعودی عرب کی حمایت کے لیے امریکا کے عزم کو دہرایا۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ جو بائیڈن نے شاہ سلمان کو ’ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں برقرار رکھنے‘ کے لیے بین الاقوامی مذاکرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب اہم شراکت دار ہے اور اس کے دفاع کیلئے پُرعزم ہیں، امریکا
یمن کے تنازع کو بڑی حد تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان خفیہ جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
2014 کے اختتام میں دارالحکومت صنعا سے حکومت کا تختہ الٹنے والے حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک کرپٹ نظام اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
سعودی پریس ایجنسی نے کہا کہ سعودی فرمانروا نے جو بائیڈن کو بتایا کہ سعودی عرب، یمن میں ’سیاسی حل‘ چاہتا ہے۔
شاہ سلمان اور جو بائیڈن کے درمیان آخری کال تقریباً ایک سال قبل امریکی جائزے کے اجرا کے وقت کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ شاہ سلمان کے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان نے 2018 میں قتل شدہ صحافی جمال خاشقجی کو پکڑنے یا قتل کرنے کے لیے ایک آپریشن کی منظوری دی تھی۔