• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

لتا منگیشکر: نغمگی کا دوسرا نام

لتا منگیشکر کو کئی اعلیٰ ترین ایوارڈ دیے گئے لیکن عوام کی پسندیدگی کو وہ اپنا سب سے بڑا ایوارڈ گردانتی تھیں۔
شائع February 7, 2022

کلاسیکی موسیقی میں بنیادی طور پر 7 سُر ہوتے ہیں، جب کسی راگ میں یہ ساتوں سُر یکجا کرکے پیش کیے جائیں، تو اس کو 'سمپورن' کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی موسیقی کے منظرنامے سے صرف لتا منگیشکر ہی رخصت نہیں ہوئیں بلکہ فلم کے شعبے سے 'سمپورن' راگ بھی وداع ہوا ہے۔

لتا منگیشکر ایک شاندار گلوکارہ ہونے کے علاوہ متعدد فلموں کی پروڈیوسر اور موسیقار بھی تھیں، البتہ ان کی بنیادی شناخت ایک گلوکارہ کی ہی ہے۔ گزری ہوئی صدی میں اس آواز کے لاتعداد رسیا رہے اور عہدِ حاضر بھی ان کے سحر میں مبتلا ہوا۔

انہوں نے 7 دہائیوں میں 6 نسلوں کو اپنی گائیکی سے متاثر کیا۔ کلاسیکی موسیقی میں 'گھرانہ' ہونے کا بنیادی اصول یہی ہوتا ہے کہ کسی کے یہاں کم از کم 5 پشتوں سے گانے کا کام نسل درنسل ہوا ہو، اس تناظر میں لتا منگیشکر فلمی دنیا کی وہ واحد گلوکارہ ہیں جو اپنی ذات میں ایک گھرانہ بھی ثابت ہوئی ہیں۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ لتا منگیشکر ایک فردِ واحد کا نام نہیں بلکہ فلمی موسیقی کی دنیا میں وہ ایک گھرانے کی علامت بھی ہیں، جنہوں نے اپنی آواز کے جادو میں برِصغیر پاک وہند کے کَن رسیوں کو مبتلا کیے رکھا۔

لتا منگیشکر فلمی دنیا کی وہ واحد گلوکارہ ہیں جو اپنی ذات میں ایک گھرانہ بھی ثابت ہوئی ہیں—تصویر: اے ایف پی/ فائل
لتا منگیشکر فلمی دنیا کی وہ واحد گلوکارہ ہیں جو اپنی ذات میں ایک گھرانہ بھی ثابت ہوئی ہیں—تصویر: اے ایف پی/ فائل

کہا جاتا ہے کہ وہ 30 ہزار سے زائد گیت گاچکی ہیں جن میں کئی ہزار گیت صرف اردو اور ہندی زبان کے ہیں۔ انہوں نے نصف صدی سے زائد کے فنی کیریئر میں 36 ہندوستانی زبانوں میں 30 ہزار سے زیادہ گیت گائے ہیں۔ 2 دہائیوں تک مسلسل اور سب سے زیادہ گانے والی گلوکارہ کی حیثیت سے ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج ہے مگر یہ ریکارڈ متنازعہ ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ لتا منگیشکر کا نام 1974ء سے 1991ء تک سب سے زیادہ گانوں کی ریکارڈنگ کے حوالے سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل رہا لیکن محمد رفیع نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گانوں کی تعداد زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ لتا 1974ء میں رائل البرٹ ہال، لندن میں پہلی بار گائیکی کا مظاہرہ کرنے والی گلوکارہ بھی تھیں، جنہوں نے ہندوستانی سنگیت کو عالمی سطح پر اس طور سے بھی روشناس کروایا۔

آپ ایک لمحہ کے لیے ان نغموں کو آنکھیں بند کرکے سماعت کریں، جن کے لفظوں میں لتا منگیشکر نے اپنی آواز کا شہد گھولا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی مختلف لہجوں میں ہم کلام ہے۔ کہیں اداسی ہمارے ساتھ ساتھ دُور تک چہل قدمی کرتی ہے تو کہیں گزرا ہوا وقت انتہائی قریب آتا محسوس ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ زندگی کا قہقہہ اور سرمستی بھی ان گیتوں میں گونجتی ہے۔ غرضیکہ ہم جیسے جیسے یہ دُھنیں سنتے جاتے ہیں، زندگی ایک ایک کرکے اپنے احساسات کے اوراق پلٹتی چلی جاتی ہے۔ یہی اس گائیکی کا جادو ہے جس میں ہم سے پہلے سماعت کرنے والے بھی مدغم رہے اور ہمارے بعد آنے والے بھی مبتلا رہیں گے۔

