بلدیاتی قانون سے متعلق فیصلے پر رہنمائی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں، سعید غنی
وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کہ سپریم کورٹ کے بلدیاتی قانون سے متعلق فیصلے میں کچھ چیزوں پر ہمیں سپریم کورٹ کی رہنمائی درکار ہے اس کے لیے ہم عدالت عظمیٰ سے رجوع کرسکتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت سندھ کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں صوبائی وزرا، مشیران، معاون خصوصی، پرنسپل سیکریٹری، چیئرمین پی اینڈ ڈی اور دیگر متعلقہ افسران شریک ہوئے۔
سندھ کابینہ کے اجلاس کے دوران مختلف اہم فیصلوں پر غور کے ساتھ صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ بھی لیا گیا جبکہ متعلقہ حکام کی جانب سے صوبائی کابینہ کو بریفنگ بھی دی گئی۔
اجلاس کے بعد سعید غنی کا کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر شاہ نے لوکل گورنمنٹ قانون کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت پر کابینہ کو بریفنگ دی، ناصر شاہ نے جماعت اسلامی، پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) اور دیگر جماعتوں سے بات چیت کے حوالے سے کابینہ کو آگاہ کیا۔
سعید غنی نے بتایا کہ اجلاس کے دوران وزیر بلدیات کی بریفنگ کے بعد اپوزیشن جماعتوں سے جو بھی بات چیت ہوئی ہے اس کو نافذ کرنے کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی، کمیٹی میں وزیر بلدیات ناصر شاہ، وزیر اطلاعات سعید غنی، صوبائی وزیر مکیش چاؤلہ، صوبائی وزیر جام خان شورو اور مشیر قانون مرتضیٰ وہاب شامل ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ کابینہ نے گنے کی قیمت 240 روپے فی من مقرر کردی
صوبائی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے بلدیاتی قانون 2013 کے صرف 2 سیکشنز کو کالعدم قرار دیا ہے، ان دو سیکشنز میں سیکشن 74 اور سیکشن 75 شامل ہیں، اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی بڑی تبدیلی تجویز نہیں کی گئی ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے بلدیاتی قانون کو برقرار رکھا ہے، اس کے ساتھ سپریم کورٹ کی جانب سے کچھ قوانین میں تبدیلی کے احکامات دیے گئے ہیں جن پر عمل در آمد کرنے کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے جو ان احکامات کی روشنی میں تجاویز تیار کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کچھ چیزیں جن پر ہمیں سپریم کورٹ کی رہنمائی درکار ہے اس کے لیے ہم عدالت عظمیٰ سے رجوع کر سکتے ہیں جبکہ یہ فیصلہ صرف سندھ کے لیے نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ادوار میں حکومتوں کو حلقہ بندیوں کے اختیارات دیے گئے مگر جب پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں حلقہ بندیوں کا وقت آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنے مخالفین کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیوں پر الیکشن لڑے اور کامیابی حاصل کی۔
مزید پڑھیں: جماعت اسلامی کے دھرنے میں پیپلز پارٹی وفد کی آمد، بلدیاتی قانون میں ترمیم کی یقین دہانی
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ لامحدود اختیارات کسی حکومت کے پاس نہیں ہوتے، بلدیاتی اداروں کے پاس مالیاتی اور انتظامی اختیارات موجود ہیں لہٰذا سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جو شقیں واضح ہیں ان پر فوری عمل درآمدکریں گے اور جن باتوں پر کچھ ابہام ہیں، ان کی وضاحت طلب کی جائے گی، فیصلے کی شقوں کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے، کمیٹی وضاحت طلب شقوں کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ون 40 ’اے‘ میں لکھا ہے کہ پر صوبے میں قانون کے مطابق بلدیاتی ادارے قائم کیے جائیں گے اور ہم نے اسی پر عمل کرتے ہوئے قانون کے مطابق بلدیاتی ادارے قائم کیے