لتا منگیشکر کا گائیکی کی دنیا میں یہ عظیم سفر کیسے طے ہوا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں ہے، لیکن پھر بھی اس موقع پر جب ہم ان کو یاد کر رہے ہیں تو ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں کہ لتا منگیشکر کی زندگی بصورت سمپورن کیسے پایۂ تکمیل کو پہنچی۔

ان کی حیاتِ جادواں میں کسی پینٹنگ کی مانند بہت سارے رنگ شامل رہے جنہوں نے ان کے عظیم فنی سفر کو مکمل کرنے میں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیا۔ صرف افراد ہی نہیں حالات کی ستم ظریفی نے بھی ان کے لیے جلتی پر تیل کام کیا، یوں وہ اپنے فن سے ایسی جڑیں کہ نغمگی کا دوسرا نام لتا منگیشکر ہوگیا۔

ذاتی زندگی

وہ وسطی ہندوستان میں واقع، اندور میں 28 ستمبر 1929ء کو پیدا ہوئیں اور 6 فروری 2022ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ان کا اصل نام ہیما تھا، مگر فلمی دنیا میں وہ لتا کے نام سے متعارف ہوئیں۔ یہ نام انہوں نے ایک ناٹک کے کردار سے لیا تھا جس کو ان کے والد نے اسٹیج کے لیے پیش کیا تھا۔ ان کے والد پنڈت دینا ناتھ منگیشکر تھیٹر کے پیش کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے گلوکار بھی تھے۔

لتا منگیشکر 5 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں، انہوں نے 5 سال کی عمر میں گیت گانے کی پہلی لاشعوری کوشش کی۔ جب ان کے والد کسی کام سے گھر سے باہر گئے تو ان کی غیر موجودگی میں ان کا شاگرد ریاض کرتے ہوئے غلط سُر لگا رہا تھا تو لتا نے اس کو ٹوکا، اس کم عمری کی ذہانت کو والدین نے بھانپ لیا اور ان کو موسیقی کی تربیت گھر سے ملنے لگی۔

9 سال کی عمر میں انہوں نے والد کے ہمراہ پہلی مرتبہ اسٹیج پر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ آگے چل کر ان کی پیروی میں دیگر بہن بھائیوں نے بھی موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا، بالخصوص آشا بھوسلے نے بھی اپنی بہن کی مانند خوب شہرت سمیٹی اور دنیا بھر میں اپنی آواز کا رنگ جمایا۔

لتا منگیشکر  نے 9 سال کی عمر پہلی مرتبہ اسٹیج پر اپنی آواز کا جادو جگایا—تصویر: ٹوئٹر
لتا منگیشکر نے 9 سال کی عمر پہلی مرتبہ اسٹیج پر اپنی آواز کا جادو جگایا—تصویر: ٹوئٹر

ان کے والد چونکہ تھیٹر اور نوٹنکی پارٹی سے وابستہ تھے، اس وجہ سے انہیں قریہ قریہ گاؤں گاؤں اپنے فن کو پیش کرنے کے لیے جانا پڑتا تھا، اس مسافت میں لتا منگیشکر اور ان کے اہل خانہ نے خانہ بدوشوں کی سی کیفیت میں شب و روز بسر کیے، لیکن ان حالات میں لکشمی دیوی ان پر مہربان تھی، اس لیے دھن دولت خوب برسا، پھر زندگی نے کروٹ لی، ان کے والد ساتھ چھوڑ گئے اور زندگی کا بوجھ کم عمر بچی 'لتا منگیشکر' کے نازک کندھوں پر آن پڑا جس نے باپ کی وفات کے ایک گھنٹے بعد ہی ماں سے پوچھا کہ اب گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟

لتا منگیشکر کے لیے گھر اور فن کے چولہے میں آگ برابر جلائے رکھنا ایک کٹھن کام تھا لیکن انہوں نے پھر زندگی بھر اس کام کو بخوبی کیا۔ اس نازک وقت میں ہندوستانی اداکارہ نندہ کے والد اور ہدایت کار ماسٹر ونائیک نے ان کو سہارا دیا۔

فنی سفر

لتا منگیشکر نے 12 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ ایک مراٹھی فلم 'کیتی ہسال' سے اپنے فنی سفر کی ابتدا کی۔ اس فلم میں اپنی آواز کا جادو جگانے کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کی۔ ان کی ہندی فلموں میں پہلی فلم ’آپ کی سیوا‘ تھی، جس میں انہوں نے اداکاری اور گلوکاری کی۔ 1947ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم سے ان کو بطور گلوکارہ پہلی بار شناخت کیا گیا۔ ایک طرف برِصغیر کے خطے کی نئی تاریخ بن رہی تھی اور دوسری طرف وقت لتا منگیشکر کی فنی تاریخ کو مرتب کر رہا تھا۔

وہ اپنے والد کی وفات کے کچھ برسوں بعد تک فلموں میں اداکاری کرتی رہیں تاکہ اپنے خاندان کی گزر بسر کا انتظام کرسکیں کیونکہ یہ وہ دور تھا جب فلموں میں گیتوں کا رواج کم کم ہی تھا۔ ان کی پتلی آواز ہونے کی وجہ سے گائیکی کا کام ابتدا میں ملنا دشوار رہا، مگر وہ پُرعزم رہیں اور آخرکار یہ آواز برِصغیر پاک وہند کی سب سے مقبول آواز بن کر ابھری۔

لتا کے ابتدائی کیریئر میں بہت ہی شاندار گلوکارائیں فلمی اور موسیقی کے منظرنامے پر موجود تھیں۔ ان میں جدن بائی، زہرہ بائی انبالے والی اور شمشاد بیگم جیسی گلوکاراؤں کا ڈنکا بج رہا تھا، لیکن لتا منگیشکر نے ان کی موجودگی میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔

انہوں نے ابتدائی موسیقی کی تربیت گھر میں اپنے والد سے حاصل کرنے کے بعد پھر امان اللہ خان بھنڈی بازار والوں کی شاگردی اختیار کی۔ ان کے بعد امانت علی خاں ویواس والوں سے گائیکی کی مزید تعلیم حاصل کی۔ فلمی دنیا میں پھر ان کی ملاقات استاد غلام حیدر سے ہوگئی جنہوں نے اس گلوکارہ کو حقیقی معنوں میں دریافت کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان سے لتا منگیشکر نے گائیکی میں درست تلفظ کی ادائیگی سیکھی، جبکہ انیل بسواس سے سیکھا کہ گائیکی کے دوران کس طرح توقف کرکے سانس لیا جاتا ہے۔

اس طرح کی دیگر باریکیوں پر قابو پاتے ہوئے رفتہ رفتہ وہ اس فن میں ایسی تاک ہوئیں کہ کوئی ان کے مقابل نہ رہا، وہ اپنے فن میں ایک اوتار کی مانند ثابت ہوئیں۔

شیشدھر مکھرجی ہندوستانی فلمی صنعت کے معروف بنگالی خاندان کے سربراہ اور معروف موسیقار تھے، انہوں نے فلمستان کے دفتر میں استاد غلام حیدر کی تجویز کے باوجود لتا منگیشکر کی آواز کو باریک ہونے کی بنا پر مسترد کردیا تھا، مگر استاد غلام حیدر اپنی بات پر قائم رہے اور فلمستان سے اسی بات کی وجہ سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہ اپنے موقف میں درست تھے۔

لتا منگیشکر  نے رائل البرٹ ہال لندن میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا—تصویر: ٹوئٹر
لتا منگیشکر نے رائل البرٹ ہال لندن میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا—تصویر: ٹوئٹر

یہی وجہ ہے کہ لتا منگیشکر ان کو آخری دم تک یاد کرتی رہیں۔ لتا کے گائے ہوئے فلموں کے گیتوں کی تعداد کے لیے تو الگ دفتر درکار ہے، پھر بھی سرسری جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے فن میں چہار سو مصروف رہیں۔