ہیں، آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ان بلدیاتی اداروں کے پاس سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری ہوگی، وہ بھی سندھ کے بلدیاتی نظام کے تحت دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی ادارے کے پاس لامحدود اختیارات نہیں ہوتے، ہر محکمے اور ادارے کو قانون کے مطابق اختیارات حاصل ہوتے ہیں، لامحدود اور لامتناہی اختیارات کسی محکمے اور ادارے کو نہ حاصل ہوتے ہیں اور نہ دیے جا سکتے ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں قتل کیا گیا، بھٹو صاحب کے قتل سے متعلق ہماری پٹیشن بھی کورٹ میں ہے، ہماری اس پٹیشن پر سماعت تک نہیں ہوتی۔
’اسٹیل ملز اضافی اراضی فروخت نہیں کر سکتی‘
سندھ کابینہ کے دیگر فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بورڈ آف ریونیو کے سینئر رکن کو ملیر ایکسپریس وے کے ساتھ اراضی کو محفوظ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
صوبائی وزیر نے بتایا کہ کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اسٹیل ملز اضافی اراضی فروخت نہیں کر سکتی، سب رجسٹرار کو اس اراضی کو ٹرانسفر نہ کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے، جو اسٹیل مل کی اضافی اراضی ہے وہ واپس سندھ حکومت کی ملکیت ہوجائے گی، سندھ کابینہ نے کے پی ٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کی اراضی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز پر سوئی سدرن گیس کمپنی کے کچھ واجبات ہیں جس کے عوض اسٹیل ملز کی زمین سوئی سدرن کمپنی کو دینے کی اطلاعات ہیں، تو اس سلسلے میں کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ سندھ کی جانب سے دی گئی زمین کی ملکیت تبدیل نہیں ہونے دی جائے گی اور اگر اسٹیل ملز کو زمین کی ضرورت نہیں ہے تو وہ زمین واپس لی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی ،جماعت اسلامی سیاسی تعطل مذاکرات سےحل کرنےپرمتفق
گندم کی قیمت 2200 روپے فی من مقرر کرنے کا فیصلہ
سعید غنی نے بتایا کہ صوبائی کابینہ کے اجلاس کے دوران گندم کی سپورٹ پرائس 2200 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 14 لاکھ ٹن گندم خریدنے کی منظوری دی گئی اور اس مقصد کے لیے کابینہ 4 ارب 45 کروڑ روپے فنڈز بھی خریداری کے لیے منظور کر لیے۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس کے دوران صوبائی کابینہ کو بتایا گیا کہ مٹیاری-لاہور 4 ہزار میگاواٹ ہائی وولٹیج لائن 878 کلومیٹر طویل ہے، اس لائن کا کمرشل آپریشن بھی شروع ہوچکا ہے، یہ لائن سی پیک کے تحت بنائی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران محکمہ جیل کے حکام نے بتایا کہ محکمے میں گریڈ 5 سے 15 کی 2 ہزار 113 اسامیاں خالی ہیں، خالی اسامیوں میں ایک ہزار 355 پوسٹیں جیل کانسٹیبل کی ہیں، کابینہ نے بھرتیوں کے لیے تھرڈ پارٹی اوپن بڈنگ کرنے کی منظوری دے دی، اوپن بڈنگ کے ذریعے تھرڈ پارٹی منتخب کر کے ٹیسٹنگ کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: گورنر سندھ کا بلدیاتی حکومت ترمیمی بل پر دستخط سے انکار
مارکیٹ متاثرین کو معاوضہ دینے، جزائر کو پروٹیکٹڈ فاریسٹ ڈکلیئر کرنے کی منظوری
وزیر اطلاعات سندھ نے بتایا کہ کابینہ نے کوآپریٹو مارکیٹ اور وکٹوریا مارکیٹ کے متاثرین کو معاوضہ دینے کی منظوری بھی دے دی، ان مارکیٹس میں 14 نومبر 2021 کو آگ لگی تھی جس سے 280 دکانیں جل کر راکھ ہوگئی تھیں، سندھ کابینہ نے 91 کروڑ 52 لاکھ 30 ہزار روپے فنڈز مختص کرنے کی منظوری دی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر جنگلات تیمور تالپر نے کابینہ کو جزائر کے حوالے سے بریفنگ دی، بریفنگ کے بعد صوبائی کابینہ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنڈل اور بڈو جزائر کو پروٹیکٹڈ فاریسٹ ڈکلیئر کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کی منظوری دے دی۔