انہوں نے جس موسیقار کے سب سے زیادہ گیت گائے ان کا نام 'لکشمی کانت پیارے لال' ہے۔ لتا نے ان کے ساتھ 696 گیت گائے۔ استاد غلام حیدر اور انیل بسواس کے علاوہ انہوں نے سی رام چندر، کھیم چند پرکاش، ایس ڈی برمن، نوشاد علی، سلیل چوہدری، غلام محمد، مدہن موہن، شنکر جے کشن، کلیان جی آنند جی، سچن دیو برمن، روشن، سردھول سنگھ کواترا، امرناتھ، حُسن لال، بگھا ترم، ہیمنت کمار، دتا نائیک، محمد ظہور خیام، روی، سجاد حسین، وسنت ڈیسائی، سدھیر پھالکے، ہنس راج بھیل، اُوشا کھنا، راجیش روشن، انو ملک، ندیم شیروان، جیتن، للیت، اے آر رحمٰن سمیت متعدد موسیقاروں کے کمپوز کیے ہوئے گیت گائے۔

لتا منگیشکر نے موسیقاروں کی 6 نسلوں کے ساتھ کام کیا اور کم و بیش اتنی ہی تعداد میں گلوکاروں کے ساتھ ہم آواز ہوکر گیت گائے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ مراٹھی فلموں کے گیتوں کی بطور موسیقار دھنیں بھی مرتب کیں مگر ان کی تعداد محدود رہی۔

لتا نے غزل گائیکی کے شعبے میں بھی کام کیا، جگجیت سنگھ کے ساتھ غزل گائیکی کے ذریعے اس پہلو سے بھی اپنی گائیکی کی کئی پرتیں کھولیں۔ جاوید اختر کے ساتھ غزل کی صنف میں یادگار کام ریکارڈ کروایا اور گلزار صاحب کی گیت نگاری پر بھی اپنی آواز کی مرکھیاں متحرک کیں۔

لتا منگیشکر نے اپنے وقت کے تمام معروف گلوکاروں کے ساتھ گایا، جن میں پاکستان کے غلام علی بھی شامل ہیں۔ ہندوستان میں جن گلوکاروں کے ساتھ انہوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ان میں آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، اُوشا منگیشکر، کشور کمار، محمد رفیع، مکیش، طلعت محمود، مناڈے، ہیمنت کمار، جی ایم درانی، مہیندر کپور، پی بی شری نواس، روپ کمار راٹھور، ہری ہرن، پنکج ادھاس، ابھیجیت، ادت نرائن، کمار سانو، سونو نگم، عدنان سمیع اور گرداس مان کے علاوہ بھی کئی گلوکار شامل ہیں۔

(دائیں سے بائیں) طلعت، مکیش، لتا منگیشکر، محمد رفیع، مناڈے—تصویر: ٹوئٹر
(دائیں سے بائیں) طلعت، مکیش، لتا منگیشکر، محمد رفیع، مناڈے—تصویر: ٹوئٹر

زندگی کے کچھ تنازعات

لتا منگیشکر نے مجرد اور سادہ زندگی گزاری، اس کے باوجود ان کی زندگی کے کچھ تنازعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں سے سب سے معروف تنازعہ گلوکار محمد رفیع سے فنی چپقلش کا ہونا تھا۔

ان کی زندگی میں ایک موقع ایسا بھی آیا، جب ان کو زہر دینے کی کوشش ہوئی، پھر کئی مہینوں تک ان کو کھانا دیے جانے سے پہلے چکھا جاتا رہا اور اس کھانے کو چکھنے والے بھی ہندوستانی فلمی صنعت کا بہت بڑا نام 'مجروح سلطان پوری' تھے۔

اسی طرح ایک گلوکارہ 'سمن کلیان پور' بھی ہیں جن کی آواز ہوبہو لتا منگیشکر جیسی ہے اور گائیکی کا معیار بھی، مگر بقول ان کے وہ لتا منگیشکر کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکیں اور ان کے بہت سارے مشہور گیتوں کو لتا منگیشکر کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر 1981ء میں ریلیز ہونے والی فلم 'نصیب' کا مشہور گیت 'زندگی امتحان لیتی ہے' کو لتا منگیشکر کا گیت سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ گیت درحقیقت سمن کلیان پور کی آواز میں ہے۔ سمن کے مطابق، جب کبھی کسی فلم ساز کو لتا منگیشکر کا متبادل چاہیے ہوتا ہے تو وہی پہلا انتخاب ہوتی ہیں۔

معروف ہندوستانی مصور ایم ایف حسین بھی لتا منگیشکر کے لیے صرف اچھی گلوکارہ کے الفاظ استعمال کرتے تھے، ان کے خیال میں وہ ایک عظیم گلوکارہ کبھی بھی نہیں تھیں۔

لتا منگیشکر نے ریمکس گیتوں کی بھی کھل کر مخالفت کی اور بالی وڈ میں گلوکاروں کے کاپی رائٹ حقوق کے لیے عملی طور پر جدوجہد کی اور اس کے لیے انہیں وقتی طور پر سخت دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی طرح استاد بڑے غلام علی خان نے لتا منگیشکر کے لیے کہا کہ وہ کبھی بے سُری نہیں ہوتیں، یہ بہت نادر اور بیش قیمت تعریف ہے جو ایک ایسے گلوگار نے کی جس کے ہاں موسیقی کو ماپنے کا کڑا پیمانہ ہے۔

لتا منگیشکر کا گایا ہوا آخری گانا (مراٹھی زبان میں)

محبت کے کچھ رنگ

ان کی زندگی تفکرات کے ساتھ ساتھ محبت کے رنگوں سے بھی منور ہوئی، ایک طرف ان کے لیے پاکستان کے معروف کلاسیکی گلوکار شام چوراسی والے استاد سلامت علی کا نام لیا جاتا رہا، جبکہ دوسری طرف کندن لال سہگل اور راج سنگھ ڈونگرپور کے تذکرے بھی رہے۔

ان کی میڈم نور جہاں سے قربت اور عقیدت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اس طرح دیکھا جائے تو ان کی زندگی مختلف نشیب و فراز سے گزری۔

لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے میڈم نور جہاں کے ساتھ—تصویر: انسٹاگرام
لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے میڈم نور جہاں کے ساتھ—تصویر: انسٹاگرام

ان کو بھارت سمیت دیگر ممالک کے بھی اعلیٰ ترین اعزازات دیے گئے جن میں بھارت رتنا اور دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی شامل ہیں، لیکن عوام کی پسندیدگی کو وہ اپنا سب سے بڑا ایوارڈ گردانتی تھیں۔

فلمی موسیقی کی دنیا میں ان کو کئی القاب سے یاد کیا جاتا ہے جن میں میلوڈی کی ملکہ، بلبلِ ہند، ہزار سالہ آواز و دیگر شامل ہیں۔ میری نظر میں تو ان کی حیثیت ایک سمپورن کی سی ہے اور رہے گی کیونکہ نغمگی کا دوسر انام لتا منگیشکر ہے۔

ان کے گائے ہوئے گیتوں میں ہم تو مدغم ہیں ہی مگر ہمارے بعد آنے والے بھی مبتلا رہیں گے۔ اگر یقین نہیں تو ان کے گائے ہوئے گیتوں کو ایک بار پھر سے سنیے، آزمائش شرط ہے، کیونکہ ہندوستانی موسیقی کے منظرنامے سے صرف لتا منگیشکر ہی رخصت نہیں ہوئیں، بلکہ فلم کے شعبے سے 'سمپورن' راگ بھی وداع ہوا ہے۔


حوالہ جات:

  • کتاب: اِن ہر اون وائس۔ مصنفہ۔ نسرین منی کبیر
  • ویب سائٹ۔ سینمازی
  • ویب سائٹ۔ ہندی سونگز آرکائیو
  • ویب سائٹ۔ انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس
  • مضمون۔ ندیم سبحان۔ اے آروائے۔ ویب سائٹ
  • مضمون۔ طاہر سرور میر۔ بی بی سی۔ اردو سروس
  • مضمون۔ وندنا۔ بی بی سی۔ ہندی سروس
  • مضمون۔ سہیل انجم۔ وائس آف امریکا۔ اردو سروس
خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